Baseerat-e-Quran - At-Tawba : 7
كَیْفَ یَكُوْنُ لِلْمُشْرِكِیْنَ عَهْدٌ عِنْدَ اللّٰهِ وَ عِنْدَ رَسُوْلِهٖۤ اِلَّا الَّذِیْنَ عٰهَدْتُّمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ١ۚ فَمَا اسْتَقَامُوْا لَكُمْ فَاسْتَقِیْمُوْا لَهُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُتَّقِیْنَ
كَيْفَ : کیونکر يَكُوْنُ : ہو لِلْمُشْرِكِيْنَ : مشرکوں کے لیے عَهْدٌ : عہد عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے پاس وَعِنْدَ رَسُوْلِهٖٓ : اس کے رسول کے پاس اِلَّا : سوائے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو عٰهَدْتُّمْ : تم نے عہد کیا عِنْدَ : پاس الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ : مسجد حرام فَمَا : سو جب تک اسْتَقَامُوْا : وہ قائم رہیں لَكُمْ : تمہارے لیے فَاسْتَقِيْمُوْا : تو تم قائم رہو لَهُمْ : ان کے لیے اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ يُحِبُّ : دوست رکھتا ہے الْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگار (جمع)
اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک ان مشرکین سے کیسے کوئی معاہدہ قائم رہ سکتا ہے سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے مسجد حرام کے پاس معاہدہ کیا تھا۔ اگر وہ تمہارے ساتھ سیدھے رہیں تو تم بھی ان سے سیدھا معاملہ کرو۔ بیشک اللہ اہل تقویٰ کو پسند کرتا ہے۔
آیات : 7 تا 12 لغات القرآن۔ استقاموا۔ سیدھے ہیں۔ ان یظھروا۔ اگر وہ غالب آجائیں۔ لا یرقبوا۔ لحاظ نہ کریں گے۔ الا ۔ قریبی دوستی۔ رشتہ داری۔ ذمۃ۔ عہد۔ معاہدہ۔ یرضون۔ وہ راضی کرتے ہیں۔ افواہ۔ (فوہ) ۔ منہ۔ اشتروا۔ خرید لیا۔ لے لیا۔ ثمنا قلیلا۔ گھٹا ا قیمت۔ تھوڑی قیمت۔ المتعدون۔ حد سے نکل جانے والے۔ اخوان۔ (اخ) ۔ بھائی۔ نکثوا۔ توڑ دیں۔ ایمانھم۔ اپنی قسمیں۔ طعنوا۔ طعنے دیں۔ برائیاں نکالیں۔ ائمۃ الکفر۔ کفر کے سردار ۔ سرغنے۔ تشریح : قرآن کریم کی ان آیات سے جو ہدایات ربانی فراہم ہوتی ہیں وہ حسب ذیل ہیں۔ (1) وہ معاہدے جو رسول اللہ ﷺ نے مسجد حرام کے پاس اور اس کے آس پاس کے قبیلوں یعنی بنو کنانہ، بنو خزاعہ اور بنی حمیرہ کے ساتھ کئے تھے وہ اپنی آخری مدت تک قائم رہیں گے۔ فرمایا کہ اگر وہ سیدھے طریقے پر چلتے ہیں ۔ اپنے معاہدوں کی پابندی کرتے ہیں تو اہل ایمان پر بھی تمام معاہدوں کی پابندی لازم ہے لیکن اگر وہ خود ہی اس عہدو معاہدہ کو توڑ دیتے ہیں تو بیشک اللہ کو احتیاط پسند ہے مگر ہر قوم سے وہی معاملہ کیا جائے جو اس نے مسلمانوں سے کیا ہوا ہے۔ (2) ان مشرکین کے ساتھ عہد و معاہدہ کی پابندی نہیں ہوسکتی جنہوں نے دشمنان اسلام کی مدد کرکے معاہدہ توڑ دیا ہے ۔ بلکہ معاہدہ کرتے وقت ہی ان کی نیت میں اخلاص نہ تھا وہ چکنی چپڑی باتیں جو ظاہر اً ان کی زبان پر تھیں وہ باطناً ان کے دل میں نہ تھیں۔ آج بھی ان کے دل کدورت اور نفرتوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ اگر وہ ذرا بھی قابو پاجائیں تو اہل اسلام پر حملہ کرنے میں پس و پیش نہ کریں گے۔ نہ قرابت کا لحاظ کریں گے نہ کسی معاہدہ کا ہمیشہ زیادتی ان ہی کی طرف سے ہوتی ہے۔ فرمایا کہ ان مشرکوں کے ساتھ معاہدہ کی پابندیاں بھی نہیں ہوسکتیں، اگرچہ ان کے اندر کچھ اچھے لوگ بھی ہیں مگر اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو نافرمان اور گناہ کے دل دادہ ہیں۔ جن کے دلوں میں ذرا بھی اللہ کا خوف نہیں ہے وہ اس مادی دنیا کے پیچھے پاگل بنے ہوئے ہیں حالانکہ دنیا کا فائدہ عارضی ہے۔ اور اس ابدی اور عظیم ترین فائدہ کو چھوڑ رہے ہیں جس کا نام خوشنودی الٰہی ہے۔ (3) فرمایا کہ اس سب کو باوجود اسلام نے معافی اور درگزر کا دروازہ اب بھی کھلا رکھا ہے۔ اگر وہ اب بھی تو بہ کرلیں، نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں تو وہ لوگ ملت اور اخوت اسلامی میں داخل ہوسکتے ہیں۔ (4) لیکن اگر انہوں نے اسلام دشمنی اور معاہدہ شکنی کی روش کو اپنایا تو پھر ان کے سرغنوں سرداروں اور کفر کے لیڈروں کو تلواروں کی نوک پر رکھا جائے گا کیونکہ وہ اب تلوار سے نیچے کسی طرح مانیں گے۔ معاہدہ توڑنے والوں کے ساتھ نیا معاہدہ بیکار ہے۔ فرمایا کہ ان تمام باتوں کے باوجود اگر وہ اب بھی کفر وشرک سے توبہ کرکے دین اسلام کو سچے دل سے قبول کرلیں اور صلوٰۃ و زکوٰۃ کے ذریعہ اپنی اسلاح کرلیں تو وہ نہ صرف ملت اسلامیہ کا ایک فرد بن جائیں گے بلکہ ان کے ماضی کے حالات اور عہد شکنیوں سے بھی اہل ایمان تعرض نہیں کریں گے۔ اس سے ثابت ہوا کہ جو صلوٰۃ و زکوٰۃ کا انکار کردے وہ مسلم نہیں ہے وہ مشرک و فاسق ہے۔ سیدنا ابوبکر صدیق ؓ کے زمانہ خلافت میں کچھ لوگوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کیا تو آپ ؓ نے صحابہ کرام ؓ کے سامنے اسی آیت سے استدلال کرکے فرمایا تھا کہ اگر وہ زکوٰۃ کا انکار کریں گے تو میں ان کے خلاف تلوار اٹھاؤں گا کیونکہ ایسے لوگ کتنے بھی اچھے اعمال کرتے ہوں اسلام کے اس عظیم رکن کی توہین بردات نہیں کی جائے گی۔ چناچہ جھوٹی نبوت کے دعویداروں کے ساتھ ساتھ مانعین زکوٰۃ کے خلاف بھی جہاد کیا اور ان سے کافروں جیسا سلوک کیا گیا۔ (5) فرمایا گیا کہ اگر وہ اپنے عہد و معاہدے اور قسموں کو توڑتے ہیں اور اسلام کو طعن و طنز کے نشتروں سے زخمی کرنا چاہتے ہیں تو ان کے سرغنوں اور سرداروں کے خلاف اقدامات کئے جائیں وجہ یہ ہے کہ یہی لوگ دین کے آڑے آرہے ہیں۔ یہ اپنے ذاتی مفادات کے لئے عوام کو تباہ و برباد کر رہے ہیں۔ جو لوگ دین اسلام کی طرف آنا چاہتے ہیں یہ ان کو طرح طرح کے نعرے دے کر اس سے روک رہے ہیں لہٰذا راست کی اس رکاوٹ کو دور کرکے ان سرداروں سے قتال کیا جائے۔
Top