Dure-Mansoor - Al-Anbiyaa : 87
وَ ذَا النُّوْنِ اِذْ ذَّهَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ اَنْ لَّنْ نَّقْدِرَ عَلَیْهِ فَنَادٰى فِی الظُّلُمٰتِ اَنْ لَّاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنْتَ سُبْحٰنَكَ١ۖۗ اِنِّیْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَۚۖ
وَ : اور ذَا النُّوْنِ : ذوالنون (مچھلی والا) اِذْ : جب ذَّهَبَ : چلا وہ مُغَاضِبًا : غصہ میں بھر کر فَظَنَّ : پس گمان کیا اس نے اَنْ لَّنْ نَّقْدِرَ : کہ ہم ہرگز تنگی نہ کریں گے عَلَيْهِ : اس پر فَنَادٰي : تو اس نے پکارا فِي الظُّلُمٰتِ : اندھیروں میں اَنْ لَّآ : کہ نہیں اِلٰهَ : کوئی معبود اِلَّآ اَنْتَ : تیرے سوا سُبْحٰنَكَ : تو پاک ہے اِنِّىْ : بیشک میں كُنْتُ : میں تھا مِنَ : سے الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع)
اور مچھلی والے کو یاد کرو جبکہ وہ غصہ ہو کر چل دیئے سو انہوں نے گمان کیا کہ ہم ان کے ساتھ تنگی والا معاملہ نہ کریں گے سو انہوں نے اندھیروں میں یوں پکارا (آیت ) ” لا الہ الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین۔
حضرت یونس (علیہ السلام) کا واقعہ : 1:۔ ابن جریر اور بیہقی نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” وذالنون اذ ذھب مغاضبا “ سے مراد ہے کہ وہ اپنی قوم پر غصہ ہوئے۔ (آیت) ” فظن ان لن نقدر علیہ “ یعنی (انہوں نے گمان کیا) کہ ہم ان کو سزا دینے پر قادر نہیں جو انہوں نے اپنی قوم پر ناراضگی کا اظہار کیا اور وہاں سے بھاگ گئے روای ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ ان کو یہ سزا ملی کہ انکو مچھلی نے پکڑ لیا۔ 2:۔ ابن ابی شیبہ، ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے ضحاک (رح) سے (آیت) ” وذالنون اذ ذھب مغاضبا “ کے بارے میں فرمایا کہ وہ اپنی قوم پر غصہ ہوئے۔ 3:۔ ابن ابی حاتم نے عمرو بن قیس (رح) سے روایت کیا کہ انبیاء (علیہم السلام) اکھٹے ہوتے تھے اور ان پر ایک ایسا ہوتا تھا کہ جس کی طرف وحی کی جاتی تھی کہ فلاں کو بنو فلاں کی طرف بھیجا گیا ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” اذ ذھب مغاضبا “ یعنی اس نبی سے ناراض ہو کر گئے۔ 4:۔ ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم اور بیہقی نے الاسماء والصفات میں ابن عباس ؓ سے (آیت) ” فظن ان لن نقدر علیہ “ کے بارے میں فرمایا کہ انہوں نے گمان کیا کہ اسے وہ عذاب نہیں پہنچے گا جو ان کو پہنچنا تھا۔ 5:۔ احمد نے زہد میں عبد بن حمید اور ابن منذر نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” اذ ذھب مغاضبا “ یعنی وہ بھاگ کھڑے ہوئے (آیت) ” فظن ان لن نقدر علیہ “ اور ان کا خیال تھا کہ ہم اس پر قادر نہیں ہیں حضرت ذوالنون (علیہ السلام) کا پہلے نیک عمل تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس عمل کو نہیں چھوڑا اور اسی عمل کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا کو قبول فرمایا اور ان کی مدد فرمائی۔ 6:۔ ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید، ابن منذر، ابن ابی حاتم نے اور بیہقی نے الاسماء والصفات میں مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” فظن ان لن نقدر علیہ “ (گمان کیا کہ ہم اس وجہ سے ان کو ہرگز سزا نہ دیں گے) 7:۔ ابن ابی حاتم نے عطیہ (رح) سے (آیت) ” فظن ان لن نقدر علیہ “ کے بارے میں فرمایا کہ (انہوں نے گمان کیا) کہ ہم ان کے خلاف ہرگز فیصلہ نہ کریں گے۔ 8:۔ ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” فظن ان لن نقدر علیہ “ یعنی انہوں نے گمان کیا کہ ہم ہرگز انکے خلاف سزا کا فیصلہ نہ کریں گے اور نہ کسی مصیبت کا اس کے غصہ کے سبب جو انہوں نے اپنی قوم پر کیا تھا پھر اپنی قوم کو چھوڑ کر بھاگ گئے تھے۔ حضرت یونس (علیہ السلام) کی تسبح : 9:۔ عبد بن حمید نے عبداللہ بن حارث (رح) سے روایت کیا کہ جب مچھلی نے حضرت یونس (علیہ السلام) کو نگل لیا تو اس نے ان کو سمندر کی تہہ میں ڈال دیا تو انہوں نے زمین کی تسبیح کو سنا اور وہ چیز تھی جو ان کی حاجت تھی پھر انہوں نے اس تسبیح کے ساتھ اللہ کو پکارا۔ 10:۔ بیہقی نے الاسماء والصفات میں حسن (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” فظن ان لن نقدر علیہ “ یعنی انہوں نے گمان کیا کہ ہم ہرگز ان کو سزا نہیں دیں گے (آیت) ” فنادی فی الظلمت “ (یعنی تین اندھیروں میں اللہ کو پکارا) رات کا اندھیرا سمندر کا اندھیرا اور مچھلی کے پیٹ کا اندھیرا (آیت) ” لا الہ الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین “ (یہ تسبیح سن کر) فرشتوں نے کہا کہ یہ جانی پہچانی آواز ہے جو اجنبی زمین سے آرہی ہے۔ 11:۔ ابن جریر نے قتادہ اور کلبی دونوں حضرات سے روایت کیا کہ (آیت) ” فظن ان لن نقدر علیہ “ سے مراد ہے کہ انہوں نے گمان کیا کہ ہم ہر گزان کے خلاف کسی سزا کا فیصلہ نہیں کریں گے۔ 12:۔ ابن جریرنے سعید بن جبیر کے طریق سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” فنادی فی الظلمت “ سے مراد ہے رات کا اندھیرا سمندر کا اندھیرا اور مچھلی کے پیٹ کا اندھیرا۔ ابن جریر نے محمد بن کعب عمرو بن میمون اور قتادہ سے اسی طرح روایت کیا ہے۔ احمد نے زہد میں سعید بن جبیر سے اسی طرح روایت کیا ہے۔ 13:۔ احمد نے زہد میں ابن ابی الدنیا نے کتاب الفرج بعد الشدۃ میں ابن ابی حاتم اور حاکم نے (حکاکم نے اس کو صحیح بھی کہا ہے) ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” فنادی فی الظلمت “ سے مراد ہے رات کا اندھیرا مچھلی کے پیٹ کا اندھیرا اور سمندر کا اندھیرا۔ 14:۔ ابن جریر نے سالم بن ابی الجعد (رح) سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے مچھلی کی طرف وحی بھیجی کہ تو نے یونس (علیہ السلام) کو تکلیف نہیں پہنچائی نہ ان کے گوشت کو اور نہ ان کی ہڈی کو پھر اس مچھلی کو دوسری مچھلی نے نگل لیا پھر فرمایا (آیت) ” فنادی فی الظلمت “ یعنی ایک مچھلی کا اندھیرا، پھر دوسری مچھلی کا اندھیرا، پھر دریا کا اندھیرا۔ 15:۔ ابن منذر نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ ہر تسبیح سے مراد قرآن میں نماز ہے مگر اللہ تعالیٰ کا یہ قول (آیت) ” سبحنک انی کنت من الظلمین “۔ سے مراد نماز نہیں ہے۔ 16:۔ زبیر بکار نے موفقیات میں کلبی کے طریق سے ابو صالح سے اور انہوں نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ معاویہ ؓ نے ایک دن ان سے فرمایا گذشتہ رات میں قرآن مجید کی دو آیتوں کے بارے میں مضطرب ہوا اور میں نے انکی حقیقت کو نہیں جانا پوچھا وہ کون سی آیتیں ہیں ؟ فرمایا اللہ تعالیٰ کا یہ قول (آیت) ” وذالنون اذ ذھب مغاضبافظن ان لن نقدر علیہ “۔ اور (دوسرا) اللہ تعالیٰ کا یہ قول (آیت) ” حتی اذا استیئس الرسل وظنوا انہم قد کذبوا “ (یوسف آیت 110) حضرت معاویہ ؓ نے فرمایا کہ حضرت یونس (علیہ السلام) ایسا کس طرح گمان کرسکتے تھے اور یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ انہوں نے گمان کیا کہ جو ان سے وعدہ کیا گیا تھا وہ ٹھیک نہ تھا ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ یونس (علیہ السلام) نے یہ گمان فرمایا (کہ بغیر اجازت چلے جانے میں) وہ ایسی غلطی نہیں پہنچے کہ اللہ تعالیٰ اس پر سزا کا فیصلہ فرمائیں گے اور ان کو کوئی شک نہیں تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ اس سزا کا ارادہ فرمائیں گے تو وہ اس پر قادر ہوں گے اور دوسری آیت کا مطلب یہ ہے کہ بلاشبہ رسول مایوس ہوگئے اپنی قوم کے ایمان سے اور انہوں نے گمان کرلیا کہ جس شخص نے ان کی نافرمانی کی ظاہر میں راضی کرتے ہوئے تو تحقیق اور اندر سے انہوں نے جھٹلایا اور یہ ان پر لمبی مصیبت آجانے کی وجہ سے ہوا اور رسول اللہ کی مدد سے مایوس نہیں ہوئے تھے اور نہ انہوں نے گمان کیا تھا کہ ان سے وعدہ کیا گیا تھا وہ ٹھیک نہ تھا (یہ جواب سن کر) معاویہ ؓ نے فرمایا اے ابن عباس ؓ تو نے میری مشکل حل کردی اللہ تعالیٰ تیری مشکلات حل کردے۔ قوم یونس سے عذاب کا ٹلنا : 17:۔ ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ جب یونس (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو دعوت دی (اور انہوں نے جھٹلایا) تو اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ صبح کے وقت ان پر عذاب آجائے گا آپ نے قوم کو عذاب کا بتادیا تو ان لوگوں نے کہا یونس (علیہ السلام) نے کبھی جھوٹ نہیں بولا اور ٓصبح کو ہم پر عذاب آجائے گا اب (سب) آجاویہاں تک کہ ہم ہر چیز میں سے کمزور چیزیں نکالیں پس ہم (ہر ایک کو) ان کے بچوں کے ساتھ ملادیں شاید کہ اللہ تعالیٰ ان پر رحم فرمائیں پھر انہوں نے اپنی عورتوں اور بچوں کو ساتھ نکالا اور اونٹوں کو ان کے بچوں کے ساتھ نکالا اور گایوں کو ان کے بچوں کے ساتھ نکالا اور بکریوں کو ان کے بچوں کے ساتھ نکالا اور ان بچوں کو ان کے آگے رکھا اور عذاب کا سامنے کرنے لگے جب انہوں نے (عذاب کو) آتے دیکھا تو اللہ کی طرف گڑگڑانے لگے اور دعا کرنے لگے عورتیں اور بچے رونے لگے اونٹ اور ان کے بچے بلبلانے لگے گائے اور اس کے بچے آواز دینے لگے بکریاں اور ان کے بچے ممیانے لگے (اس حال میں) اللہ تعالیٰ نے ان پر رحم فرمایا اور ان سے عذاب کو ہٹادیا (عذاب نہ آیا) تو یونس (علیہ السلام) غصہ ہوگئے اور کہا مجھے جھٹلایا جائے گا وہ غصہ کے عالم میں سمندر کی طرف چلے گئے سی کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” اذ ذھب مغاضبا “ پھر دریا کی طرف چلے گئے قوم کی کشتی لنگر انداز تھی یونس (علیہ السلام) نے فرمایا مجھے اپنے ساتھ سوار کرلو۔ 