Tafseer-e-Mazhari - Az-Zumar : 38
وَ لَئِنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ لَیَقُوْلُنَّ اللّٰهُ١ؕ قُلْ اَفَرَءَیْتُمْ مَّا تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اِنْ اَرَادَنِیَ اللّٰهُ بِضُرٍّ هَلْ هُنَّ كٰشِفٰتُ ضُرِّهٖۤ اَوْ اَرَادَنِیْ بِرَحْمَةٍ هَلْ هُنَّ مُمْسِكٰتُ رَحْمَتِهٖ١ؕ قُلْ حَسْبِیَ اللّٰهُ١ؕ عَلَیْهِ یَتَوَكَّلُ الْمُتَوَكِّلُوْنَ
وَلَئِنْ : اور اگر سَاَلْتَهُمْ : تم پوچھو ان سے مَّنْ : کون۔ کس خَلَقَ : پیدا کیا السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضَ : اور زمین لَيَقُوْلُنَّ : تو وہ ضرور کہیں گے اللّٰهُ ۭ : اللہ قُلْ : فرمادیں اَفَرَءَيْتُمْ : کیا پس دیکھا تم نے مَّا تَدْعُوْنَ : جن کو تم پکارتے ہو مِنْ : سے دُوْنِ اللّٰهِ : اللہ کے سوائے اِنْ : اگر اَرَادَنِيَ : چاہے میرے لیے اللّٰهُ : اللہ بِضُرٍّ : کوئی ضرر هَلْ : کیا هُنَّ : وہ سب كٰشِفٰتُ : دور کرنے والے ہیں ضُرِّهٖٓ : اس کا ضرر اَوْ : یا اَرَادَنِيْ : وہ چاہے میرے لیے بِرَحْمَةٍ : کوئی رحمت هَلْ : کیا هُنَّ : وہ سب مُمْسِكٰتُ : روکنے والے ہیں رَحْمَتِهٖ ۭ : اس کی رحمت قُلْ : فرما دیں حَسْبِيَ اللّٰهُ ۭ : کافی ہے میرے لیے اللہ عَلَيْهِ : اس پر يَتَوَكَّلُ : بھروسہ کرتے ہیں الْمُتَوَكِّلُوْنَ : بھروسہ کرنے والے
اور اگر تم ان سے پوچھو کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا تو کہہ دیں کہ خدا نے۔ کہو کہ بھلا دیکھو تو جن کو تم خدا کے سوا پکارتے ہو۔ اگر خدا مجھ کو کوئی تکلیف پہنچانی چاہے تو کیا وہ اس تکلیف کو دور کرسکتے ہیں یا اگر مجھ پر مہربانی کرنا چاہے تو وہ اس کی مہربانی کو روک سکتے ہیں؟ کہہ دو کہ مجھے خدا ہی کافی ہے۔ بھروسہ رکھنے والے اسی پر بھروسہ رکھتے ہیں
ولئن سالتھم من خلق السموت والارض لیقولن اللہ قل افرایتم ما تدعون من دون اللہ ان ارادنی اللہ بضر ھل ھن کشفت ضرہ او ارادنی برحمۃ ھل ھن ممسکت رحمتہ اور اگر آپ ان سے پوچھیں کہ آسمان اور زمین کو کس نے پیدا کیا تو (یہی) کہیں گے کہ اللہ نے (ان کو پیدا کیا) آپ ان سے کہئے کہ بھلا پھر یہ تو بتاؤ کہ اللہ کے سوا تم جن معبودوں کو پوجتے ہو ‘ اگر اللہ مجھے کوئی تکلیف پہنچانا چاہے تو کیا (تمہارے) یہ معبود اس کی دی ہوئی تکلیف کو دور کرسکتے ہیں ‘ یا اگر وہ اپنی رحمت سے نوازنا چاہے تو کیا یہ معبود اس کی (عطا کردہ) رحمت کو روک سکتے ہیں ؟ وَلَءِنْ سَاَلْتَھُمْ یعنی اگر آپ کفار مکہ سے پوچھیں۔ لَیَقُوْلُنَّ اللہ تو وہ ضرور کہیں گے کہ اللہ نے ان کو پیدا کیا ہے۔ یہ اللہ کے خالق ہونے کا ثبوت ہے کھلا ہوا۔ اور بتوں میں خلاقیت کی قابلیت نہیں ہے ‘ یہ بھی ظاہر ہے تو لامحالہ وہ اللہ کی خلاقیت کا اعتراف کریں گے۔ کفار مکہ کو اس کا اقرار بھی تھا۔ اَفَرَاَیْتُمْ یعنی تم اس بات کا اعتراف کرتے ہو کہ اللہ ہی خالق کائنات ہے ‘ اس کے سوا کوئی پیدا کرنے ولا نہیں تو مجھے بتاؤ۔ بِضُرِّ تکلیف ‘ مصیبت۔ ھَلْ ھُنَّ کیا وہ بت۔ استفہام انکاری ہے ‘ یعنی تنہا اللہ کی خلاقیت کا اقرار کرنے کے بعد ان پر اس بات کا اقرار لازم ہوجاتا ہے کہ بت نہ دکھ کو دور کرسکتے ہیں ‘ نہ سکھ دے سکتے ہیں ‘ نہ اللہ کی بھیجی ہوئی مصیبت کو دفع کرسکتے ہیں ‘ نہ اس کی عطا کردہ نعمت کو لوٹا سکتے ہیں۔ مقاتل کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے (اس آیت کے نزول کے بعد) مشرکوں سے یہ سوال کیا تھا ‘ لیکن انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ اس پر آیت ذیل نازل ہوئی۔ قل حسبی اللہ علیہ یتوکل المتوکلون آپ کہہ دیجئے : میرے لئے اللہ کافی ہے ‘ بھروسہ کرنے والے اسی پر بھروسہ کرتے ہیں۔ حَسْبِیَ اللہ یعنی سکھ دینے اور دکھ کو دور کرنے کیلئے میرے واسطے اللہ کافی ہے۔ عَلَیْہِ یَتَوَکَّلُ الْمُتَوَکِّلُوْنَ اسی پر مؤمن توکل کرتے ہیں ‘ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اللہ کے سوا نہ کوئی ضرر پہنچا سکتا ہے ‘ نہ فائدہ دے سکتا ہے۔ مؤمنوں کے ایمان کا تقاضا ہے کہ اللہ ہی پر بھروسہ رکھیں ‘ اسلئے ان کو متوکل فرمایا۔
Top