Baseerat-e-Quran - Al-A'raaf : 19
وَ یٰۤاٰدَمُ اسْكُنْ اَنْتَ وَ زَوْجُكَ الْجَنَّةَ فَكُلَا مِنْ حَیْثُ شِئْتُمَا وَ لَا تَقْرَبَا هٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِیْنَ
وَيٰٓاٰدَمُ : اور اے آدم اسْكُنْ : رہو اَنْتَ : تو وَزَوْجُكَ : اور تیری بیوی الْجَنَّةَ : جنت فَكُلَا : تم دونوں کھاؤ مِنْ حَيْثُ : جہاں سے شِئْتُمَا : تم چاہو وَلَا تَقْرَبَا : اور نہ قریب جانا هٰذِهِ : اس الشَّجَرَةَ : درخت فَتَكُوْنَا : پس ہوجاؤ گے مِنَ : سے الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع)
اور اے آدم (علیہ السلام) تم اور تمہاری بیوی اس جنت میں رہو جہاں سے تم دونوں چاہو کھائو اور اس درخت کے قریب مت جانا ورنہ تم دونوں گناہ گاروں میں سے ہو جائو گے۔
لغات القرآن آیت نمبر 19 تا 25: اسکن (تو آباد ہوجا۔ تو سکونت اختیار کر) ۔ کلا (تم دونوں کھاؤ) حیث شئتما (جیسے تم چاہو) لاتقربا (تم دونوں قریب نہ جانا) ۔ الشجرۃ (درخت) وسوس (خیال ڈالا، وسوسہ ڈالا) لیبدی (تاکہ وہ کھول دے وری (چھپایا گیا) سواۃ (شرم گاہیں۔ (بدن کا وہ حصہ جس کو چھپانا چاہیے) ۔ مانھکما (تم دونوں کو منع نہیں کیا تھا ) ۔ ملکین (دو فرشتے ) ۔ قاسم (اس نے قسم کھائی) ۔ دل (مائل کیا۔ جھکایا ) ۔ ذاقا (دونوں نے چکھا ) ۔ بدت (ظاہر ہوگئی ) ۔ طفقا یخصفان (دونوں جوڑنے لگے ) ۔ ورق (پتہ۔ پتے ) ۔ نادی (اس نے پکارا ) ۔ الم انھکما (کیا میں نے تم دونوں کو منع نہیں کیا تھا ) ۔ ظلمنا (ہم نے زیادتی کی۔ ظلم کیا ) ۔ لم تغفر (تو نے معاف نہ کیا ) ۔ مستقر (ٹھکانہ ) ۔ تشریح : آیت نمبر (19 تا 25 ) ۔ ” ان آیات سے چند باتیں سامنے آتی ہیں :۔ ا) بائبل میں بتایا گیا ہے کہ آدم (علیہ السلام) سوئے ہوئے تھے ان کی پسلی سے حضرت حوا کو نکال کر ان کو آدم (علیہ السلام) کی بیوی بنا دیا گیا۔ یہ ایک اسرائیلی روایت ہے جس کے لئے علماء مفسرین نے فرمایا ہے ” لا تصدق ولا نکذب “ نہ ہم اس کی تصدیق کرتے ہیں اور نہ تردید قرآن و سنت میں بھی اس کی کوئی خاص وضاحت نہیں آئی۔ بہر حال ایک بات واضح ہے کہ بیوی جو انسان کی زندگی کی بہترین ساتھی ہوتی ہے اس کے بغیر جنت بھی تشنہ ہے جنت کی ساری نعمتیں حضرت آدم (علیہ السلام) کیلئے بےکیف تھیں جب تک ان کو زندگی کا ساتھی نہیں مل گیا جنت کی نعمتوں کو کیف آور اور روح پرور بنانے کے لئے ان میں معنی اور مقصد، حرکت و برکت ڈالنے کے لئے بیوی کی ضرورت آہی پڑی اور حضرت حوا کو پیدا کی گیا یہ جو بائبل میں آتا ہے کہ شیطان نے پہلے حضرت حوا کو بہکایا پھر انہوں نے حضرت آدم کو بہکایا یہ سراسر جھوٹ ہے۔ یہ بات عورت کو ذلیل و رسوا کرنے کے لئے بنائی گئی ہے۔ ہندو اور یونانی دیومالوؤں میں عورت کو ذلیل کرنے کی من گھڑت کہانیاں ہیں بدھ مت بھی اپنا دامن اس قسم کی بےسروپا کہانیوں سے نہ بچا سکا۔ آج عورت کی عظمت کی باتیں کرنے والے بھی فیشن اور ترقی کے نام پر اس کو ذلیل و رسوا کر رہے ہیں۔ آج عورت کو بہترین نسلوں کی اصلاح کے لئے نہیں بلکہ کاروبار کو چمکانے کا آلہ کار بنایا ہوا ہے، صرف دین اسلام ہی وہ دین ہے جس نے عورت ذات کو اس کا حقیقی مقام اور مرتبہ عطا کر کے اس کے ذمے نسلوں کو بنانے اور سنوار نے کی ذمہ داری سپرد کی ہے اسلام نے عورت کو بازار کی زینت یا شمع محفل نہیں بلکہ شمع خانہ بنا کر اس پر خاندان کی تمام تر ذمہ داری ڈال دی ہے۔ یہی عورت کا بہترین مقام ہے۔ 2) ان آیات میں دوسری بات یہ بتائی گئی ہے کہ انسان کسی جرثومہ سے پیدا نہیں ہوا (جیسا کہ ڈارون کا دعویٰ ہے) بلکہ تمام دنیا پر خلافت الہٰی کی عظیم الشان ذمہ داری ادا کرنے کے لئے تخلیق کیا گیا ہے جو تمام تر عقل و دانش ، شعور وتمیز اور علم و تہذیب سے مالا مال تھا۔ 3) تیسری بات یہ بتائی گئی ہے کہ شیطان سب سے پہلا حملہ اور کاری وار عورت اور مرد کی جنس پر کرتا ہے۔ انہیں ایک دوسرے کے سامنے ننگے پن پر اکساتا ہے جو بدکاری، بدنگاہی، زنا، حرام اولاد اور اسقاط حمل وغیرہ کا دروازہ ہے مغرب میں یہ فعل انفرادی سطح سے اٹھ کر اب قومی سطح تک پہنچ گیا ہے اور حکومتوں کے ایوان بھی اس فعل سے محفوظ نہیں ہیں اسی لئے خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے فرمایا ہے کہ شرم و حیا نصف ایمان ہے یعنی اگر شرم وحیا کا قلعہ ایک دفعہ ٹوٹ گیا تو انسان کو شیطانی کاموں سے کوئی روک نہ سکے گا۔ 4) چوتھی بات یہ ہے کہ شیطان ہمیشہ ” خیر خواہ “ کے بھیس میں آتا ہے اور یقین دلاتا ہے کہ ” میں تمہارا مخلص ہوں، میں تمہارا بھلا چاہتا ہوں، اس میں میری کوئی ذاتی غرض نہیں ہے “ وغیرہ وغیرہ ایسے شیطانوں اور انسانوں سے بچنے کی بہت ضرورت ہے۔ 5) پانچویں بات یہ ہے کہ شیطان کا کام سبز باغ دکھانا ہے اور امیدوں کے کھلونوں سے کھیلنے پر مجبور کرنا ہے۔ ان آیات میں غور کرنے سے یہی نتائج سامنے آتے ہیں کہ شیطان اور اس کی ذریت ہمیشہ خیر خواہ بن کر دین و ایمان پر ڈاکہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حضرت آدم (علیہ السلام) جو سب سے پہلے انسان ہیں اور اللہ کے سب سے پہلے نائب اور خلیفہ ہیں ان کو شیطان ان ہی حربوں سے شکست دینا چاہتا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو ان کی ندامت کے اظہار پر معاف فرمادیا یہ درحقیقت شیطان کی سب سے پہلی شکست تھی لیکن شیطان دوسرے لوگوں کو بہکانے میں کامیاب ہوگیا جنہوں نے آدم (علیہ السلام) کو گناہگار تصور کر کے (نعوذ باللہ) عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا بنا دیا اور ان کو یقین دلادیا گیا کہ وہ تمام انسانوں کے گناہوں کو لے کر (نعوذباللہ) پھانسی چڑھ گئے۔ قرآن کریم اور احادیث میں نہ صرف اس واقعہ کی تردید کی گئی ہے بلکہ اہل ایمان کو بتا دیا گیا ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ کے نبی اور اس کے بندے ہیں اور آج بھی وہ آسمانوں پر زندہ موجود ہیں جو قیامت کے قریب دوبارہ دنیا میں تشریف لائیں گے۔
Top