Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Aal-i-Imraan : 164
لَقَدْ مَنَّ اللّٰهُ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِهِمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِهٖ وَ یُزَكِّیْهِمْ وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ١ۚ وَ اِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ
لَقَدْ
: البتہ بیشک
مَنَّ
: احسان کیا
اللّٰهُ
: اللہ
عَلَي
: پر
الْمُؤْمِنِيْنَ
: ایمان والے (مومن)
اِذْ بَعَثَ
: جب بھیجا
فِيْھِمْ
: ان میں
رَسُوْلًا
: ایک رسول
مِّنْ
: سے
اَنْفُسِھِمْ
: ان کی جانیں (ان کے درمیان
يَتْلُوْا
: وہ پڑھتا ہے
عَلَيْھِمْ
: ان پر
اٰيٰتِھٖ
: اس کی آیتیں
وَيُزَكِّيْھِمْ
: اور انہیں پاک کرتا ہے
وَيُعَلِّمُھُمُ
: اور انہیں سکھاتا ہے
الْكِتٰبَ
: کتاب
وَالْحِكْمَةَ
: اور حکمت
وَاِنْ
: اور بیشک
كَانُوْا
: وہ تھے
مِنْ قَبْلُ
: اس سے قبل
لَفِيْ
: البتہ۔ میں
ضَلٰلٍ
: گمراہی
مُّبِيْنٍ
: کھلی
تحقیق اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں پر بڑا احسان کیا ہے کہ ان کے اندر انہی میں سے ایک رسول بھیجا ہے۔ وہ ان کو اس کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور ان کا تزکیہ کرتا ہے اور ان کو کتاب اور حکمت سکھاتا ہے اور بیشک اس سے پہلے یہ لوگ کھلی گمراہی میں تھے۔
ربط آیات : گذشتہ درس میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس چیز کی وضاحت فرمائی تھی۔ کہ نبی کی شان کے شایاں نہیں کہ وہ مال غنیمت میں سے کوئی چیز از خود اپنے پاس رکھ لے۔ وہ تو جماعت کا سربراہ ہے۔ اس کو اللہ نے اجازت دی ہے کہ جو چیز چاہے سر عام اپنی تحویل میں لے۔ لہذا اسے کیا ضرورت ہے کہ کوئی چیز خفیہ طور پر لے لے۔ اللہ کا پیغمبر ایسا نہیں کرسکتا۔ اللہ نے لوگوں کی تردید فرمائی جو اس قسم کا گمان کر رہے تھے۔ آج کے درس میں ہے کہ اللہ جل جلالہ نے اپنے رسول کو اہل ایمان کے لیے بطور نعمت پیش کیا ہے۔ آپ کے اوصاف حمیدہ اور آپ کے فرائض کا تذکرہ کیا ہے۔ احسان خداوندی : ارشاد ہوتا ہے لقد من اللہ علی المومنین۔ تحقیق اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں پر بڑا احسان کیا ہے۔ من کا عام فہم معنی احسان کرنا ہے۔ جب کہ اس کا اصل معنی قطع کرنا ہے۔ عربی محاورے کے مطابق جس شخص کو نعمت حاصل ہوجائے اس کی تکلیف قطع ہجاتی ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہوتا ہے۔ چناچہ جزائے عمل کے متعلق اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ فلھم اجر غیر ممنون۔ ان کے لیے ایسا اجر ہوگتا جو منقطع نہیں ہوگا۔ کبھی زائل نہیں ہوگا بلکہ ابدی ہوگا۔ اونٹون کے چلنے سے جو گردو غبار اٹھتا ہے اسے منین کہتے ہیں کیونکہ وہ بھی آہستہ آہستہ منقطع ہوتا رہتا ہے غرضیکہ من کا لفظی معنی قطع کرنا اور اصطلاحی معنی احسان کرنا آتا ہے۔ اسی لیے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان پر بڑا احسان فرمایا ہے۔ قرآن پاک کو اللہ تعالیٰ نے عام لوگوں کے لیے عموما اور متقین اور مومنین کے لیے خصوصاً ذریعہ ہدایت فرمایا ہے۔ جیسے ھدی للمتقین۔ یہ متقیوں کے لیے ہدایت ہے۔ ھدی و بشری للمومنین۔ مومنوں کے لیے ہدایت اور بشارت ہے۔ نیز ھدی للناس وبینت من الھدی۔ عام لوگوں کے لیے منبع ہدایت ہے اس طرح حضور ﷺ کی یہ دو حیثیتیں بھی بیان فرمائی ہیں۔ جیسے آپ کی زبان سے کہلوایا۔ قل یا ایھا الناس انی رسول اللہ الیکم جمیعا۔ اے نبی (علیہ السلام) ! آپ فرما دیں کہ اے لوگو ! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول بن کر آیا ہوں۔ سب کی ہدایت اور راہنمائی کے لیے مبعوث ہوا ہوں۔ اور آپ کی لائی ہوئی ہدایت و راہنمائی سے سب سے زیادہ مستفید تو متقین اور مومنین ہی ہوتے ہیں۔ لہذا حضور ﷺ کی رسالت کا زیادہ احسان بھی انہی پر ہے اور وہ احسان یہ ہے۔ اذ بعث فیھم رسولا۔ کہ ان میں ایک رسول بھیجا اور رسول بھی وہ جو عظیم الشان ، عالی مرتبت اور کمال عطمت والا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی دو عظیم نعمتوں میں سے پہلی نعمت حضور نبی کریم ﷺ کا وجود مبارک ہے۔ جو تمام انسانیت کے لیے بالعموم اور اہل ایمان کے لیے بالخصوص بہت بڑی نعمت ہے۔ کسی انسان کو جس قدر کمالات حاصل ہوسکتے ہیں ، وہ صرف پیغمبر (علیہ السلام) کے واسطے سے ہی حاصل ہوسکتے ہیں۔ چناچہ پیغمبر کی ذات ایک مومن کے لیے حصول کمال کا ذریعہ بھی ہے اور تقرب الی اللہ کا بھی اور پھر بالآخر نجات کا ذریعہ بھی یہی ہے۔ لہذا عظیم ترین نعمت یہی ہے ۔ مفسرین کرام امام جعفر (رح) کا قول بیان کرتے ہیں۔ کہ دنیا کی مادی نعمتیں تو عام ہیں۔ کوئی انسان ان سے خالی نہیں۔ اسبغ علیکم نعمہ ظاھرۃ وباطنۃ۔ اللہ نے تمہیں ظاہر و باطن کی تمام نعمتیں عطا کی ہیں۔ اور ان کی تعداد اس قدر ہے کہ تمہارے احاطہ شمار سے باہر ہے۔ اسی لیے فرمایا۔ وان تعدوا نعمۃ اللہ لا تحصوھا۔ اگر تم اللہ کی نعمتوں کو گننا چاہو ، تو ایسا نہیں کرسکتے کیونکہ اس کی نعمتیں شمار سے باہر ہیں۔ انسان کے اپنے وجود اور اس کی باطنی قوتوں سے لے کر ظاہری جسم کے تمام متعلقات اور اس کے ارد گرد اللہ کی اتنی نعمتیں موجود ہیں۔ کہ وہ ان سے ہر وقت استفادہ کرتا رہتا ہے۔ امام صاحب فرماتے ہیں کہ اتنی کثیر تعداد میں نعمتیں موجود ہونے کے علاوہ دو نعمتیں ایسی ہیں جو ان سب سے بڑھ کر ہیں۔ فرمایا ایک نعمت پیغمبر خدا کا وجود ہے اور دوسری اللہ کا کلام قرآن پاک ہے اور یہ دونوں نعمتیں صرف ایمان والوں کو حاصل ہیں۔ مادی نعمتیں تو بعض اوقات ایمان سے مھروم لوگوں کو اہل ایمان سے بھی زیادہ حاصل ہوتی ہیں۔ مگر عظیم ترین نعمتیں یعنی پیغمبر خدا اور قرآن پاک صرف اہل ایمان کا حصہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء کو نسل انسانی میں پیدا کرکے ان کے عروج ، ترقی اور اعلی مراتب کا بندوبست کردیا ہے اور قرآن پاک جو اللہ کا کلام اور اس کی صفت ہے ، اسے نازل کرکے انسانیت کی عظمت کو مزید بلند کردیا ہے۔ یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے متعلق اس کا عام قانون یہ ہے۔ لئن شکرتم لازیدنکم۔ اگر حصول نعمت پر میرا شکر ادا کروگے تو میں انعامات میں اضافہ کروں گا۔ ولئن کفرتم ان عذابی لشدید۔ اگر کفران نعمت کروگے تو میرا عذاب بھی بڑا شدید ہے۔ فرمایا اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان پر احسان فرمایا کہ ان میں ایک عظیم الشان رسول مبعوث فرمایا۔ من انفسہم۔ انہی میں سے یعنی انسانوں میں سے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کو ملائکہ یا جنات میں سے نہیں بنایا بلکہ اہل ایمان کی جنس انسانی میں سے اٹھایا ہے۔ صحیح حدیث میں آتا ہے۔ کہ عرب و عجم میں سے اللہ نے آپ کو عربوں میں پیدا فرمایا۔ اور پھر عربوں کے قبائل میں سے بہتر قبیلے میں پیدا کیا ، یعنی اللہ نے آپ کو عرب کے سب سے اشرف قبیلے میں اٹھایا گویا اس لفظ سے یہ بات واضح ہوگئی کہ حضور خاتم النبیین ﷺ تمام انبیاء انسان اور بشر ہیں بلکہ سید البشر ہیں یعنی آپ تمام انسانوں کے سردار ہیں اور اسی نسل انسانی میں سے ہیں کسی دوسری جنس سے نہیں ہیں۔ سید محمود آلوسی بغداد متوفی 1270 ھ آخری دور کے عظیم مفسر گزرے ہیں۔ آپ نے روح المعانی جیسی عظیم تفسیر تیس جلدوں میں قلمبند کی ہے۔ اور کمال یہ ہے کہ یہ تفسیر انہوں نے جوانی کے عالم میں لکھی ہے۔ آپ شاہ عبدالعزیز (رح) کے ہمعصر تھے۔ شاہ صاحب 1239 ھ میں ہی وفات پا گئے ، تاہم آپ کا زمانہ 1270 ھ تک جاتا ہے۔ علم تفسیر کے ساتھ ساتھ آپ کو فقہ اور علم حدیث پر بھی عبور حاصل تھا۔ آپ نے اپنی تفسیر میں یہ واقعہ بیان کیا ہے کہ کسی نے امام عراقی سے دریافت کیا کہ حضرت ! ایمان کے صحیح ہونے کے لیے کیا یہ شرط ہے کہ اللہ کا رسول بشر ہے ، عربوں میں ہے اور عجمی نہیں ہے ؟ آپ نے جواب دیا بیشک شرط ہے۔ جو شخص حضور ﷺ کے متعلق یہ عقیدہ نہ رکھے اس کا ایمان صحیح نہیں ہوگا ، کیونکہ اس پر نصوص قرآنی کا انکار لازم نہ آئے گا۔ اور آدمی کافر ہوجائے گا۔ تو گویا۔ من انفسہم۔ میں یہ تام متعلقات شامل ہیں۔ اگر اس معاملہ میں کوئی ناواقف ہے۔ مسئلے کا پوری طرح علم نہیں تو اسے بتانا پڑے گا کہ بھائی اچھی طرح سمجھ لو کہ ہمارے نبی انسان تھے اور عربوں میں سے تھے اور عجمی نہیں تھے۔ اس کے باوجود اگر کوئی شخص آپ کی بشریت یا عربی ہونے کا انکار کرتا ہے تو وہ دائرہ کفر میں داخل ہوجاتا ہے۔ عقیدہ نور من اللہ : بڑے افسوس کا مقام ہے کہ اس زمانے میں لوگوں نے عیسائیوں کی طرز پر نور من نور اللہ۔ کا عقیدہ وضع کرلیا ہے۔ گویا انہوں نے ۔ وجعلوا لہ من عبادہ جزءا۔ اللہ کے رسول کو اس کا جزو بنا دیا ہے۔ عیسائیوں کا عقیدہ بھی یہی ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) خدا کے بیٹے ہیں۔ جو بیٹا ہوتا ہے وہ باپ کا جزو ہوتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ اس چیز سے پاک ہے۔ انہوں نے بیٹا بنا کر خدا کا جزو بنایا ، ہم نے اللہ کے نور میں سے نور کہہ کر جزو ہونے کی تصدیق کردی۔ فرق کیا رہ گیا ؟ ہاں بھئی ! حضور نبی کریم ﷺ نور ہدایت یقیناً ہیں۔ آپ کے نور ہدایت کی روشنی چار دانگ عالم میں پھیلی۔ مگر آپ انسان اور بشر ہیں اور بڑے بڑے عالی مرتبے والے ہیں۔ حضور ﷺ کی بشریت کا اقرار قطعاً باعث توہین نہیں بلکہ اشرف المخلوقات میں سے ہونے کی بناء پر آپ کی عظمت میں اور اضافہ ہوجاتا ہے۔ ابوالبشر حضرت آدم (علیہ السلام) کی تخلیق پر اللہ نے بطور انعام اس بات کا اعلان فرمایا کہ دیکھو میں نے مٹی سے کس قدر باکمال ہستی کو پیدا کیا ہے۔ میر تقی میر نے اس بات کی ترجمانی یوں کی ہے۔ میرے مالک نے مرے حق میں یہ احسان کیا خاکِ ناچیز تھا میں سو مجھے انسان کیا لہذا بشر ہونا کمال کی علامت ہے نہ کہ توہین کی۔ صحابہ کرام بھی حضور ﷺ کے متعلق یہی عقیدہ رکھتے تھے۔ ان کے زمانہ میں نور من نور اللہ کا کوئی عقیدہ موجود نہیں تھا۔ آپ نور ہدایت ہیں مگر انسان ہیں۔ عائشہ صدیقہ سے بالکل بالوضاحت مروی ہے۔ کان رسول اللہ بشرا من البشر۔ حضور ﷺ انسانوں میں سے ایک انسان تھے۔ مسلم کی روایت میں موجود ہے کہ نبی (علیہ السلام) نے خود فرمایا میں بھی انسان ہوں۔ میں بھی کبھی کبھی بھول جاتا ہوں۔ اگر نماز میں بھول جاؤں تو مجھے یاد دلا دیا کرو۔ وہاں پر ذکرونی کے الفاظ موجود ہیں۔ ظاہر ہے کہ خطا اور نسیان انسان سے ہی سرزد ہوتی ہے۔ انسانی زندگی کے تمام لوازمات کھانا پینا ، قضائے حاجت بیوی بچے ، صحت ، بیماری ، زندگی اور موت وغیرہ تمام انبیاء کے ساتھ بھی یکساں ہیں۔ امور طبعیہ رونا ہنسنا وغیرہ انبیاء کے ساتھ بھی لازم ہے۔ البتہ یہ ہے کہ انبیاء کا ایمان ، اعتقاد ، اور اخلاق غایت درجے کا ہوتا ہے اور وہ حد کمال تک پہنچے ہوئے ہیں ، مگر ہیں بہرحال انسان۔ تلاوت قرآن : آیت کے اگلے حصے میں اللہ نے اپنے نبی کے وہ کام بیان فرمائے ہیں جو وہ انجام دیتا ہے۔ پیغمبر خدا (علیہ السلام) کا پہہلا فریضہ یہ ہے کہ یتلو علیھم ایتہ ، وہ لوگوں کو اللہ کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے۔ وہ لوگوں کو اللہ کے کلام اور اس کے احکام سے آگاہ کرتا ہے۔ یہ تلاوت پاک ہے اور اس لحاظ سے حضور ﷺ اولین مبلغ اسلام ہیں۔ تلاوت قرآن سب سے اعلیٰ درد ہے حضور ﷺ نے تلاوت قرآن کو افضل ال اور اد فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ جو شخص ایمان کی حالت میں نیک نیتی کے ساتھ تلاوت قرآن کرے گا۔ میں اسے مانگنے والوں سے زیادہ دوں گا اگرچہ وہ مجھ سے کوئی سوال نہ کرے۔ تلاوتِ کلام پاک کا اجر اس قدر زیادہ ہے۔ کہ ایک ایک حرف کے بدلے اللہ تعالیٰ دس دس نیکیاں عطا فرمائے گا۔ یہ شرف صرف قرآن پاک کو ہی حاصل ہے کہ کوئی اسے سمجھ کر پڑھے یا بغیر سمجھئے۔ اجر سے محروم نہیں رہے گا۔ یہ ہے وہ قرآن مجید جس کے متعلق فرمایا کہ اللہ کا نبی اس کی آئتیں پڑھ کر سناتا ہے۔ مرشد کامل : فرمایا حضور اکرم ﷺ کا دوسرا فریضہ یہ ہے۔ ویزکیھم۔ اور ان کا تزکیہ کرتا ہے۔ حضور ﷺ اس لحاظ سے امت کے لیے مرشد ہیں کیونکہ تزکیہ نفس کرنا مرشد کا کام ہے۔ تزکیہ کا مطلب یہ ہے کہ سب سے پہلے انسان کی باطنی گندگی دور ہوجائے۔ اس عمل کو بزرگانِ دین تخلیہ سے عبیر کرتے ہیں۔ کہ انسان کی تمام رذیل خصلتیں دور ہوجائیں ، کفر ، شرک ، نفاق اور بداخلاقی وغیرہ سے پاک ہوجائے۔ اور اس کے بجائے انسان اوصاف حمیدہ سے متصف ہوجائے۔ شرک کی جگہ توحید آجائے۔ کفر کی بجائے ایمان حاصل ہو۔ اور بداخلاقی ، خوش اخلاقی میں بدل جائے۔ یہ ہے وہ تزکیہ جسے مرشد برحق انجام دیتا ہے۔ جب یہ عمل پایہ تکمیل کو پہنچتا ہے تو معصیت کی بجائے عبادت کی صفت آجاتی ہے۔ اور تمام کدورتیں دور ہو کر انسان کا عقیدہ اور دل و دماغ بالکل پاک صاف ہوجاتا ہے۔ حضور ﷺ تمام کائنات کے لیے بالعموم اور اہل ایمان کے لیے بالخصوص مرشد کامل ہیں۔ آپ نے اپنے صحابہ کی تربیت اسی طریقہ پر فرمائی۔ حضور ﷺ کے اخلاق حمیدہ اور تربیت خاصہ سے متعلق بہت سے واقعات ملتے ہیں۔ حضرت معاویہ سلمی ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نماز میں کلام کرتا ہوا داخل ہوا۔ کچھ لوگوں نے اشارے کنائے سے مجھے ڈانٹا۔ مجھے بھی غصہ آیا۔ جب میں نماز سے فارغ ہوا تو حضور ﷺ نے نہایت شفقت سے اپنے پاس بلا کر فرمایا دیکھو ! نماز میں انسانی کلام کی گنجائش نہیں ہوتی۔ نماز تو اللہ کے ذکر کے لیے ہے۔ اس میں تسبیح و تہلیل قرآن کی تلاوت اور اللہ تعالیٰ کے سامنے مناجات بیان ہوتی ہے۔ لہذا نماز میں کوئی دوسرا کلام نہیں کرنا چاہئے۔ آپ نے نہ مجھے سرزنش کی اور نہ برا بھلا کہا بلکہ نہایت مشفقانہ انداز میں بات سمجھا دی۔ فرماتے ہیں۔ خدا کی قسم ما رایت معلما۔ میں نے کبھی ایسا شفیق معلم نہیں دیکھا۔ اسی طرح ایک آدمی نے مسجد میں پیشاب کردیا۔ لوگوں نے اس شخص کی طرف قہر آلود نظروں سے دیکھا۔ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا اسے کچھ نہ کہو ، یہ ادھر ادھر بھاگے گا تو باقی مسجد کو بھی آلودہ کرے گا۔ جب وہ شخص پیشاب کرچکا تو آپ نے فرمایا یہاں پانی بہا کر جگہ کو صاف کردو۔ ابو داود شریف کی حدیث میں آتا ہے کہ آپ نے وہاں سے تھوڑی سی مٹی بھی نکلوا دی اس کے بعد آپ نے اس آدمی کو نرمی سے سمجھایا کہ یہ اللہ کا گھر ہے۔ یہاں تلاوت قرآن پاک ، نماز اور دیگر عبادات ہوتی ہیں۔ یہاں گندگی پھیلانا مناسب نہیں۔ ایک شخص نے آکر عرض کیا۔ حضور ! میں ایمان قبول کرنے کے لیے تیار ہوں مگر مجھے زنا کی لت پڑچکی ہے جو مجھ سے چھوٹتی نہیں۔ حضور ﷺ نے اسے اپنے قریب بلایا۔ اس پر اپنا دست شفقت رکھا اور دعا فرمائی کہ اے اللہ ! اس کو ہدایت نصیب فرما۔ پھر آپ نے اس شخص کو سمجھایا کہ دیکھو اگر کوئی دوسرا شخص تمہاری ماں یا بہن یا بیٹی کے ساتھ ایسی حرکت کرے ، تو کیا تم پسند کروگے۔ عرض کیا۔ حضور ! ہرگز نہیں ، آپ نے فرمایا کہ جن کے ساتھ تم زیادتی کرتے ہو ، وہ بھی کسی کی ماں ، بہن یا بیٹی ہوتی ہے۔ یہ سن کر وہ شخص سخت نادم ہوا ، اور اس قبیح فعل سے ہمیشہ کے لیے تائب ہوگیا۔ اسی چیز کا نام تزکیہ ہے۔ کہ انسان سے بری خصلتوں کو نکالا جائے اور اس میں اچھی خصلتیں پیدا کی جائیں۔ یہی وہ فریضہ ہے۔ جو نبی (علیہ السلام) انجام دیتے رہے۔ قرآنی تعلیمات : فرمایا اللہ کا نبی تیسرا کام یہ کرتا ہے۔ و یعلمھم الکتب۔ وہ لوگوں کو کتاب کی تعلیم دیتا ہے۔ کتاب سے مراد قرآن پاک ہے قرآن پاک اگرچہ عربی زبان میں نازل ہوا اور اس کے اولین مخاطبین بھی عرب ہی تھے۔ اس کے باوجود اس کے رموز ونکات کی وضاحت کی ضرورت پیش آتی تھی۔ بعض اوقات بعض امور کو سمجنے میں اہل زبان بھی دقت محسوس کرتے ہیں۔ لہذا یہ بھی نبی کے فرائض میں داخل ہے کہ وہ امت کو منزل من اللہ کتاب کی تعلیم دے۔ قرآن پاک کی یہ آیت جب نازل ہوئی حتی یتبین لکم الخیط الابیض من الخیط الاسود۔ یعنی جب سفید دھاگہ سیاہ دھاگے سے ظاہر ہوجائے تو سحری کھانا بند کردو۔ تو بعض اہل زبان نے بھی سفید اور سیاہ دھاگے پاس رکھ لیے ، تاکہ اختتام سحری کا تعین کرسکیں۔ جب یہ بات حضور ﷺ کے پاس بیان کی گئی تو آپ مسکرائے اور فرمایا تمہارا تکیہ بڑا لمبا چوڑا ہے جس میں تم نے رات اور دن کو لپیٹ کر رکھ لیا۔ فرمایا سیاہ اور سفید دھاگے سے مراد رات اور دن ہیں۔ یہ عام دھاگے مراد نہیں ہیں۔ چناچہ اس اشتباہ کو دور کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے من الفجر کے الفاظ کا اضافہ فرما دیا۔ امن اور ہدایت پانے والے لوگوں کی یہ صفت بیان ہوئی۔ الذین امنوا ول یلبسوا ایمانہم بظلم۔ جو ایمان لائے اور اپنے ایمان میں ظلم کی ملاوٹ نہیں کی ہے اس پر بھی صحابہ کو اشتباہ پیدا ہوا۔ کہ ایسا کونسا آدمی ہے جس نے اپنے نفس پر کوئی زیادتی نہ کی ہو۔ وہ متفکر ہوگئے کہ اس طرح تو نجات بہت شکل ہے۔ حضور ﷺ کو صحابہ کی اس تشویش کا علم ہوا تو فرمایا کہ یہاں پر ظلم سے مراد عام گناہ نہیں ہے ، معمولی لغزشیں تو لوگوں سے ہرو قت سرز ہوتی رہتی ہیں۔ بلکہ بعض کبیرہ گناہ بھی سرزد ہوجاتے ہیں ، جو توبہ سے معاف ہوجاتے ہیں تاہم یہاں پر ظلم سے مراد شرک ہے جس کی کوئی معافی نہیں۔ لہذا جو شرک سے محفوظ رہا ، اس کی نجات ممکن ہے۔ اسی لیے تو حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کی تھی۔ یبنی لا تشرک باللہ ان الشرک لظلم عظیم۔ اے بیٹے ! اللہ کے ساتھ شریک نہ ٹھہرانا کیونکہ شرک گناہ عظیم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فیصلہ فرما دیا ہے کہ ہر خطا معاف فرما دوں گا ، سوائے شرک کے۔ مقصد یہ ہے کہ اللہ کا نبی لوگوں کو قرآن کی تعلیم دیتا ہے۔ تعلیم حکمت : چوتھی چیز فرمایا۔ والحکمۃ۔ پیغمبر خدا لوگوں کو حکمت کی تعلیم بھی دیتا ہے۔ حکمت کا عام فہم مطلب دانائی ، دانشمندی یا گہری سمجھ کی باتیں ہیں۔ حضور نبی کریم ﷺ نے ایک جاہل قوم کی تربیت اس طریقے سے کی کہ انہیں دنیا کی متمدن قوموں کی صف میں لا کھڑا کیا۔ یہ لوگ علم و ھکمت اور اخلاق سے عاری تھے ، مگر یہ حضور ﷺ کی تعلیم حکمت کا نتیجہ تھا کہ انہیں علم و حکمت کے بام عروج تک پہنچا دیا۔ اور امی کہلانے والے لوگ دنیا کے معلم بن کر ابھرے ۔ حکمت سے مراد حضور ﷺ کی سنت مبارکہ بھی ہے۔ مولانا گنگوہی فرماتے ہیں کہ ہر صحیح حدیث جو آنحضرت ﷺ سے ثابت ہے ، وہ قرآن کی شرح ہے ، جو چیز حضور نبی کریم ﷺ کے قول ، فعل یا تقریر سے ثابت ہو وہ سراپا ہدایت ہے۔ حکمت کی تشریح پہلے اور دوسرے پارے میں بھی تفصیل کے ساتھ آ چکی ہے۔ فرمایا وان کانوا من قبل لفی ضلل مبین۔ بیشک حضور کی بعثت سے قبل یہ لوگ صریح گمراہی میں تھے۔ یعنی اس قدر بھٹکی ہوئی قوم کو نبی کریم ﷺ نے تعلیم قرآن و حکمت ، تزکیہ نفس اور تلاوت قرآن کے ذریعے ایک با اخلاق اور متمدن قوم بنا دیا۔ اس زمانے میں جگہ جگہ بت رکھے ہوئے تھے حتی کہ خود بیت اللہ شریف میں 360 بت تھے ، پوری کی پوری قوم شرک کی لعنت میں گرفتار تھی توحید کا تصور رکھنے والا کوئی اکا دکا آدمی ہی ملتا تھا۔ انہوں نے ملت ابراہیمیہ کے اصلوں کو بگاڑ کر رکھ دیا تھا۔ گزشتہ چار پانچ صدیوں سے پوری دنیا شرک کی لپیٹ میں آ چکی تھی۔ ان حالات میں اللہ تعالیٰ نے اپنا خاص احسان فرمایا کہ ایک عظیم الشان رسول مبعوث فرما کر ایمان اور نیکی کی دولت عطا فرمائی۔ قرآن و سنت جیسی عظیم نعمتیں عطا کیں۔ اس سے زیادہ اللہ کا کیا احسان ہوسکتا ہے۔
Top