Dure-Mansoor - Hud : 112
فَاسْتَقِمْ كَمَاۤ اُمِرْتَ وَ مَنْ تَابَ مَعَكَ وَ لَا تَطْغَوْا١ؕ اِنَّهٗ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ
فَاسْتَقِمْ : سو تم قائم رہو كَمَآ : جیسے اُمِرْتَ : تمہیں حکم دیا گیا وَمَنْ : اور جو تَابَ : توبہ کی مَعَكَ : تمہارے ساتھ وَلَا تَطْغَوْا : اور سرکشی نہ کرو اِنَّهٗ : بیشک وہ بِمَا : اس سے جو تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے ہو بَصِيْرٌ : دیکھنے والا
سو آپ استقامت پر رہئے جیسا کہ آپ کو حکم دیا گیا ہے اور جو لوگ توبہ کرکے آپ کے ساتھی ہیں وہ بھی استقامت پر رہیں، اور حد سے آگے نہ بڑھو بیشک وہ تمہارے اعمال کو دیکھتا ہے
استقامت فی الدین کی تعلیم : 1:۔ ابن ابی حاتم وابوالشیخ رحمہما اللہ نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے اس قول (آیت) ” فاستقم کما امرت “ (الآیہ) کے بارے میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم ﷺ کو حکم فرمایا کہ اس کے حکم پر ثابت قدم رہیں اور اس کی نعمت میں سرکشی نہ کریں۔ 2:۔ ابوالشیخ (رح) نے سفیان (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” فاستقم کما امرت “ یعنی قرآن پر آپ پکے ہو کررہیں۔ 3:۔ ابن ابی حاتم وابوالشیخ (رح) نے حسن ؓ سے روایت کیا کہ جب یہ (آیت) ” فاستقم کما امرت ومن تاب معک “ نازل ہوئی تو فرمایا تیار رہو تیار رہو (آخرت کے لئے) پھر کوئی ہنستے ہوئے نہیں دیکھا گیا۔ 4:۔ ابن منذر (رح) نے ابن جریح (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” ومن تاب معک “ یعنی جو ایمان لائے۔ 5:۔ ابن ابی حاتم وابوالشیخ (رح) نے علاء بن عبداللہ بدر (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” ولا تطغوا انہ بما تعملون بصیر “ کے بارے میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اس سے محمد ﷺ کے اصحاب کا ارادہ نہیں فرمایا بلکہ وہ لوگ مراد لئے ہیں جو ان کے بعد آئیں گے۔ 6:۔ ابوالشیخ (رح) نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” ولا تطغوا “ سے مراد ہے کہ تم لوگ ظلم نہ کرو۔ 7:۔ ابن ابی حاتم (رح) نے ابن زید (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” ولا تطغوا “ سے مراد ہے کہ اس کے حکم کے خلاف کرنا اور اس کی نافرمانی کا ارتکاب کرنا۔ 8:۔ ابن جریر (رح) نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” ولا ترکنوا الی الذین ظلموا “ کے بارے میں فرمایا کہ شرک کی طرف جھکنے والے۔ 9:۔ ابن جریر وابن منذر رحمہما اللہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” ولا ترکنوا “ یعنی تم مائل نہ ہوجاؤ (شرک کی طرف) 10:۔ ابن منذروابن ابی حاتم رحمہما اللہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” ولا ترکنوا “ کہ تم نہ چلے جاؤ (شرک کی طرف) 11:۔ ابو الشیخ (رح) نے عکرمہ (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” ولا ترکنوا الی الذین ظلموا فتمسکم النار “ یعنی ایسا نہ ہو کہ تم ان کی اطاعت کرو یا ان سے دوستی لگاؤ یا ان کو ادب سکھاؤ۔ 12:۔ ابن الشیخ (رح) نے ابوالعالیہ (رح) سے روایت کیا (آیت) ” ولا ترکنوا الی الذین ظلموا “ سے مراد ہے کہ تم ان کے عملوں سے راضی نہ ہوجاؤ۔ 13:۔ ابوالشیخ (رح) نے حسن ؓ سے روایت کیا کہ دو خصلتیں ایسی ہیں اگر کسی بندے میں یہ دونوں ٹھیک ہوجائیں اور جو ان کے علاوہ ہیں وہ سب خود بخود ٹھیک ہوجاتی ہیں اس کے حکم میں سے اور وہ ہیں نعمت اور خوشحالی سرکشی کرنا اور ظلم کی طرف جھک جانا پھر یہ آیت تلاوت فرمائی (آیت) ” ولا ترکنوا الی الذین ظلموا فتمسکم النار “
Top