Bayan-ul-Quran - Al-Kahf : 86
حَتّٰۤى اِذَا بَلَغَ مَغْرِبَ الشَّمْسِ وَجَدَهَا تَغْرُبُ فِیْ عَیْنٍ حَمِئَةٍ وَّ وَجَدَ عِنْدَهَا قَوْمًا١ؕ۬ قُلْنَا یٰذَا الْقَرْنَیْنِ اِمَّاۤ اَنْ تُعَذِّبَ وَ اِمَّاۤ اَنْ تَتَّخِذَ فِیْهِمْ حُسْنًا
حَتّٰٓي : یہانتک کہ اِذَا بَلَغَ : جب وہ پہنچا مَغْرِبَ : غروب ہونے کا مقام الشَّمْسِ : سورج وَجَدَهَا : اس نے پایا اسے تَغْرُبُ : ڈوب رہا ہے فِيْ : میں عَيْنٍ : چشمہ۔ ندی حَمِئَةٍ : دلدل وَّوَجَدَ : اور اس نے پایا عِنْدَهَا : اس کے نزدیک قَوْمًا : ایک قوم قُلْنَا : ہم نے کہا يٰذَا الْقَرْنَيْنِ : اے ذوالقرنین اِمَّآ : یا چاہے اَنْ : یہ کہ تُعَذِّبَ : تو سزا دے وَاِمَّآ : اور یا چاہے اَنْ : یہ کہ تَتَّخِذَ : تو اختیار کرے فِيْهِمْ : ان میں سے حُسْنًا : کوئی بھلائی
یہاں تک کہ جب وہ سورج کے غروب ہونے کی جگہ تک پہنچا اس نے اسے غروب ہوتے ہوئے پایا ایک گدلے چشمے میں اور اس نے پایا وہاں ایک قوم کو ہم نے کہا : اے ذوالقرنین ! تم چاہو تو انہیں سزا دو اور چاہو تو ان (کے بارے) میں حسن سلوک کا معاملہ کرو
آیت 86 حَتّٰٓي اِذَا بَلَغَ مَغْرِبَ الشَّمْسِ یہ ذوالقرنین کی مغربی علاقوں پر لشکر کشی کا ذکر ہے جب وہ پیش قدمی کرتے ہوئے بحیرۂ روم Mediterranian Sea کے ساحل تک جا پہنچے۔ چونکہ اس زمانے میں ان لوگوں کو پوری دنیا کا نقشہ معلوم نہیں تھا اس لیے وہ یہی سمجھ رہے ہوں گے کہ ہم اس سمت میں دنیا یا زمین کی آخری سر حدوں تک پہنچ گئے ہیں اور اس سے آگے بس سمندر ہی سمندر ہے۔ وہاں ساحل پر کھڑے ہو کر انہیں سورج بظاہر سمندر میں غروب ہوتا ہوا نظر آیا اور اس طرح وہ اس جگہ کو مَغْرِبَ الشَّمْسِ سورج کے غروب ہونے کی جگہ سمجھے۔ وَجَدَهَا تَغْرُبُ فِيْ عَيْنٍ حَمِئَةٍ اس سے Aegean Sea مراد ہے جس کا پانی بہت گدلا ہے۔ وَّوَجَدَ عِنْدَهَا قَوْمًا یعنی اس علاقے کو جب انہوں نے فتح کرلیا تو وہاں بسنے والی قوم ان کی رعایا بن گئی۔ قُلْنَا يٰذَا الْقَرْنَيْنِ اِمَّآ اَنْ تُعَذِّبَ وَاِمَّآ اَنْ تَتَّخِذَ فِيْهِمْ حُسْنًا یعنی آپ نے اس علاقے کو بزور بازو فتح کیا ہے اب یہاں کے باشندے آپ کے رحم و کرم پر ہیں آپ کو ان پر مکمل اختیار ہے۔ آپ چاہیں تو ان پر سختی کریں اور آپ چاہیں تو ان کے درمیان حسن سلوک کی روایت قائم کریں۔ آیت کے الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ بات اللہ تعالیٰ نے براہ راست ذوالقرنین کو مخاطب کرکے فرمائی لیکن ضروری نہیں کہ حقیقت میں ایسا ہی ہوا ہو۔ اگر تو وہ نبی تھے واللہ اعلم تو یہ ممکن بھی ہے ورنہ اس سے مراد القاء یا الہام بھی ہوسکتا ہے۔ جیسے سورة النحل آیت 68 میں شہد کی مکھی کی طرف وحی کیے جانے کا ذکر ہے۔
Top