Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Al-Qurtubi - Al-Anbiyaa : 87
وَ ذَا النُّوْنِ اِذْ ذَّهَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ اَنْ لَّنْ نَّقْدِرَ عَلَیْهِ فَنَادٰى فِی الظُّلُمٰتِ اَنْ لَّاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنْتَ سُبْحٰنَكَ١ۖۗ اِنِّیْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَۚۖ
وَ
: اور
ذَا النُّوْنِ
: ذوالنون (مچھلی والا)
اِذْ
: جب
ذَّهَبَ
: چلا وہ
مُغَاضِبًا
: غصہ میں بھر کر
فَظَنَّ
: پس گمان کیا اس نے
اَنْ لَّنْ نَّقْدِرَ
: کہ ہم ہرگز تنگی نہ کریں گے
عَلَيْهِ
: اس پر
فَنَادٰي
: تو اس نے پکارا
فِي الظُّلُمٰتِ
: اندھیروں میں
اَنْ لَّآ
: کہ نہیں
اِلٰهَ
: کوئی معبود
اِلَّآ اَنْتَ
: تیرے سوا
سُبْحٰنَكَ
: تو پاک ہے
اِنِّىْ
: بیشک میں
كُنْتُ
: میں تھا
مِنَ
: سے
الظّٰلِمِيْنَ
: ظالم (جمع)
اور ذو النون کو (یاد کرو) جب وہ (اپنی قوم سے ناراض ہو کر) غصے کی حالت میں چل دیئے اور خیال کیا کہ ہم ان پر قابو نہیں پاسکیں گے، آخر اندھیرے میں (خدا کو) پکارنے لگے کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو پاک ہے (اور) بیشک میں قصوروار ہوں
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وذالنون اس سے پہلے اذکر فعل مخذوف ہے یعنی ذوالنون کو یاد کرو۔ یہ یونس بن متی کا لقب ہے کیونکہ مچھلی نے آپ کو نگل لیا تھا۔ النون سے مراد مچھلی ہے۔ حضرت عثمان کی حدیث میں ہے کہ انہوں ایک ملیح بچہ دیکھا تو فرمایا : اس کی ٹھوڑی پر سیاہ نشان لگا دو تاکہ اسے نظر نہ لگے۔ ثعلب نے ابن اعرابی سے روایت کیا ہے کہ النوفۃ وہ گڑھا ہوتا ہے جو چھوٹے بچے کی تھوڑی میں ہوتا ہے۔ اذذھب مغاضباً حسن، شعبی اور سعید بن جبیر نے کہا : اپنے رب کے لیے ناراض ہو کر گیا۔ اس مفہوم کو طبری اور قتبی نے اختیار کیا ہے۔ مہدوی نے اس کو مستحسن سمجھا ہے۔ اور حضرت ابن مسعود ؓ سے مروی ہے نحاس نے کہا : جو لوگ لغت کو نہیں جانتے انہوں نے اس کا انکار کیا ہے حالانکہ یہ صحیح قول ہے۔ معنی یہ ہے کہ اپنے رب کی خاطر ناراض ہوا جیسے تو کہتا ہے : غضبت لک یعنی تمہاری وجہ سے ناراض ہوا۔ مومن اللہ تعالیٰ کے لیے ناراض ہوتا ہے جب اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی جاتی ہے۔ اکثر اہل لغت کا خیال ہے کہ نبی کریم ﷺ نے حضرت عائشہ کو اسی وجہ سے فرمایا تھا : اشترطی لھم الولاء (ان کے لیے ولاء کی شرط منظور کرلو) قتبی نے اس قول کی تائید میں مبالغہ کیا ہے۔ حدیث میں حضرت یونس کے وصی میں ہے ” آپ کا سینہ تنگ تھا جب آپ نے نببوت کا بوجھ اٹھایا تو اس کے نیچے آپ کا سینہ اس طرح ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا جس طرح موسم ربیع میں پیدا ہونے والا اونٹ کا بچہ بھاری بوجھ کے نیچے ٹوٹ جاتا ہے “ پس حضرت یونس (علیہ السلام) بھاگے ہوئے غلام کی طرح چل پڑے (
1
