Baseerat-e-Quran - At-Tawba : 41
اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّ ثِقَالًا وَّ جَاهِدُوْا بِاَمْوَالِكُمْ وَ اَنْفُسِكُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ١ؕ ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ
اِنْفِرُوْا : تم نکلو خِفَافًا : ہلکا۔ ہلکے وَّثِقَالًا : اور (یا) بھاری وَّجَاهِدُوْا : اور جہاد کرو بِاَمْوَالِكُمْ : اپنے مالوں سے وَاَنْفُسِكُمْ : اور اپنی جانوں فِيْ : میں سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کی راہ ذٰلِكُمْ : یہ تمہارے لیے خَيْرٌ : بہتر لَّكُمْ : تمہارے لیے اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو تَعْلَمُوْنَ : جانتے ہو
سامان تھوڑا ہو یا زیادہ تم نکل پڑو اور اپنے مالوں اور اپنی جانوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کرو۔ تمہاری بہتری اسی میں ہے اگر تم جانتے ہو۔
لغات القرآن آیت نمبر 42 تا 46 عرض (اسباب، مال غنیمت) سفر قاصد (آرام والا سفر) ، لاتبعوک (البتہ وہ آپ کے پیچھے چل پڑتے) بعدت (دور لگا) الشقۃ (فاصلہ، حصہ) استطعنا (ہماری استطاعت ہوتی) عفا اللہ (اللہ نے معاف کردیا ) لم اذنت (آپ نے کیوں اجازت دی ؟ ) حتی یتبین (جب تک واضح نہ ہوجاتا) صدقوا (جنہوں نے سچ کہا) لا یستاذنو (وہ اجازت نہیں مانگتے ) ارتابت (شک کیا) ریب (شک) یترددون (وہ بھٹک رہے ہیں) لاعدوا (البتہ وہ تیاری کرتے) کرہ اللہ (اللہ نے پسند نہیں کیا) انبعاث (اٹھنا) ثبط (ہم نے جما دیا، روک دیا) افعدوا (بیٹھے رہو) تشریح آیت نمبر 42 تا 46 تاریخ گواہ ہے کہ جب جنگیں لڑی جاتی ہیں تو ان میں موسم، وسائل، قوم کی حمایت فتح و شکست میں بہت اہمیت رکھتی ہے۔ ان کو نظر انداز کر کے گھر میں بیٹھ کر جنگیں کرنا مشکل ہے لیکن اگر دور دراز جا کر دشمن سے مقابلہ کرنا ہو تو اس میں اور بھی زیادہ وسائل کی ضرورت پڑتی ہے۔ اگر تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو فتح مکہ، غزوہ حنین اور طائف میں مسلسل مسلمانوں کی شرکت نے ان کو تھکا کر رکھ دیا تھا۔ تھکی ماندی قوم کبھی بھی دشمن کا مقابلہ نہیں کرسکتی دوسری طرف سخت گرم موسم، طویل ترین سفر، راستے میں ریت کے طوفانی اور ٹیلوں سے واسطہ، کھلا میدان، پانی کی شدید کمی جھلسا دینے والی لو کے تھپیڑے تیسری طرف یہ کہ کھجوریں پک چکی تھیں ہر شخص جانتا ہے کہ جب فصل تیار ہو جس پر سارے سال کے گذر بسر کا دار وم دار ہو اس وقت نکلنا فقر و فاقہ کو دعوت دینا ہے۔ چوتھے یہ کہ اتنی بڑی سلطنت سے ٹکر لینے میں جنتے وسائل کی ضرورت تھی وہ بھی مہیا نہیں تھے ان حالات میں جنگ کا تصور بڑا بھیانک تھا مگر اس موقع پر صحابہ کرام کا جوش و خروش ایثار و قربانی، اطاعت و فرما برداری کے وہ بےمثال کارنامے سامنے آئے جن کی مثال دنیا کی کسی تاریخ میں موجود نہیں ہے۔ یہ وہ جاں نثار صحابہ کرام تھے جن کے نزدیک یہ سارے بھیانک تصورات اور موسم کی سختیاں کچھ حیثیت نہ رکھتی تھیں وہ اللہ کے رسول ﷺ کے حکم کی تعمیل میں اٹھ کھڑے ہوئے اور انہوں نے اپنے مالوں اور جانوں کو اللہ و رسول ﷺ کے حوالے کردیا۔ دوسری طرف وہ منافق تھے جو اپنے مفادات کے لئے اسلام کا لبادہ اوڑھے ہوئے تھے وہ بھی کھل کر سامنے آگئے انہوں نے طرح طرح کے بہانے بنانے شروع کردیئے۔ چونکہ نبی کریم ﷺ انتہائی نرم مزاج اور فضل و کرم کے پیکر تھے اس لئے جب بھی کسی شخص نے آ کر کوئی بہانہ پیش کای تو آپ نے اس کو مدینہ میں رہ جانے کی اجازت دیدی۔ جس نے جو سہولت چاہی وہ اس کو دیدی گئی لیکن اللہ تعالیٰ نے مسلسل آیتیں نازل فرمائیں کہ جن سے منافقین کے لئے جائے پناہ تلاش کرنا مشکل ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر کہیں قریب کا سفر ہوتا اور خوب مال غنیمت ملنے کی توقع ہوتی تو یہ ضرور ساتھ ہو لیتے لیکن یہاں تک جان پر بن رہی ہے انہیں یہ سفر بہت دور کا سفر نظر آ رہا ہے فرمایا کہ یہ لوگ اللہ کی قسمیں کھا کر آپ کو یقین دلائیں گے کہ ہمارے اندر ذرا بھی طاقت نہیں ہے۔ اگر طاقت ہوتی تو ہم ضرور آپ کے ساتھ نکلتے اللہ نے فرمایا کہ یہ لوگ بہانے نہیں کر رہے ہیں بلکہ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال رہے ہیں اور یہ جو بہانے بنا رہے ہیں اللہ کو معلوم ہے کہ یہ غلط بیانی سے کام لے رہے ہیں۔ اللہ نے فرمایا کہ اے ہمارے پیارے حبیب ﷺ آپ نے اپنے مزاج کے اعتبار سے بعض لوگوں کو اجازت دے کر نرمی کا معاملہ کیا ہے لیکن اگر آپ ان کو آزما کر دیکھ لیتے کہ کون اپنے دعوے میں سچا ہے اور کون جھوٹا ہے تو یہ کہیں بہتر ہوتا ہے۔ فرمایا کہ بہرحال وہ لوگ جو اللہ اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں وہ اپنے مالوں اور جانوں سے جہاد کرتے ہیں وہ کبھی آپ کے پاس اجازت لینے نہیں آئیں گے۔ اللہ ایسے نیک اور متقی لوگوں کو اچھی طرح جانتا ہے لیکن وہ لوگ جو اللہ اور آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اور جن کے دل ہمیشہ شک و شبہ میں ڈولتے رہتے ہیں وہ ہزاروں بہانے بنا کر آپ سے اجازت مانگنے آجائیں گے۔ اگر وہ واقعی اللہ کے راستے میں نکلنے کی تیاری کرتے کچھ تو معلوم ہوتا مگر جنہوں نے پیچھے بیٹھ رہنے کا فیصلہ کرلیا ہے وہ تو پیچھے بیٹھنے والوں کے ساتھ ہی بیٹھے رہیں گے۔ اللہ بھی ایسے بدطینت لوگوں کو اپنے راستے میں نکلنے کی توفیق نہیں دیتا۔
Top