Al-Qurtubi - Al-Kahf : 86
حَتّٰۤى اِذَا بَلَغَ مَغْرِبَ الشَّمْسِ وَجَدَهَا تَغْرُبُ فِیْ عَیْنٍ حَمِئَةٍ وَّ وَجَدَ عِنْدَهَا قَوْمًا١ؕ۬ قُلْنَا یٰذَا الْقَرْنَیْنِ اِمَّاۤ اَنْ تُعَذِّبَ وَ اِمَّاۤ اَنْ تَتَّخِذَ فِیْهِمْ حُسْنًا
حَتّٰٓي : یہانتک کہ اِذَا بَلَغَ : جب وہ پہنچا مَغْرِبَ : غروب ہونے کا مقام الشَّمْسِ : سورج وَجَدَهَا : اس نے پایا اسے تَغْرُبُ : ڈوب رہا ہے فِيْ : میں عَيْنٍ : چشمہ۔ ندی حَمِئَةٍ : دلدل وَّوَجَدَ : اور اس نے پایا عِنْدَهَا : اس کے نزدیک قَوْمًا : ایک قوم قُلْنَا : ہم نے کہا يٰذَا الْقَرْنَيْنِ : اے ذوالقرنین اِمَّآ : یا چاہے اَنْ : یہ کہ تُعَذِّبَ : تو سزا دے وَاِمَّآ : اور یا چاہے اَنْ : یہ کہ تَتَّخِذَ : تو اختیار کرے فِيْهِمْ : ان میں سے حُسْنًا : کوئی بھلائی
یہاں تک کہ وہ سورج کے غروب ہونے کی جگہ پہنچے تو اسے ایسا پایا کہ ایک کیچڑ کی ندی میں ڈدوب رہا ہے اور اس (ندی) کے پاس ایک قوم دیکھی ہم نے کہا ذوالقرنین ! تم کو ان کو خواہ تکلیف دو خواہ ان (کے بارے) میں بھلائی اختیار کرو (دونوں باتوں) کی تم کو قدرت ہے
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : قلنا یذا القرنین۔ قشیری ابو نصر نے کہا : اگر وہ نبی تھا تو یہ وحی تھی، اگر وہ نبی نہیں تھا تو یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے الہام تھا۔ اما ان تعذب واما ان تتخذفیہم حسنا۔ ابراہیم بن سری نے کہا : ان دو چیزوں میں اسے اختیار دیا گیا تھا جس طرح حضرت محمد ﷺ کو اختیار دیا گیا تھا، فرمایا : فان جاءوک فاحکم بینہم او اعرض عنہم (المائدہ : 42) ابو اسحاق زجاج نے کہا : اس کا معنی ہے اللہ تعالیٰ نے اسے ان دو حکموں میں اختیار دیا ہے۔ نحاس نے کہا : علی بن سلیمان نے اس کا قول رد کیا ہے کیونکہ یہ صحیح نہیں ہے کہ ذوالقرنین نب کی تھا اور اس کے ساتھ اس کو خطاب کیا جاتا تھا۔ وہ اپنے رب کو کیسے کہتا تھا : ثم یرد الی ربہ ؟ اور کیسے کہتا تھا : فسوف نعذبہ ؟ وہ نون یعنی جمع کے صیغہ کے ساتھ کیسے اس سے مخاطب ہوتا تھا ؟ فرمایا : اس کی تقدیر اس طرح ہے کہ قلنا یا محمد قالوا یا ذالقرنین۔ ابو جعفر نے کہا : یہ ابوالحسن نے کہا ہے اور اس سے کوئی چیز لازم نہیں۔ رہا یہ قول : قلنا یذا القرنین یہ بھی جائز ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس وقت کے نبی کی زبان پر اسے خطاب کیا ہو اور یہ بھی جائز ہے کہ اسے طرح فرمایا ہو جس طرح ہمارے نبی ﷺ کو فرمایا : فاما منا بعدو اما فداء (محمد :4) رہا یہ اشکال : فسوف نعذبہ ثم یرد الی ربہ تو اس کی تقدیر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب اسے اما ان تعذب کے قول میں قتل کرنے اور اما ان تتخذفیہم حسنا میں ان کو باقی رکھنے کے درمیان اختیار دیا تو انہوں نے اس قوم سے کہا : اما من ظلم۔ یعنی جو تم میں سے کفر پر قائم رہا فسوف نعذبہ ہم اسے قتل کے ساتھ عذاب دیں گے۔ ثم یرد الی ربہ۔ پھر قیامت کے دن اپنے رب کی طرف لوٹایا جائے گا۔ فیعذبہ عذاباً نکرا۔ تو وہ اسے جہنم میں سخت عذاب دے گا۔ فاما من تاب (القصص :67 اور جو کفر سے توبہ کرے گا وعمل صالحاً اور نیک عمل کرے گا۔ احمد بن یحییٰ نے کہا : ” ان “ اما ان تعذب واما ان تتخذفیہم حسنا۔ میں محل نصب میں ہے اگر تو اسے رفع دے تو بھی درست ہے تو بمعنی اما ھو ہوگا جیسا کہ شاعر نے کہا : فسیرا فاما حاجۃ تقضیانھا وام مقیل صالح وصدیق فلہ جزآء الحسنیٰ ۔ اہل مدینہ، ابو عمرو اور عاصم کی قرأت فلہ جزاء الحسنیٰ ۔ مبتداء کی بناء پر رفع کے ساتھ ہے یا استقرار کے ساتھ ہے اور الحسنیٰ اضافت کی وجہ سے محل جر میں ہے اور تنوین اضافت کی وجہ سے حذف کی گئی ہے یعنی اس کے لیے آخر میں اللہ کی ببارگاہ میں جزاء الحسنیٰ ہے اور وہ جنت ہے، جزاء کو جنت کی طرف مضاف کیا۔ جیسے فرمایا : حق الیقین۔ (الواقعہ) اور فرمایا : والدار الاخرۃ (یوسف : 109) اور یہ بھی احتمال ہے کہ الحسنیٰ سے مراد اعمال صالحہ ہوں۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ جزائ، ذی القرنین کی طرف سے ہو یعنی میں اسے عطا کروں گا اور اس پر مہربانی کروں گا اور یہ بھی جائز ہے کہ التفاء ساکنین کی وجہ سے تنوین حذف کی گئی ہو اور الحسنیٰ بدل کی بناء پر محل رفع میں ہو یہ بصریوں کے نزدیک ہے اور کو فیوں کے نزدیک ترجمہ کی بنا پر ہے۔ ابن ابی اسحاق کی قرأت اس بناء پر ہے۔ فلہ جزاء الحسنیٰ منصوب اور تنوین کے ساتھ پڑھا ہے یعنی فلہ الحسنیٰ جزائ۔ الفراء نے کہا : جزاء تمیز کی بنا پر منصوبب ہے۔ بعض نے فرمایا : مصدر کی بنا پر منصوب ہے۔ الزجاج نے کہا یہ مصدر حال کی جگہ میں ہے یعنی مجزیا بھا جزائ۔ حضرت ابن عباس ؓ اور مسروق نے فلہ جزاء الحسنیٰ رفع میں ایک وجہ کے اعتبار سے۔ نحاس نے کہا : دوسروں کے نزدیک یہ خطا ہے کیونکہ یہ التقاء ساکنین کی وجہ سے تنوین کے حذف کی جگہ نہیں ہے اس کی جگہ نہیں ہے اس کی تقدیر ہوگی : فلہ الثواب جازاء الحسنیٰ ۔
Top