Tafseer-e-Haqqani - At-Tawba : 41
اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّ ثِقَالًا وَّ جَاهِدُوْا بِاَمْوَالِكُمْ وَ اَنْفُسِكُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ١ؕ ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ
اِنْفِرُوْا : تم نکلو خِفَافًا : ہلکا۔ ہلکے وَّثِقَالًا : اور (یا) بھاری وَّجَاهِدُوْا : اور جہاد کرو بِاَمْوَالِكُمْ : اپنے مالوں سے وَاَنْفُسِكُمْ : اور اپنی جانوں فِيْ : میں سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کی راہ ذٰلِكُمْ : یہ تمہارے لیے خَيْرٌ : بہتر لَّكُمْ : تمہارے لیے اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو تَعْلَمُوْنَ : جانتے ہو
ہلکے اور بوجھل ہو کر (یعنی سامان اور بےسامانی کے ساتھ ہر حالت میں) جہاد کے لئے نکلو اور اللہ کی راہ میں اپنے مال اور جان کے ساتھ جہاد کرو۔ یہ تمہارے لئے (بہت) بہتر ہے۔ اگر تم سمجھتے ہو۔
ترکیب : خفافًا و ثقالاً حال ہیں ضمیر فاعل انفروا سے لوکان کا اسم محذوف ای مادعوتھم الیہ عرضا خبر جملہ شرط لاتبعوک جواب حتی متعلق ہے محذوف سے ای بلا اخرتھم الی ان یتبین والباقی واضح۔ تفسیر : آخر آنحضرت ﷺ کے پاس تیس ہزار لشکر جمع ہوگیا۔ بعض کہتے ہیں ستر ہزار تو پنجشنبہ کے دن رجب کے مہینے میں نویں سال آپ نے کوچ کیا۔ ادھر منافق ہیں کہ ہر منزل سے اجازت لیتے اور بہانے بناتے اور پیچھے رہے جاتے ہیں۔ بہت نے مدینہ ہی میں عذر کرنے شروع کر کردیے۔ ہزاروں جھوٹی قسمیں کھانی شروع کیں کہ ہمیں یہ عذر ہے ٗ یہ ضرورت ہے۔ ہم کو چلنے کی طاقت نہیں ٗبخدا اگر طاقت ہوتی تو ہم بھی آپ کے ساتھ چلتے۔ ان آیات میں خدا تعالیٰ مسلمانوں کو باہر نکلنے اور جہاد کرنے کا حکم دے کر ان منافقوں کے عذرات باردہ کو رد فرماتا ہے کہ اگر غنیمت ہاتھ لگتی اور پاس کا سفر ہوتا تو آپ کے ساتھ چلتے وہ ابھی جھوٹی قسمیں کھائیں گے کہ اگر ہمیں قدرت ہوتی تو چلتے اور آپ سے اجازت مانگتے ہیں۔ اگر آپ اجازت نہ دیتے تو خود پیچھے رہ جاتے۔ ان کا جھوٹ سچ معلوم ہوجاتا اور بےایمان لوگ اجازت مانگتے ہیں۔ ایمانداروں کا کام نہیں۔ اگر آپ کے ساتھ جاتے بھی تو کیا کرتے ٗ جھوٹی خبریں اڑاتے۔ جیسا کہ پہلے بھی کرچکے ہیں الخ انفروا خفا فاو ثقالا حسن و ضحاک و مجاہد کہتے ہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ جوان اور بڈھے سب چلیں۔ بعض کہتے ہیں ہلکے سے مراد تنگدست اور بھاری سے غنی بعض کہتے ہیں سامان لے کر اور بےسامان بھی پاپیادہ اور سوار یعنی ہر حال میں چلو۔
Top