18۔ ابن ابی شیبہ اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ جب مچھلی نے یونس (علیہ السلام) کو نگل لیا تو ان کو لے کر چلی یہاں تک کہ ساتویں زمین پر جا ٹھہری یونس (علیہ السلام) نے زمین کی تسبح کو سنا آپ کو اس کی تسبیح کا شوق پیدا ہوا اور فرمایا (آیت) ” لا الہ الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین “ (توتسبیح پڑھنے پر مچھلی نے) ان کو زمین پر ڈال دیا یہاں تک کہ ان کو (اس حال میں) زمین پر ڈال دیا کہ ان نے بال تھے نہ ان کے ناخن تھے نوزائیدہ بچے کی طرح تھے آپ کے اوپر کدو کی بیل پیدا فرما دی جو ان پر سایہ کررہی تھی آپ اس کے نیچے حشرات الارض کھاتے تھے اس درمیان وہ سو رہے تھے کہ اچانک ان کے اوپر ایک پتہ گرا جو خشک ہوچکا تھا انہوں نے اپنے رب سے اس کی شکایت کی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا تو غم کررہا ہے اس درخت پر جو خشک ہوگیا ہے اور تجھ کو غم نہیں ہے ایک لاکھ یا اس سے زیادہ لوگوں پر جو عذاب دیئے جاتے۔ 19:۔ ابن ابی حاتم اور ابن الدنیا نے کتاب الفرج میں اور ابن مردویہ نے انس ؓ نے مرفوع روایت کیا کہ یونس (علیہ السلام) کے لئے جب یہ بات ظاہر ہوگئی کہ وہ اللہ تعالیٰ سے ان کلمات کے ساتھ دعا کریں جب انہوں نے اللہ تعالیٰ کو مچھلی کے پیٹ میں پکارا تھا اے اللہ (آیت) ” لا الہ الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین “ تو ان کی دعانے عرش کو گھیر لیا اور فرشتوں نے کہا یہ پہچانی ہوئی کمزور آواز ہے اجنبی شہر سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کیا تم اس کو نہیں پہنچانتے ؟ فرشتوں نے کہا اے ہمارے رب وہ کون ہے :؟ فرمایا وہ میرا بندہ یونس ہے فرشتوں نے کہا آپ کا بندہ یونس ہے جس کے مقبول عمل ہمیشہ بلند ہوتے ہیں اور جس کی دعا مقبول ہوتی ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہاں میرا وہ بندہ یونس ہے فرشتوں نے عرض کیا اے ہمارے رب کیا آپ رحم نہیں فرماتے اس عمل کی وجہ سے جو وہ آسودہ زندگی میں کیا کرتا تھا تو تاکہ اسے مصیبت سے نجات عطا فرما اللہ تعالیٰ نے فرمایا کیوں نہیں اور مچھلی کو حکم فرمایا تو اس نے ان کو ایک چٹیل میدان میں پھینک دیا اور اللہ تعالیٰ نے ان پر کدو کی بیل پیدا فرما دی۔ 20:۔ ابن ابی شیبہ نے مصنف میں عبد بن حمید، ابن مردویہ اور ابن عساکر نے حضرت علی ؓ سے ایک مرفوع حدیث میں روایت کیا کہ کسی بندے کو یہ لائق نہیں کہ وہ یوں کہے کہ میں یونس بن متی سے بہتر ہوں کہ انہوں نے اندھیروں میں اللہ کی تسبیح بیان کی۔ 21:۔ احمد، ترمذی، نسائی، حکیم نے نوادرالاصول میں حاکم، ابن جریر، ابن ابی حاتم، بزار، ابن مردویہ اور بیہقی نے شعب میں (حاکم نے صحیح بی کہا ہے) سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا مچھلی والے (یعنی یونس (علیہ السلام) نے مچھلی کے پیٹ میں پکارا (آیت) ” لا الہ الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین “ کوئی مسلمان ان کلمات کے ساتھ کسی چیز کے بارے میں دعا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی دعا کو قبول فرماتے ہیں۔ دعاء یونس (علیہ السلام) : 22:۔ ابن جریر نے سعد ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ کے وہ نام جس کے ذریعہ دعا کی جائے تو وہ قبول ہوتی ہے اور جب سوال کیا جائے تو دیا جاتا ہے وہ یونس بن متی (علیہ السلام) کی دعا ہے میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! یہ دعا یونس (علیہ السلام) کے لئے خاص ہے یہ مسلمانوں کی جماعت کے لئے ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا وہ یونس (علیہ السلام) کے لئے خاص ہے اور ایمان والوں کے لئے بھی ہے جب وہ اس کے ذریعہ دعا کریں۔ کیا تو نے اللہ تعالیٰ کا یہ قول نہیں سنا (آیت) ” وکذلک ننجی المومنین “ اور وہ شرط ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس شخص کے لئے جو اس سے دعا کرے۔ 23:۔ ابن مردویہ اور دیلمی نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ یہ (آیت) ” لا الہ الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین انبیاء کے لئے پناہ گاہ ہے اس کے ذریعہ یونس (علیہ السلام) نے مچھلی کے پیٹ کے اندھیرے میں دعا فرمائی تھی۔ 24:۔ ابن ابی حاتم نے حسن ؓ سے روایت کیا کہ اللہ کا اسم اعظم جس کے ذریعہ دعا کی جائے تو وہ قبول ہوتی ہے اور جب اس کے ذریعہ مانگا جائے تو عطا کیا جاتا ہے اور وہ دعا یہ ہے (آیت) ” لا الہ الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین “۔ 25:۔ حاکم نے سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ میں تم کو اللہ تعالیٰ کے اسم اعظم پر دلالت نہ کروں ؟ وہ یونس (علیہ السلام) کی دعا ہے (یعنی) (آیت) ” لا الہ الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین “ جو مسلمان اس کے ذریعہ اپنی بیماری میں چالیس مرتبہ دعا کرے گا اور وہ پھر اسی بیماری میں مرجائے تو اس کو شہید کا اجردیا جائے گا اور اگر وہ صحت یاب ہوگیا تو بھی اس کی مغفرت ہوچکی ہوگی۔ 26:۔ حاکم نے (حاکم نے تصحیح بھی کی ہے) ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جس شخص نے یہ کہا کہ میں یونس بن متی سے بہتر ہوں تو اس نے جھوٹ بولا۔ حضرت یونس (علیہ السلام) کا تلبیہ پڑھنا : 27:۔ حاکم نے (اور آپ نے اس کو صحیح بھی کہا ہے) ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ ایک گھاٹی سے گذرے تو پوچھا یہ کون سی گھاٹی ہے ؟ صحابہ نے عرض کیا کہ فلاں گھاٹی ہے پھر فرمایا گویا میں دیکھ رہا ہوں یونس (علیہ السلام) کو کہ وہ ایک اونٹنی پر سوار ہیں جس کی مہار کھجور کے پتوں کی ہے اور وہ اونی جبہ پہنے ہوئے ہیں اور فرما رہے ہیں ” لبیک اللہم لبیک۔ 28:۔ عبدالرزاق، بخاری مسلم، ابوداود اور ابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کسی کے لئے یہ کہنا جائز نہیں کہ میں یونس بن متی سے بہتر ہوں ان سے غلطی ہوگئی پھر رب تعالیٰ نے ان کو چن لیا۔ 29:۔ عبد بن حمید، بخاری، نسائی، اور ابن مردویہ نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم میں سے کوئی ہرگز یوں نہ کہے کہ میں یونس بن متی سے بہتر ہو۔ 30:۔ بخاری مسلم اور ابن مردویہ نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کسی کو یہ لائق نہیں کہ میں یونس بن متی سے بہتر ہوں۔ّ (واللہ اعلم )
Top