Al-Qurtubi - Al-Anbiyaa : 87
وَ ذَا النُّوْنِ اِذْ ذَّهَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ اَنْ لَّنْ نَّقْدِرَ عَلَیْهِ فَنَادٰى فِی الظُّلُمٰتِ اَنْ لَّاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنْتَ سُبْحٰنَكَ١ۖۗ اِنِّیْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَۚۖ
وَ : اور ذَا النُّوْنِ : ذوالنون (مچھلی والا) اِذْ : جب ذَّهَبَ : چلا وہ مُغَاضِبًا : غصہ میں بھر کر فَظَنَّ : پس گمان کیا اس نے اَنْ لَّنْ نَّقْدِرَ : کہ ہم ہرگز تنگی نہ کریں گے عَلَيْهِ : اس پر فَنَادٰي : تو اس نے پکارا فِي الظُّلُمٰتِ : اندھیروں میں اَنْ لَّآ : کہ نہیں اِلٰهَ : کوئی معبود اِلَّآ اَنْتَ : تیرے سوا سُبْحٰنَكَ : تو پاک ہے اِنِّىْ : بیشک میں كُنْتُ : میں تھا مِنَ : سے الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع)
اور ذو النون کو (یاد کرو) جب وہ (اپنی قوم سے ناراض ہو کر) غصے کی حالت میں چل دیئے اور خیال کیا کہ ہم ان پر قابو نہیں پاسکیں گے، آخر اندھیرے میں (خدا کو) پکارنے لگے کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو پاک ہے (اور) بیشک میں قصوروار ہوں
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وذالنون اس سے پہلے اذکر فعل مخذوف ہے یعنی ذوالنون کو یاد کرو۔ یہ یونس بن متی کا لقب ہے کیونکہ مچھلی نے آپ کو نگل لیا تھا۔ النون سے مراد مچھلی ہے۔ حضرت عثمان کی حدیث میں ہے کہ انہوں ایک ملیح بچہ دیکھا تو فرمایا : اس کی ٹھوڑی پر سیاہ نشان لگا دو تاکہ اسے نظر نہ لگے۔ ثعلب نے ابن اعرابی سے روایت کیا ہے کہ النوفۃ وہ گڑھا ہوتا ہے جو چھوٹے بچے کی تھوڑی میں ہوتا ہے۔ اذذھب مغاضباً حسن، شعبی اور سعید بن جبیر نے کہا : اپنے رب کے لیے ناراض ہو کر گیا۔ اس مفہوم کو طبری اور قتبی نے اختیار کیا ہے۔ مہدوی نے اس کو مستحسن سمجھا ہے۔ اور حضرت ابن مسعود ؓ سے مروی ہے نحاس نے کہا : جو لوگ لغت کو نہیں جانتے انہوں نے اس کا انکار کیا ہے حالانکہ یہ صحیح قول ہے۔ معنی یہ ہے کہ اپنے رب کی خاطر ناراض ہوا جیسے تو کہتا ہے : غضبت لک یعنی تمہاری وجہ سے ناراض ہوا۔ مومن اللہ تعالیٰ کے لیے ناراض ہوتا ہے جب اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی جاتی ہے۔ اکثر اہل لغت کا خیال ہے کہ نبی کریم ﷺ نے حضرت عائشہ کو اسی وجہ سے فرمایا تھا : اشترطی لھم الولاء (ان کے لیے ولاء کی شرط منظور کرلو) قتبی نے اس قول کی تائید میں مبالغہ کیا ہے۔ حدیث میں حضرت یونس کے وصی میں ہے ” آپ کا سینہ تنگ تھا جب آپ نے نببوت کا بوجھ اٹھایا تو اس کے نیچے آپ کا سینہ اس طرح ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا جس طرح موسم ربیع میں پیدا ہونے والا اونٹ کا بچہ بھاری بوجھ کے نیچے ٹوٹ جاتا ہے “ پس حضرت یونس (علیہ السلام) بھاگے ہوئے غلام کی طرح چل پڑے (1) ۔ یہ آپ کا غصہ کرنا صغیرہ تھا آپ اللہ تعالیٰ پر ناراض نہیں ہوئے تھے بلکہ اللہ کے لیے ناراض ہوئے تھے جب ان کی قوم سے عذاب اٹھایا گیا تھا۔ حضرت ابن مسعود ؓ نے فرمایا : وہ اپنے ربب سے بھاگا یعنی اپنے رب کے حکم سے بھاگا حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی قوم سے عذاب اٹھانے کے بعد ان کی طرف لوٹ آنے کا حکم دیا، کیونکہ حضرت یونس (علیہ السلام) اپنی قوم کو ایک معلوم وقت میں عذاب کے نزول کی دھمکی دے چکے تھے پس اس وقت آپ ان سے نکل گئے۔ ان کی قوم پر عذاب آپیا تو وہ گڑ گڑانے لگے۔ پس ان سے عذاب اٹھا لیا گیا اور حضرت یونس (علیہ السلام) کو ان کی توبہ کا علم نہ تھا، اسی وجہ سے وہ غضبناک ہو کر نکلے تھے۔ اس کے حق میں تھا کہ وہ نہ جاتے مگر اجازت کے ساتھ۔ حسن نے کہا : اللہ تعالیٰ انہیں اپنی قوم کی طرف جانے کا حکم دیا تو آپ نے مہلت کا سوال کیا تاکہ تیاری کریں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں جلدی کرنے کا کہا حتیٰ کہ انہوں نے جوتا لینے کو کہا تاکہ اسے پہن لیں لیکن مہلت نہ دی گئی۔ آپ کو کہا گیا : حکم اس سے جلدی کا ہے۔ آپ کے خلق میں تنگی تھی آپ اپنے رب پر ناراض ہو کر نکلے۔ یہ ایک قول ہے لیکن نحاس کا قول عمدہ ہے یعنی اپنے رب کی خاطر غضبناک ہو کر نکلے یعنی اپنی قوم پر ناراض ہوئے کیونکہ ان کی قوم نے کفر کیا تھا۔ بعض نے فرمایا : وہ اپنی قوم سے ناراض ہوئے جب ان پر ان کا امر طویل ہوگیا اور ان کی سر کشی طویل ہوگئی تو آپ اپنے نفس پر ناراض ہو کر نکلے ان کی اذیت پر صبر نہ کیا جبکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ان کے ساتھ رہنے کا حکم دیا تھا اور دعا کرنے کا حکم دیا تھا۔ ان کا ذنب یہی تھا۔ کہ وہ اللہ تعالیٰ کے اذن کے بغیر نکلے تھے۔ یہ مفہوم حضرت ابن عباس ؓ اور ضحاک سے مروی ہے حضرت یونسعلیہ السلام جوان تھے اور انہوں نے نبوت کا ببوجھ نہیں اٹھایا تھا اسی وجہ سے نبی اکرم ﷺ کو کہا گیا : ولا تکن کصاحب الحوت (القلم :48) (تم مچھلی والے کی طرح نہ ہو جائو) ضحاک سے مروی ہے (1 کہ وہ اپنی قوم پر غضبناک تھے انہوں نے کفر کیا تو ان پر ناراض ہونا واجب تھا ہر ایک پر لازم ہوتا ہے کہ وہ اس پر ناراض ہو جو اللہ تعالیٰ کی نافرماین کرے۔ ایک جماعت نے کہا جن میں اخفش بھی ہے : وہ اس بادشاہ پر ناراض ہو کر نکلے تھے جو ان کی قوم پر مقرر تھا۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : شعیا نبی اور وہ بادشاہ جو اس وقت موجود تھا جس کا نام حزقیا تھا انہوں نے ارادہ کیا کہ حضرت یونس علیہ السللام کا نینویٰ کے بادشاہ کی طرف بھیجیں اس نے بنی اسرائیل سے جنگ کی تھی اور ان میں سے اکثر کو قیدی بنالیا تھا تاکہ نینویٰ کے بادشاہ نے حضرت یونس (علیہ السلام) بات کریں تاکہ وہ بنی اسرائیل کو ان کے ساتھ بھیج دے۔ اس وقت انبیاء کی طرف وحی کی جاتی تھی اور سیاسی امور بادشاہ کے پاس ہوتے تھے جس کو وہ انبیاء منتخب کرتے تھے پس وہ بادشاہ اپنے نبی کی وحی کے مطابق عمل کرتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے شعیا نبی کو وحی فرمائی کہ حزقیا بادشاہ کو کہو کہ وہ بنی اسرائیل میں سے ایک قوت والا امین خبر دینے والا چنے اور اسے اہل نینویٰ کی طرف بھیجیں اور وہ انہیں حکم دے کہ بنی اسرائیل کو آزاد کردیں۔ میں ان کے بادشاہوں اور جابروں کے دل میں ان کو علیحدہ کرنے کا حکم ڈال دوں گا۔ حضرت یونس (علیہ السلام) نے شعیا کو کہا : کیا اللہ تعالیٰ نے مجھے نکالنے کا حکم دیا ہے ؟ شعیا نے کہا : نہیں۔ پوچھا : کیا اس نے تجھ سے تیرا نام لیا ہے ؟ شعیا نے کہا : نہیں۔ فرمایا : وہ انبیاء امین اور قوت والے تھے۔ پس انہوں نے حضرت یونس (علیہ السلام) پر نکلنے کے لیے اصرار کیا تو حضرت یونس علیہ السللام اس نبی اور بادشاہ پر اور اپنی قوم پر ناراض ہو کر نکلے۔ آپ بحر روم پر آئے پھر آپ کو مچھلی کے منہ میں چلے جانے کا واقعہ پیش آیا۔ آپ کو مچھلی کے پیٹ میں رہنے کی آزمائش میں ڈالا گیا۔ کیونکہ آپ نے شعیا نبی کے حکم کو ترک کیا تھا اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : فالتقمہ الحوت وھو ملیم۔ (الصافات) ملیم اسے کہتے ہیں جو ایسا فعل کرے جس پر ملامت کی جاتی ہو۔ آپ نے جو فعل کیا وہ یا صغیرہ تھا یا ترک اولیٰ تھا۔ بعض علماء نے فرمایا : آپ جب نکلے تھے تو آپ اس وقت نبی نہ تھے لیکن آپ کو بنی اسرائیل کے بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ نے نینویٰ کی طرف جانے کو کہا تاکہ آپ انہیں شعیا کی طرف بلائیں تو آپ نے اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی امر سے جانے کو ناپسند کیا پس آپ بادشاہ پر ناراض ہو کر نکلے۔ جب آپ نے مچھلی کے پیٹ میں نجات پائی تو آپ کو اللہ تعالیٰ نے اپنی قوم کی طرف بھیجا آپ نے انہیں بلایا اور وہ آپ پر ایمان لے آئے۔ قشیری نے کہا : اظہر یہ ہے کہ یہ غضبناک ہونا اللہ تعالیٰ کے ارسال کے بعد تھا اور قوم پر عذاب کے اٹھائے جانے کے بعد آپ نے ان سے عذاب کے اٹھائے جانے کو پسند نہ کیا۔ میں کہتا ہوں : یہ سب سے بہتر ہے جو اس کے متعلق کہا گیا ہے جیسا کہ انشاء اللہ تعالیٰ سورة الصافات میں اس کا بیان آئے گا۔ بعض علماء نے فرمایا : آپ کی قوم کے اخلاق میں سے تھا کہ جس کے متعلق انہیں جھوٹ بولنے کا پتہ چل جاتا اسے قتل کردیتے تھے۔ پس آپ کو قتل ہوجانے کا اندیشہ ہوا تو آپ ناراض ہوئے۔ آپ نکل پڑے حتیٰ کہ آپ ایک کشتی میں سوار ہوئے وہ کشتی ٹھہر گئی اور چلتی نہیں تھی کشتی والوں نے کہا : کیا تم میں سے کوئی بھاگنے والا ہے ؟ حضرت یونس (علیہ السلام) نے کہا : وہ میں ہوں، پھر واقعہ ہوا جو ہوا۔ آپ کو گناہ صغیرہ سے پاک کرنے کے لیے مچھلی کے پیٹ میں مبتلا کیا گیا جیسا کہ اہل احد کے بارے میں فرمایا : حتی اذا فلتم… ولیمحص اللہ الذین آمنوا۔ انبیاء کے گناہ بخشے ہوئے ہوتے ہیں لیکن ان پر تمحیص جاری ہوتی ہے اور اس کے ضمن میں دوبارہ ایسا کرنے سے زجر ہوتی ہے۔ چوتھا قول یہ ہے کہ آپ اپنے رب پر اور اپنی قوم پر ناراض نہیں ہوئے تھے۔ یہ عربوں کے قول غضب سے مشتق ہے جب کوئی ناپسندیدگی کا اظہار کرے۔ فاعل کبھی ایک فاعل کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جب آپ نے قوم کو عذاب کا وعدہ دیا اور آپ ان سے نکل گئے تو انہوں نے توبہ کرلی اور ان سے عذاب اٹھا لیا گیا۔ جب آپ واپس آئے تو آپ کو معلوم ہوا کہ وہ تو ہلاک نہیں ہوئے آپ نے اس کو ناپسند کیا اور آپ بھاگ نکلے۔ یہ شعر اس مفہوم میں بطور دلیل پڑھا جاتا ہے۔ واغضب ان تھجی تمیم بدارم۔ یہاں اغضب بمعنی آنف ناپسند کرنا ہے۔ اس قول میں نظر ہے کیونکہ اس قول والے کو کہا جاتا ہے کہ یہ مغاضبت اگرچہ انفت کی وجہ سے تھی۔ الانفۃ (نفرت، ناپسندیدگی) کو غضب بھی لاحق ہوتا ہے وہ غضب تو ہے اگرچہ جس پر ہو قلیل بھی ہو آپ تو کہتے ہیں کہ وہ اپنے رب پر اور اپنی قوم پر ناراض نہیں ہوئے تھے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فظن ان لن نقدر علیہ فنادیٰ فی الظلمت بعض علماء نے فرمایا : اس کا معنی ہے ابلیس نے آپ کو پھسلایا اور آپ کے گمان میں اس کا امکان واقع ہوا کہ اللہ تعالیٰ انہیں سزا دینے پر قادر نہ ہوگا۔ یہ قول مردود اور قابل توجہ نہیں ہے کیونکہ یہ کفر ہے۔ سعید بن جیر سے مروی ہے مہدوی نے ان سے حکایت کیا ہے اور ثعلبی نے حسن سے روایت کیا ہے۔ ثعلبی نے کہا : عطا اور سعید بن جبیر اور کثیر علماء نے کہا : اس کا معنی ہے کہ اس نے گمان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس پر تنگی نہیں کرے گا۔ یہ اللہ تعالیٰ کے اس قول سے ہے : اللہ یبسط الرزق لمنن یشآء ویقدر (الرعد :26) یعنی اللہ تعالیٰ جس کے لیے چاہتا ہے رزق کو کشادہ فرماتا ہے اور جس کے لیے چاہتا ہے تنگ فرماتا ہے۔ میں کہتا ہوں : یہ قول سعید اور حسن کے قول کے مشابہ ہے۔ قدر، قدر، قتر اور قتر ہم معنی ہیں یعنی تنگ کیا گیا ہے، یہ حضرت ابن عباس ؓ کا قول ہے جس کو ماوردی اور مہدوی نے ذکر کیا ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : یہ القدر سے مشتق ہے۔ جس کا معنی قضا اور فیصلہ ہے، یعنی آپ نے گمان کیا کہ ہم آپ پر عقوبت کا فیصلہ نہیں کریں گے ؛ یہ قتادہ، مجاہد اور فراء کا قول ہے۔ یہ القدر سے ماخوذ ہے جس کا معنی فیصلہ ہے نہ کہ قدرت و استطاعت سے ماخوذ ہے۔ ابوالعباس احمد بن یحییٰ ثعلب سے مروی ہے انہوں نے فظن ان لن نقدر عیہن کے متعلق فرمایا : یہ تقدیر سے ہے نہ کہ القدرۃ سے کہا جاتا ہے : قدر اللہ لک الخیر یقدرہ قدراً اس کا معنی ہے اللہ تعالیٰ نے تیرے لیے خیر کو مقدر کیا۔ ثعلب نے بطور استشہاد یہ اشعار پڑھے : فلیست عشیات اللوی برواجع لنا ابداً ما أورق السلم النضر ولا عائد ذالک الزمان الذی مضی تبارک ما تقدر یقع ولک الشکر ما تقدر بمعنی ما تقدرہ وتقضی ہے ان دو تاویلوں پر علماء کا نظریہ ہے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز اور زہری نے فظن ان لن نقدر علیہ نون کے ضمہ اور دال کی شد کے ساتھ تقدیر سے پڑھا ہے۔ یہ قرأت ماوردی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کی ہے۔ عبید بن عمیر، قتادہ اور اعرج نے ان لن نقدر علیہ یاء کے ضمہ اور دال کی شد کے ساتھ فعل مجہول پڑھا ہے۔ یعقوب عبداللہ بن ابی اسحاق، حسن، حضرت ابن عباس ؓ نے بھی یقدر علیہ یاء کے ضمہ اور دال کے فتحہ کے ساتھ تخفیفاً مجہول کا صیغہ پڑھا ہے۔ حسن سے بھی فظن ان لن نقدر علیہ، مروی ہے باقی قراء نے نقدر نون کے فتحہ اور دال کے کسرہ کے ساتھ پڑھا ہے اور تمام کے نزدیک بمعنی تقدیر ہے۔ میں کہتا ہوں : یہ دونوں تاویلیں ایسی ہیں جن کو علماء نے اس شخص کے قول میں بھی استعمال کیا ہے جس نے کبھی کوئی خیر کا عمل نہیں کیا تھا۔ اس نے اپنے گھر والوں سے کہا تھا : جب وہ مر جائے تو اسے جلا دینا فو اللہ لئن قدر اللہ علی (اللہ کی قسم اگر اللہ تعالیٰ نے مجھ پر سزا کا فیصلہ کیا) پہلی تاویل کے مطابق اس کا مفہوم یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے اگر مجھ پر تنیہ فرمائی اور میرے محاسبہ میں مبالغہ کیا اور مجھے میرے گناہوں پر جزا دی تو ایسا ہوگا پھر اس نے افراط خوف کی وجہ سے گھر والوں کو جلانے کا حکم دیا۔ دوسری تاویل پر معنی یہ ہوگا اگر اللہ تعالیٰ تقدیر اور فیصلہ میں ہر مجرم کو اس کے جرم کی سزا دینے کا معاملہ طے کرچکا ہے تو اللہ تعالیٰ مجھے اپنے گناہوں اور جرموں کی ایسی سزا دے گا جو میرے سوا تمام جہانوں میں سے کسی کو بھی نہیں دے گا۔ اس حدیث کو ائمۃ حدیث نے موطا وغیرہ میں نقل کیا ہے۔ وہ شخص مومن، موحد تھا۔ بعض احادیث میں ہے ” اس نے سوائے توحید کے کوئی خیر کا عمل نہیں کیا تھا اور جب اللہ تعالیٰ نے اس سے پوچھا : تو نے ایسا کیوں کیا ؟ تو اس نے کہا : من خشیتک یا رب ! اے میرے رب ! تیری خشیت کی وجہ سے ایسا کیا تھا اور خشیت مومن مصدق میں ہوتی ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : انمایخشی اللہ من عبادہ العلموا (فاطر : 28) بعض علماء نے فرمایا : فظن ان لن نقدر علیہ کا معنی استفہام ہے اس کی تقدیر أفظن ہے۔ الف استفہام اختصاراً حذف کیا گیا ہے۔ یہ سلیمان ابوالمعتمر کا قول ہے۔ قاضی منذربن سعید نے حکایت کیا ہے۔ کہ بعض نے افظن الف کے ساتھ پڑھا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فنادی فی الظلمت ان لا الہ الا انت سبحنک انی کنت من الظلمین۔ اس میں دو مسئلے ہیں : مسئلہ نمبر 1 ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :۔ فنادی فی الظلمت علماء کا الظلمت کے بارے میں اختلاف ہے کہ اس سے کیا مراد ہے ؟ ایک جماعت نے کہا : جن میں حضرت ابن عباس ؓ اور قتادہ بھی ہیں کہ اس سے مراد رات کی تاریکی، سمندر کی تاریکی اور مچھلی کی تاریکی ہے۔ ابن ابی الدنیا نے کہا ہمیں یوسف بن موسیٰ نے بتایا انہوں نے کہا ہمیں عبداللہ بن موسیٰ نے بتایا انہوں نے اسرائیل سے انہوں نے ابو اسحاق سے انہوں نے عمروبن میمون سے روایت کیا ہے انہوں نے فرمایا ہمیں حضرت عبداللہ بن مسعود نے بیت المال میں بتایا کہ جب حضرت یونس (علیہ السلام) کو مچھلی نے نگل لیا اور وہ انہیں زمین کی تہہ کی طرف لے گئی تو حضرت یونس (علیہ السلام) نے کنکریوں کی تسبیح سنی۔ تو آپ نے ان تاریکیوں میں پکارا۔ وہ تین تاریکیاں تھیں مچھلی کے پیٹ کی تاریکی، رات کی تاریکی اور سمندر کی تاریکی : ان لا الہ الا انت سبحنک انی کنت من الظلمین۔ فنبذنہ بالعرآء وھو سقیم۔ (الصافات :145) جیسے اس چوزے کی ہئیت ہوتی ہے جس پر بال نہ ہوں۔ ایک جماعت نے کہا جن میں سالم بن ابی الجعد بھی ہیں کہ تاریکیوں سے مراد سمندر کی تاریکی۔ اس مچھلی کی تاریکی جس نے مچھلی کو نگلا تھا اور یہ بھی صحیح ہے کہ پہلی مچھلی کے پیٹ کی تاریکی کو الظلمات سے تعبیر کیا گیا ہو جیسا کہ فرمایا : فی غیبت الجب (یوسف : 10) چونکہ ہر جہت میں تاریکی تھی تو اس کا جمع ذکر کرنا ناجائز ہے۔ ماوردی نے ذکر کیا ہے : یہ بھی احتمال ہے کہ خطا کی ظلمت، شدت کی ظلمت اور تنہائی کی ظلمت کو الظلمت سے تعبیر کیا گیا ہو۔ روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مچھلی کی طرف وحی فرمائی یونس کے ایک بال کو بھی اذیت نہ دینا۔ میں نے تیرے پیٹ کو اس کی قید بنایا ہے میں نے اسے تیری خوراک نہیں بنایا ہے۔ روایت ہے کہ حضرت یونس (علیہ السلام) نے مچھلی کے پیٹ میں سجدہ کیا جب سمندر کی گہرائی میں مچھلیوں کی تسبیح سنی۔ ابن ابی الدنیا نے ذکر کیا ہے انہوں نے کہا ہمیں عباس بن یزید عبدی نے بتایا انہوں نے کہا ہمیں اسحاق بن ادریس نے بتایا کہ انہوں نے کہا ہمیں جعفر بن سلیمان نے بتایا انہوں نے عوف سے انہوں نے سعید بن ابی حسن سے روایت کیا ہے فرمایا : جب مچھلی نے حضرت یونس (علیہ السلام) کو نگل لیا تو انہوں نے گمان کیا کہ وہ فوت ہوگئے ہیں پس انہوں نے اپنی ٹانگوں کو لمبا کیا جبکہ وہ فوت نہیں ہوئے تھے۔ آپ اپنی عادت کے مطابق نماز کے لیے کھڑے ہوئے آپ نے اپنی دعا میں کہا : میں نے تیرے لیے ایسی جگہ کو مسجد بنایا جس کو کسی نے مسجد نہیں بنایا۔ ابوالمعالی نے کہا : نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے لا تفضلونی علی یونس بن متی (1) اس کا معنی ہے میں جب سدرۃ المنتہیٰ میں تھا میں اللہ تعالیٰ کے قریب ان سے زیادہ تھا جبکہ وہ مچھلی کے پیٹ میں سمندر کی گہرائی میں تھے۔ یہ دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی جہت میں نہیں۔ یہ مفہوم سورة بقرہ اور سورة الاعراف میں گزر چکا ہے۔ ان لا الہ الا انت سبحنک انی کنت من الظلمین۔ آپ نے قوم کے ساتھ رہنے کو ترک کیا تھا اور ان پر صبر نہیں کیا تھا وہ ظلم مراد ہے۔ بعض نے فرمایا : بغیر اجازت کے نکلنا مراد ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عقوبت نہیں تھی کیونکہ انبیاء کرام کو عقاب نہیں کیا جاتا یہ تمحیص (پاک و صاف کرنا) تھا کبھی کبھی اسے ادب سکھایا جاتا ہے جو عقاب کا مستحق نہیں ہوتا جیسے بچے ہوتے ہیں ؛ یہ ماوردی نے ذکر کیا ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : اس کا مطلب ہے میں نے اپنی قوم پر عذاب کی عدا کر کے قصور کیا حالانکہ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کے لیے بد دعا کی تو ان کا مواخذہ نہ ہوا۔ واسطی نے کہا : اس کا معنی ہے اپنے رب کی ظلم سے پاکیزگی بیان کی اور استحقاق و اعتراف کی بناء پر ظلم کی نسبت اپنی طرف کی، اسی کی مثل حضرت آدم علیہ اور حضرت حواء (علیہما السلام) کا قول ہے۔ ربنا ظلمنا انفسنا (الاعراف : 23) جب انہوں نے اپنے آپ کو اپنے منصب پر نہ رکھا تو وہ زمین میں اتارے گئے۔ مسئلہ نمبر 2 ۔ ابو دائود نے حضرت سعد بن ابی وقاص سے اور انہوں نے نبی کریم ﷺ سے روایت کیا ہے فرمایا : ” حضرت یونس (علیہ السلام) کی مچھلی کے پیٹ میں یہ دعا تھی۔ لا الہ الا انت سبحنک انی کنت من الظلمین جس مسلمان نے اس دعا کے ساتھ کسی مسئلہ میں دعا مانگی تو وہ قبول کی گئی “ (1) بعض علماء نے کہا : یہ اللہ تعالیٰ کا اسم اعظم ہے اس کو حضرت سعد نے نبی کریم ﷺ سے روایت کیا ہے۔ خبر میں ہے کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی شرط ہے اس شخص کے لیے جو اس سے دعا مانگے تو وہ اس کی دعا قبول فرمائے گا جس طرح حضرت یونس (علیہ السلام) کی دعا قبول فرمائی تھی اور اسے نجات دے گا جس طرح انہیں نجات دی تھی۔ یہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : انی کنت من الظلمین۔ آپ نے ظلم کا اعتراف کیا پس یہ اشارہ تھا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وکذلک نجی المومنین۔ یعنی جو عمل ان سے ہوا اس کی وجہ سے جس پریشانی میں ہوتے ہیں اس سے انہیں ہم خلاصی دیتے ہیں وہ یہ ارشاد ہے : فلولا انہ کان من المسبحین۔ فی بطنہ الی یوم یبعثون۔ (الصافات) اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندے حضرت یونس (علیہ السلام) کی حفاظت ہے۔ اس کے حق تعبد کی رعایت کی اور جو انہوں نے طاعت میں سے پہلے کیا تھا اس کے حق کی حفاظت فرمائی۔ استاذ ابو اسحاق نے فرمایا : حضرت یونس (علیہ السلام) تھوڑے دن مچھلی کے ساتھ رہے تو قیامت تک انہیں ذوالنون کہا جائے گا تو تیرا اس بندے کے متعلق کیا گمان ہے جس نے ستر سال عبادت کی، اس کے نزدیک یہ رائیگاں جائے گی یہ تو گمان ہی نہیں کیا جاسکتا ہے۔ من الغم یعنی مچھلی کے پیٹ سے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وکذلک نجی المومنین۔ اکثر کی قرأت دونوں کے ساتھ ہے۔ یہ انجی ینجی سے مشتق ہے۔ ابن عامر نے نجی ایک نون اور جیم مشدد اور یاء کے سکون کے ساتھ ماضی کا صیغہ پڑھا ہے اور مصدر کا اضمار کیا ہے یعنی کذلک نجی النجاء المومنین۔ جیسے تو کہتا ہے : ضرب زیداً بمعنی ضرب الضرب زیداً اور بطور استشہاد یہ شعر پڑھا ہے :۔ ولو ولدت قفیرۃ جرو کلب لست بذلک الجرو الکلابا تو شاعر نے لسب السب بذالک الجرو کا ارادہ کیا ہے یا کو ان کی لغت کے مطابضق ساکن کیا گیا ہے جو یا کو حرکت دئیے بغیر کہتے ہیں بقی ورضی۔ حسن نے : وذروامابقی من الربوا (البقرہ :278) پڑھا کیونکہ یا ما قبل مکسور کو حرکت دینے سے ثقل پیدا ہوتا ہے اور یہ اشعار پڑھے ہیں : خمر الشیب لمتی تخ میرا وحدا بی الی القبور البعیرا لیت شعری اذا القیامۃ قامت ودعی بالحساب این المصیرا یاء کو دعی میں ساکن کیا گیا کیونکہ اس کو حرکت دینے اور اس کے ماقبل کسرہ سے ثقل پیدا ہوتا ہے۔ حدا کا فاعل المشیب ہے یعنی وحد المشیب البعیر لیت شعری المصیر أین ھوغ یہ تاویل فراء ابو عبید اور ثعلب نے کی ہے۔ اسی قرأت کو درست کرنے کے لیے ابو حاتم اور زجاج نے غلطی کی ہے کہ انہوں نے کہا : یہ غلطی ہے کیونکہ نائب الفاعل کو نصب دی گئی ہے۔ کہا جاتا ہے : نجی المؤمنون جیسے کہا جاتا ہے : کرم الصالحون اور ضرب زیدا ا بمعنی ضرب الضرب زیداً کہنا جائز نہیں، کیونکہ نون کا مخرج جیم کے مخرج سے دور ہے اس لیے ادغام نہیں ہوگا۔ من جآء بالحسنۃ (الانعام :160) میں مجاء بالحسنۃ جائز نہیں۔ نحاس نے کہا : میں نے جو بات علی بن سلیمان سے سنی ہے اس سے بہتر کوئی بات نہیں سنی۔ انہوں نے کہا : اصل میں ننجی تھا ایک نون کو حذف کیا گیا کیونکہ دونوں جمع ہوئے ہیں جیسا کہ ایک تاء کو حذف کیا جاتا ہے جب دونوں جمع ہوجاتی ہیں جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وما تفرقوا (الشوریٰ :14) اصل میں لا تنفرقوا تھا محمد بن السمیقع اور ابوالعالیہ نے وکذلک نجی المومنین پڑھا ہے یعنی نجی اللہ المومنین۔ یہ عمدہ ہے۔
Top