Baseerat-e-Quran - Al-Ahzaab : 49
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِنٰتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوْهُنَّ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَمَسُّوْهُنَّ فَمَا لَكُمْ عَلَیْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ تَعْتَدُّوْنَهَا١ۚ فَمَتِّعُوْهُنَّ وَ سَرِّحُوْهُنَّ سَرَاحًا جَمِیْلًا
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : ایمان والو اِذَا : جب نَكَحْتُمُ : تم نکاح کرو الْمُؤْمِنٰتِ : مومن عورتوں ثُمَّ : پھر طَلَّقْتُمُوْهُنَّ : تم انہیں طلاق دو مِنْ قَبْلِ : پہلے اَنْ : کہ تَمَسُّوْهُنَّ : تم انہیں ہاتھ لگاؤ فَمَا لَكُمْ : تو نہیں تمہارے لیے عَلَيْهِنَّ : ان پر مِنْ عِدَّةٍ : کوئی عدت تَعْتَدُّوْنَهَا ۚ : کہ پوری کراؤ تم اس سے فَمَتِّعُوْهُنَّ : پس تم انہیں کچھ متاع دو وَسَرِّحُوْهُنَّ : اور انہیں رخصت کردو سَرَاحًا : رخصت جَمِيْلًا : اچھی طرح
اے ایمان والوں ! جب تم مومن عورتوں سے نکاح کرو اور انہیں ہاتھ لگانے (صحبت کرنے) سے پہلے ہی طلاق دے دو تو تمہارے طرف سے ان پر کوئی عدت نہیں ہے جس کے پورا کرنے کا تم (ان سے) مطالبہ کرسکو ۔ انہیں کچھ دے دلا کر نہایت اچھے طریقے سے رخصت کردو۔
لغات القرآن : آیت نمبر 49 تا 50 نکحتم : تم نے نکاح کرلیا طلقتم : تم نے طلاق دے دی تمسوا : تم نے ہاتھ لگایا (صحبت کی) تعتدون : تم نے عدت کی متعوا : تم سامان دے دو سرحوا : تم چھوڑ دو اجور (اجر) : مہر افآء : مال غنیمت حاصل ہوا ۔ بغیر جنگ حاصل ہونے والا مال وھبت : سپرد کردیا۔ ہبہ کردیا تشریح آیت نمبر 49 تا 50 اسی سورت میں ایک جگہ فرمایا گیا ہے کہ ہر وہ شخص جو اللہ کی رحمتوں اور آخرت کی زندگی پر یقین رکھتے ہوئے اللہ کا ذکر کرنے والا ہے اس کے لئے رسول اللہ ﷺ کی بےمثال زندگی اسوہ حسنہ ہے۔ آپ کی زندگی وہ مبارک و پاکیزہ زندگی ہے جس کی اتباع اور پیروی ضروری ہے ۔ اسی میں دنیا اور آخرت کی کامیابی کا راز پوشیدہ ہے۔ جو لوگ رسول اللہ کا راستہ چھوڑ کر دوسرے راستوں پر چلتے ہیں ان کو زندگی کی راہوں میں سوائے بھٹکنے کے اور کچھ نصیب نہین ہوگا۔ قرآن کریم اور احادیث مبارکہ کی روشنی میں ہر مسلمان کا یہ ایمان ہے کہ دونوں جہانوں میں اللہ تعالیٰ کے بعد سب سے اعلیٰ اور برتر رتبہ و مقام صرف سرکار دو عالم خاتم الانبیا حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کو حاصل ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ جب نبی کریم ﷺ کا اسوہ حسنہ اور اللہ کے بعد رتبہ و مقام سب سے بلند ہے تو پھر آپ کی زندگی ہی اتباع و پیروی کے لائق ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے آپ پر ان تمام کیفیات اور حالات کو طاری فرمایا جو امت کی رہبری و رہنمائی کے لئے ضروری ہیں ۔ مثال کے طور پر (1) نبی کریم ﷺ کے لئے کتابیہ عورت (یہودی یا عیسائی) سے نکاح ممنوع تھا جب کہ قرآن کریم کے ارشادات کے مطابق عام مسلمانوں کے لئے کتابیہ عورتوں سے نکاح حلال ہے۔ (2) آپ کے لئے اور آپ کے خاندان کے ہر فرد کے لئے صدقہ لینا حرام تھا اور ہے جب کہ دوسرے مومنوں کے لئے حرام نہ تھا اور نہ ہے۔ (3) جب تک پانچ وقت کی نمازیں فرض نہ تھیں اس وقت تک مومن پر نماز تہجد فرض کا درجہ رکھتی تھی لیکن جب پانچوں وقت کی نمازیں فرض کردی گئیں تو تمام اہل ایمان مسلمانوں کے لئے نماز تہجد نفل اور سنت بن گئی جب کہ نبی کری ﷺ پر فرض ہی رہی۔ (4) اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ کی ازواج (بیویاں) امت کی مائیں ہیں۔ آپ کے وصال کے بعد آپ کی ازواج سے کوئی مسلمان نکاح نہیں کرسکتا یہاں تک جو کنیز (باندی) آپ کے حلال کی گئی ہے آپ کے وصال کے بعد بھی وہ بھی کسی امتی کے لئے حلال نہیں ہے یعنی جس طرح آپ کے وصال کے بعد آپ کی ازواج مطہرات کا نکاح کسی سے جائز نہیں ہے اسی طرح ان باندیوں سے نکاح کرنا بھی جائز نہیں رکھا گیا جن کو آپ نے اپنی زوجیت میں لیا تھا۔ (5) اگر کوئی مسلمان عورت نبی کریم ﷺ کے لئے آپ کو ہبہ کردے یعنی بغیر مہر کے آپ کے سے نکاح کرنا چاہے اور آپ بھی اس سے نکاح کے خواہش مند ہوں تو بغیر نکاح کے نکاح جائز ہے حالانکہ اوروں کے لئے نکاح میں مہر باندھنا شرط لازم ہے۔ یہ بھی آپ کی ایک خصوصیت ہے۔ یہاں اس بات کی وضاحت مناسب رہے گی کہ اگرچہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بغیر مہر کے نکاح کرنے کی اجازت دی تھی مگر آپ نے نکاح میں آنے والی ہر زوجہ کا مہر نقد ادا فرمایا ہے۔ (6) عام مسلمانوں کے لئے بیویوں کی تعداد کو چار تک محدود کردیا گیا ہے یعنی چار بیویوں کی موجودگی میں پانچویں کی اجازت نہیں ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو اس اصول کا پابند نہیں بنایا کہ بلکہ آپ کو چار سے زیادہ شادیاں کرنے کی اجازت کے ساتھ فرمایا کہ آپ کو بعض دینی مصلحتوں کی بنا پر تنگی محسوس نہ ہو اور اس سلسلہ میں وسعت حاصل ہوجائے۔ دشمنان اسلام نے اس آخری خصوصیت کو ایک یسا رنگ دینے کی کوشش کی ہے جس سے آپ کی شخصیت پر کیچڑ اچھالا جاسکے ۔ حالانکہ ان شادیوں کی کثرت سے دین اسلام کے بنیادی اصولوں کی عظمتوں کو چار چاند لگ گئے ہیں ۔ یہ موضوع تو بہت زیادہ وضاحت طلب ہے جس کے لئے بڑی کتابیں بھی نا کافی ہیں اس سلسلہ میں چند موٹی موٹی باتیں عرض ہیں تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ ان شادیوں کی کثرت میں کیا مصلحتیں پوشیدہ تھیں۔ عربوں میں دامادد بنانے کو برا سمجھا جاتا تھا اور بعض قبیلے تو اپنی بیٹیاں کو پیدا ہوتے ہی اس لئے قتل کردیا کرتے تھے کہ اگر یہ بیٹیاں زندہ رہیں گی تو داماد آئے گا۔ اور داماد کا آنا ان کے لئے تو توہین کا سبب تھا۔ اس دور میں قبیلوں کے دستور کے مطابق قبیلے کے کسی بھی فرد کا داماد پورے قبیلے کا داماد کہلاتا تھا اس لئے اس میں پورے قبیلے کی توہین سمجھی جاتی تھی مگ آپ نے عرب کے اکثر اہم قبیلوں میں شادیاں کرکے دامادیت کی کراہیت کے تصور کو عظمت سے تبدیل فرما دیا اور پیدا ہونے والی لڑکیوں کے ساتھ اس درندگی کو ہمیشہ کے لئے ختم فرمادیا۔ ان شادیوں کے ذریعہ آپ نے بہت حد تک خاندانوں اور قبیلوں کی باہمی دشمنی اور جاہلانہ رسموں کا زور توڑ کر رکھ دیا تھا تاکہ انسانی معاشرہ کی عملی اصلاح ہو سکے۔ چناچہ آپ نے اپنی پھوپھی زاد بہن حضرت زینت ؓ کا نکاح اپنے ایک آزاد غلام حضرت زید ؓ ابن حارثہ سے کرکے آقا اور غلام کو مٹا کر رکھ دیا اور جب حضرت زینب ؓ اور حضرت زید ؓ میں باہمی شیدید اختلافات کی وجہ سے طلاق ہوگئی تو آپ نے اللہ کے حکم سے ان کی عدت گذرنے کے بعد ان سے نکاح کرلیا۔ چونکہ حضور اکرم ﷺ نے حضرت زید کو اپنا بیٹا بنا رکھا تھا اور اس زمانہ میں منہ بولا بیٹا حقیقی بیٹوں کی طرح سمجھا جا اتا تھا اس لئے حضرت زینب ؓ ؓ سے نکاح پر کفار و مشرکین نے بہت زہریلا پر پیگنڈہ کیا اور یہ کہنا شروع کہ کہ آپ ﷺ نے اپنے بیٹے کی مطلقہ بیوی سے شادی کرلی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ حضرت محمد ﷺ تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں۔ مطلب یہ تھا کہ اب قیامت تک کے لئے اس رسم کو مٹا دیا گیا ہے کہ جس کو منہ سے بیٹا کہہ دیا جائے وہ حقیقی بیٹا بن جاتا ہے۔ اس طرح حضرت زینب ؓ سے نکاح کے ذریعہ اس رسم کو ختم فرمادیا گیا۔ حضرت صفیہ ؓ حضرت جویریہ ؓ اور حضرت ریحانہ ؓ یہودیوں کے مشہور قبیلوں کی بیٹیاں تھیں۔ جنگ میں گرفتار ہو کر آئیں۔ جب انہوں نے اسلام قبول کرلیا تو آپ نے ان کو آزاد کر کے ان سے نکاح فرمالیا۔ اس سے سب سے پہلے بڑافائدہ یہ ہوا کہ آپ کے خلاف یہودیوں کی شازشیں اور سرگرمیاں ٹھنڈی ہونا شروع ہوگئیں۔ آپ نے حضرت عائشہ ؓ اور حضرت حفصہ ؓ سے نکاح فرمایا تو حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق سے آپ کا تعلق اور گہرا ہوگیا ۔ حضرت امہ سلمہ ؓ اور حضرت ام حبیبہ سے نکاح کیا تو حضرت خالد بن ولید ؓ اور حضرت ابوسفیان ؓ جو اسلام لانے سے پہلے بنی کرم ﷺ کے سب سے بڑے دشمن تھے ان کی مخالفین دم توڑ گئیں۔ آپ نے آزاد کردہ باندیوں کو اپنی ازواجی زندگی میں شامل کرکے اس تصور کو ہمیشہ کے لئے مٹا دیا کہ باندیوں سے نکاح کرنا کوئی بری بات ہے بلکہ آپ نے آزاد خواتین کے ساتھ ساتھ باندیوں کو بھی انسانیت کے رتبہ میں برابر کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے چچا زاد، پھوپھی زاد، ماموں زاد اور خالہ زاد بہنوں سے یعنی بنی قریش میں سے جو ماں اور باپ کی رشتہ دار ہوں نیز انہوں نے آپ کے ساتھ ہجرت بھی کی ہو تو آپ کو ان سے نکاح کی اجازت دے دی گئی چناچہ 7 ھ میں آپ کا نکاح حضرت ام حبیبہ ؓ سے ہوا ور اس طرح چچا زاد، پھوپھی زاد اور خالہ زاد بہنوں کے ساتھ تمام مسلمانوں کو نکاح کی اجازت دے دی گئی۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کے علاوہ آپ کی جتنی بھی ازواج مطہرات ہیں وہ سب کی سب بیوہ تھی بلکہ ان میں سے اکثر تو وہ تھیں جن کے کئی کئی نکاح ہوچکے تھے۔ آپ نے اس سنت کے ذریعہ ہر مومن کو اس بات کی تلقین فرمادی ہے کہ وہ عورتیں جو کسی وجہ سے اپنے شوہروں سے علیحدہ ہوجائیں تو ان کو معاشرہ میں اس طرح بےسہارا نہ چھوڑا جائے بلکہ بیوہ عورتوں سے نکاح کرنے کو ایک عظیم نیکی اور سنت بنا دیا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ نے اپنی جوانی کے دنوں میں بیوہ خاتون حضرت خدیجہ ؓ سے شادی کی اور جب اسلامی جنگوں میں بڑے پیمانے پر مسلمان شہید ہوئے تو آُنے متعدد نکاح فرمائے جس پر دوسرے اہل ایمان نے بھی عمل کیا اور اس طرح بےسہارا اور بیوہ عورتوں کو عزت کی چھت اور ان کی اولاد کو نسب حاصل ہوا۔ نبی کریم ﷺ نے پچیس سا ل کی عمر میں ام المومنین حضرت خدیجہ ؓ سے نکاح فرمایا۔ اس وقت عام رروایتوں کے مطابق حضرت خدیجہ ؓ کی عمر مبارک چالیس سال تھی۔ حضرت خدیجہ ؓ آپ ﷺ کے نکاح میں ستائیس سال رہیں۔ اس عرصہ میں آپ نے کسی بھی عورت سے شادی نہیں کی۔ اللہ نے حضرت خدیجہ ؓ ہی سے آپ ﷺ کو اولاد عطا فرمائی۔ ام المومنین حضرت خدیجہ ؓ کے وصال کے بعد آپ ﷺ نے حضرت عائشہ ؓ اور سودہ بنت زمعہ سے نکاح کیا۔ چار سال تک حضرت عائشہ اور حضرت سودہ ؓ کی علاوہ کوئی بیوی نہ تھیں۔ اس اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو چھپن سال کی عمر تک آپ کے گھر میں صرف دو بیویاں تھیں لیکن چھپن سال اور تیسٹھ سال کی عمر میں آپ ﷺ کے گھر متعدد بیویاں تھیں کیونکہ یہی وہ زمانہ ہے جب جنگوں سے بہت سی خواتین کے سروں سے ان کے شوہروں کا سایہ اٹھ چکا تھا۔ آپ ﷺ نے اور اصحابہ کرام ؓ نے کئی کئی شادیاں کر کے بیواؤں سے نکاح کئے۔ زیر مطالعہ آیات میں ان تمام باتوں سے پہلے ایک مسئلہ کی طرف بھی متوجہ فر مایا گیا ہے ۔ اور وہ یہ ہے کہ اگر کوئی مسلمان مرد کسی مسلمان عورت سے نکاح کرے اور پھر (صحبت یا خلوت صحیحہ سے پہلے) اس کو طلاق دیدیے تو اس صورت میں عورت پر کوئی عدت واجب نہیں ہے اور نہ ہی مرد کو پورا مہر دینا پڑے گا۔ (خلوت صحیحہ تنہائی میاں بیوی کی ایسی ملاقات کو کہتے ہیں جس میں صحبت کرنا ممکن ہو) اگر مہر مقرر ہوچکا تھا تو مرد پر واجب ہے کہ وہ آدھا مہر اس لڑکی کو ادا کرے لیکن اگر اپنے حسن اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے پورا مہر ہی ادا کردے تو بہتر ہے۔ اگر نکاح کے وقت کوئی مہر مقرر نہیں ہوا تھا اور ایسی صورت میں طلاق ہوجائے تو کوئی مہر نہیں دیا جائے گا البتہ اپنی حیثیت کے مطابق مرد پر واجب ہے کہ کم از کم کپڑوں کا ایک جوڑا دے کر ہی احسن طریقے سے اس کو رخصت کردے تا کہ جس تعلق کی ابتداء محبت اور پیار سے ہوئی تھی وہ فضا زیادہ خراب نہ ہونے پائے۔
Top