) ۔ یہ آپ کا غصہ کرنا صغیرہ تھا آپ اللہ تعالیٰ پر ناراض نہیں ہوئے تھے بلکہ اللہ کے لیے ناراض ہوئے تھے جب ان کی قوم سے عذاب اٹھایا گیا تھا۔ حضرت ابن مسعود ؓ نے فرمایا : وہ اپنے ربب سے بھاگا یعنی اپنے رب کے حکم سے بھاگا حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی قوم سے عذاب اٹھانے کے بعد ان کی طرف لوٹ آنے کا حکم دیا، کیونکہ حضرت یونس (علیہ السلام) اپنی قوم کو ایک معلوم وقت میں عذاب کے نزول کی دھمکی دے چکے تھے پس اس وقت آپ ان سے نکل گئے۔ ان کی قوم پر عذاب آپیا تو وہ گڑ گڑانے لگے۔ پس ان سے عذاب اٹھا لیا گیا اور حضرت یونس (علیہ السلام) کو ان کی توبہ کا علم نہ تھا، اسی وجہ سے وہ غضبناک ہو کر نکلے تھے۔ اس کے حق میں تھا کہ وہ نہ جاتے مگر اجازت کے ساتھ۔ حسن نے کہا : اللہ تعالیٰ انہیں اپنی قوم کی طرف جانے کا حکم دیا تو آپ نے مہلت کا سوال کیا تاکہ تیاری کریں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں جلدی کرنے کا کہا حتیٰ کہ انہوں نے جوتا لینے کو کہا تاکہ اسے پہن لیں لیکن مہلت نہ دی گئی۔ آپ کو کہا گیا : حکم اس سے جلدی کا ہے۔ آپ کے خلق میں تنگی تھی آپ اپنے رب پر ناراض ہو کر نکلے۔ یہ ایک قول ہے لیکن نحاس کا قول عمدہ ہے یعنی اپنے رب کی خاطر غضبناک ہو کر نکلے یعنی اپنی قوم پر ناراض ہوئے کیونکہ ان کی قوم نے کفر کیا تھا۔ بعض نے فرمایا : وہ اپنی قوم سے ناراض ہوئے جب ان پر ان کا امر طویل ہوگیا اور ان کی سر کشی طویل ہوگئی تو آپ اپنے نفس پر ناراض ہو کر نکلے ان کی اذیت پر صبر نہ کیا جبکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ان کے ساتھ رہنے کا حکم دیا تھا اور دعا کرنے کا حکم دیا تھا۔ ان کا ذنب یہی تھا۔ کہ وہ اللہ تعالیٰ کے اذن کے بغیر نکلے تھے۔ یہ مفہوم حضرت ابن عباس ؓ اور ضحاک سے مروی ہے حضرت یونسعلیہ السلام جوان تھے اور انہوں نے نبوت کا ببوجھ نہیں اٹھایا تھا اسی وجہ سے نبی اکرم ﷺ کو کہا گیا : ولا تکن کصاحب الحوت (القلم :
48
) (تم مچھلی والے کی طرح نہ ہو جائو) ضحاک سے مروی ہے (
1
کہ وہ اپنی قوم پر غضبناک تھے انہوں نے کفر کیا تو ان پر ناراض ہونا واجب تھا ہر ایک پر لازم ہوتا ہے کہ وہ اس پر ناراض ہو جو اللہ تعالیٰ کی نافرماین کرے۔ ایک جماعت نے کہا جن میں اخفش بھی ہے : وہ اس بادشاہ پر ناراض ہو کر نکلے تھے جو ان کی قوم پر مقرر تھا۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : شعیا نبی اور وہ بادشاہ جو اس وقت موجود تھا جس کا نام حزقیا تھا انہوں نے ارادہ کیا کہ حضرت یونس علیہ السللام کا نینویٰ کے بادشاہ کی طرف بھیجیں اس نے بنی اسرائیل سے جنگ کی تھی اور ان میں سے اکثر کو قیدی بنالیا تھا تاکہ نینویٰ کے بادشاہ نے حضرت یونس (علیہ السلام) بات کریں تاکہ وہ بنی اسرائیل کو ان کے ساتھ بھیج دے۔ اس وقت انبیاء کی طرف وحی کی جاتی تھی اور سیاسی امور بادشاہ کے پاس ہوتے تھے جس کو وہ انبیاء منتخب کرتے تھے پس وہ بادشاہ اپنے نبی کی وحی کے مطابق عمل کرتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے شعیا نبی کو وحی فرمائی کہ حزقیا بادشاہ کو کہو کہ وہ بنی اسرائیل میں سے ایک قوت والا امین خبر دینے والا چنے اور اسے اہل نینویٰ کی طرف بھیجیں اور وہ انہیں حکم دے کہ بنی اسرائیل کو آزاد کردیں۔ میں ان کے بادشاہوں اور جابروں کے دل میں ان کو علیحدہ کرنے کا حکم ڈال دوں گا۔ حضرت یونس (علیہ السلام) نے شعیا کو کہا : کیا اللہ تعالیٰ نے مجھے نکالنے کا حکم دیا ہے ؟ شعیا نے کہا : نہیں۔ پوچھا : کیا اس نے تجھ سے تیرا نام لیا ہے ؟ شعیا نے کہا : نہیں۔ فرمایا : وہ انبیاء امین اور قوت والے تھے۔ پس انہوں نے حضرت یونس (علیہ السلام) پر نکلنے کے لیے اصرار کیا تو حضرت یونس علیہ السللام اس نبی اور بادشاہ پر اور اپنی قوم پر ناراض ہو کر نکلے۔ آپ بحر روم پر آئے پھر آپ کو مچھلی کے منہ میں چلے جانے کا واقعہ پیش آیا۔ آپ کو مچھلی کے پیٹ میں رہنے کی آزمائش میں ڈالا گیا۔ کیونکہ آپ نے شعیا نبی کے حکم کو ترک کیا تھا اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : فالتقمہ الحوت وھو ملیم۔ (الصافات) ملیم اسے کہتے ہیں جو ایسا فعل کرے جس پر ملامت کی جاتی ہو۔ آپ نے جو فعل کیا وہ یا صغیرہ تھا یا ترک اولیٰ تھا۔ بعض علماء نے فرمایا : آپ جب نکلے تھے تو آپ اس وقت نبی نہ تھے لیکن آپ کو بنی اسرائیل کے بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ نے نینویٰ کی طرف جانے کو کہا تاکہ آپ انہیں شعیا کی طرف بلائیں تو آپ نے اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی امر سے جانے کو ناپسند کیا پس آپ بادشاہ پر ناراض ہو کر نکلے۔ جب آپ نے مچھلی کے پیٹ میں نجات پائی تو آپ کو اللہ تعالیٰ نے اپنی قوم کی طرف بھیجا آپ نے انہیں بلایا اور وہ آپ پر ایمان لے آئے۔ قشیری نے کہا : اظہر یہ ہے کہ یہ غضبناک ہونا اللہ تعالیٰ کے ارسال کے بعد تھا اور قوم پر عذاب کے اٹھائے جانے کے بعد آپ نے ان سے عذاب کے اٹھائے جانے کو پسند نہ کیا۔ میں کہتا ہوں : یہ سب سے بہتر ہے جو اس کے متعلق کہا گیا ہے جیسا کہ انشاء اللہ تعالیٰ سورة الصافات میں اس کا بیان آئے گا۔ بعض علماء نے فرمایا : آپ کی قوم کے اخلاق میں سے تھا کہ جس کے متعلق انہیں جھوٹ بولنے کا پتہ چل جاتا اسے قتل کردیتے تھے۔ پس آپ کو قتل ہوجانے کا اندیشہ ہوا تو آپ ناراض ہوئے۔ آپ نکل پڑے حتیٰ کہ آپ ایک کشتی میں سوار ہوئے وہ کشتی ٹھہر گئی اور چلتی نہیں تھی کشتی والوں نے کہا : کیا تم میں سے کوئی بھاگنے والا ہے ؟ حضرت یونس (علیہ السلام) نے کہا : وہ میں ہوں، پھر واقعہ ہوا جو ہوا۔ آپ کو گناہ صغیرہ سے پاک کرنے کے لیے مچھلی کے پیٹ میں مبتلا کیا گیا جیسا کہ اہل احد کے بارے میں فرمایا : حتی اذا فلتم… ولیمحص اللہ الذین آمنوا۔ انبیاء کے گناہ بخشے ہوئے ہوتے ہیں لیکن ان پر تمحیص جاری ہوتی ہے اور اس کے ضمن میں دوبارہ ایسا کرنے سے زجر ہوتی ہے۔ چوتھا قول یہ ہے کہ آپ اپنے رب پر اور اپنی قوم پر ناراض نہیں ہوئے تھے۔ یہ عربوں کے قول غضب سے مشتق ہے جب کوئی ناپسندیدگی کا اظہار کرے۔ فاعل کبھی ایک فاعل کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جب آپ نے قوم کو عذاب کا وعدہ دیا اور آپ ان سے نکل گئے تو انہوں نے توبہ کرلی اور ان سے عذاب اٹھا لیا گیا۔ جب آپ واپس آئے تو آپ کو معلوم ہوا کہ وہ تو ہلاک نہیں ہوئے آپ نے اس کو ناپسند کیا اور آپ بھاگ نکلے۔ یہ شعر اس مفہوم میں بطور دلیل پڑھا جاتا ہے۔ واغضب ان تھجی تمیم بدارم۔ یہاں اغضب بمعنی آنف ناپسند کرنا ہے۔ اس قول میں نظر ہے کیونکہ اس قول والے کو کہا جاتا ہے کہ یہ مغاضبت اگرچہ انفت کی وجہ سے تھی۔ الانفۃ (نفرت، ناپسندیدگی) کو غضب بھی لاحق ہوتا ہے وہ غضب تو ہے اگرچہ جس پر ہو قلیل بھی ہو آپ تو کہتے ہیں کہ وہ اپنے رب پر اور اپنی قوم پر ناراض نہیں ہوئے تھے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فظن ان لن نقدر علیہ فنادیٰ فی الظلمت بعض علماء نے فرمایا : اس کا معنی ہے ابلیس نے آپ کو پھسلایا اور آپ کے گمان میں اس کا امکان واقع ہوا کہ اللہ تعالیٰ انہیں سزا دینے پر قادر نہ ہوگا۔ یہ قول مردود اور قابل توجہ نہیں ہے کیونکہ یہ کفر ہے۔ سعید بن جیر سے مروی ہے مہدوی نے ان سے حکایت کیا ہے اور ثعلبی نے حسن سے روایت کیا ہے۔ ثعلبی نے کہا : عطا اور سعید بن جبیر اور کثیر علماء نے کہا : اس کا معنی ہے کہ اس نے گمان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس پر تنگی نہیں کرے گا۔ یہ اللہ تعالیٰ کے اس قول سے ہے : اللہ یبسط الرزق لمنن یشآء ویقدر (الرعد :
26
) یعنی اللہ تعالیٰ جس کے لیے چاہتا ہے رزق کو کشادہ فرماتا ہے اور جس کے لیے چاہتا ہے تنگ فرماتا ہے۔ میں کہتا ہوں : یہ قول سعید اور حسن کے قول کے مشابہ ہے۔ قدر، قدر، قتر اور قتر ہم معنی ہیں یعنی تنگ کیا گیا ہے، یہ حضرت ابن عباس ؓ کا قول ہے جس کو ماوردی اور مہدوی نے ذکر کیا ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : یہ القدر سے مشتق ہے۔ جس کا معنی قضا اور فیصلہ ہے، یعنی آپ نے گمان کیا کہ ہم آپ پر عقوبت کا فیصلہ نہیں کریں گے ؛ یہ قتادہ، مجاہد اور فراء کا قول ہے۔ یہ القدر سے ماخوذ ہے جس کا معنی فیصلہ ہے نہ کہ قدرت و استطاعت سے ماخوذ ہے۔ ابوالعباس احمد بن یحییٰ ثعلب سے مروی ہے انہوں نے فظن ان لن نقدر عیہن کے متعلق فرمایا : یہ تقدیر سے ہے نہ کہ القدرۃ سے کہا جاتا ہے : قدر اللہ لک الخیر یقدرہ قدراً اس کا معنی ہے اللہ تعالیٰ نے تیرے لیے خیر کو مقدر کیا۔ ثعلب نے بطور استشہاد یہ اشعار پڑھے : فلیست عشیات اللوی برواجع لنا ابداً ما أورق السلم النضر ولا عائد ذالک الزمان الذی مضی تبارک ما تقدر یقع ولک الشکر ما تقدر بمعنی ما تقدرہ وتقضی ہے ان دو تاویلوں پر علماء کا نظریہ ہے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز اور زہری نے فظن ان لن نقدر علیہ نون کے ضمہ اور دال کی شد کے ساتھ تقدیر سے پڑھا ہے۔ یہ قرأت ماوردی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کی ہے۔ عبید بن عمیر، قتادہ اور اعرج نے ان لن نقدر علیہ یاء کے ضمہ اور دال کی شد کے ساتھ فعل مجہول پڑھا ہے۔ یعقوب عبداللہ بن ابی اسحاق، حسن، حضرت ابن عباس ؓ نے بھی یقدر علیہ یاء کے ضمہ اور دال کے فتحہ کے ساتھ تخفیفاً مجہول کا صیغہ پڑھا ہے۔ حسن سے بھی فظن ان لن نقدر علیہ، مروی ہے باقی قراء نے نقدر نون کے فتحہ اور دال کے کسرہ کے ساتھ پڑھا ہے اور تمام کے نزدیک بمعنی تقدیر ہے۔ میں کہتا ہوں : یہ دونوں تاویلیں ایسی ہیں جن کو علماء نے اس شخص کے قول میں بھی استعمال کیا ہے جس نے کبھی کوئی خیر کا عمل نہیں کیا تھا۔ اس نے اپنے گھر والوں سے کہا تھا : جب وہ مر جائے تو اسے جلا دینا فو اللہ لئن قدر اللہ علی (اللہ کی قسم اگر اللہ تعالیٰ نے مجھ پر سزا کا فیصلہ کیا) پہلی تاویل کے مطابق اس کا مفہوم یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے اگر مجھ پر تنیہ فرمائی اور میرے محاسبہ میں مبالغہ کیا اور مجھے میرے گناہوں پر جزا دی تو ایسا ہوگا پھر اس نے افراط خوف کی وجہ سے گھر والوں کو جلانے کا حکم دیا۔ دوسری تاویل پر معنی یہ ہوگا اگر اللہ تعالیٰ تقدیر اور فیصلہ میں ہر مجرم کو اس کے جرم کی سزا دینے کا معاملہ طے کرچکا ہے تو اللہ تعالیٰ مجھے اپنے گناہوں اور جرموں کی ایسی سزا دے گا جو میرے سوا تمام جہانوں میں سے کسی کو بھی نہیں دے گا۔ اس حدیث کو ائمۃ حدیث نے موطا وغیرہ میں نقل کیا ہے۔ وہ شخص مومن، موحد تھا۔ بعض احادیث میں ہے ” اس نے سوائے توحید کے کوئی خیر کا عمل نہیں کیا تھا اور جب اللہ تعالیٰ نے اس سے پوچھا : تو نے ایسا کیوں کیا ؟ تو اس نے کہا : من خشیتک یا رب ! اے میرے رب ! تیری خشیت کی وجہ سے ایسا کیا تھا اور خشیت مومن مصدق میں ہوتی ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : انمایخشی اللہ من عبادہ العلموا (فاطر :
28
) بعض علماء نے فرمایا : فظن ان لن نقدر علیہ کا معنی استفہام ہے اس کی تقدیر أفظن ہے۔ الف استفہام اختصاراً حذف کیا گیا ہے۔ یہ سلیمان ابوالمعتمر کا قول ہے۔ قاضی منذربن سعید نے حکایت کیا ہے۔ کہ بعض نے افظن الف کے ساتھ پڑھا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فنادی فی الظلمت ان لا الہ الا انت سبحنک انی کنت من الظلمین۔ اس میں دو مسئلے ہیں : مسئلہ نمبر
1
۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :۔ فنادی فی الظلمت علماء کا الظلمت کے بارے میں اختلاف ہے کہ اس سے کیا مراد ہے ؟ ایک جماعت نے کہا : جن میں حضرت ابن عباس ؓ اور قتادہ بھی ہیں کہ اس سے مراد رات کی تاریکی، سمندر کی تاریکی اور مچھلی کی تاریکی ہے۔ ابن ابی الدنیا نے کہا ہمیں یوسف بن موسیٰ نے بتایا انہوں نے کہا ہمیں عبداللہ بن موسیٰ نے بتایا انہوں نے اسرائیل سے انہوں نے ابو اسحاق سے انہوں نے عمروبن میمون سے روایت کیا ہے انہوں نے فرمایا ہمیں حضرت عبداللہ بن مسعود نے بیت المال میں بتایا کہ جب حضرت یونس (علیہ السلام) کو مچھلی نے نگل لیا اور وہ انہیں زمین کی تہہ کی طرف لے گئی تو حضرت یونس (علیہ السلام) نے کنکریوں کی تسبیح سنی۔ تو آپ نے ان تاریکیوں میں پکارا۔ وہ تین تاریکیاں تھیں مچھلی کے پیٹ کی تاریکی، رات کی تاریکی اور سمندر کی تاریکی : ان لا الہ الا انت سبحنک انی کنت من الظلمین۔ فنبذنہ بالعرآء وھو سقیم۔ (الصافات :
145
) جیسے اس چوزے کی ہئیت ہوتی ہے جس پر بال نہ ہوں۔ ایک جماعت نے کہا جن میں سالم بن ابی الجعد بھی ہیں کہ تاریکیوں سے مراد سمندر کی تاریکی۔ اس مچھلی کی تاریکی جس نے مچھلی کو نگلا تھا اور یہ بھی صحیح ہے کہ پہلی مچھلی کے پیٹ کی تاریکی کو الظلمات سے تعبیر کیا گیا ہو جیسا کہ فرمایا : فی غیبت الجب (یوسف :
10
) چونکہ ہر جہت میں تاریکی تھی تو اس کا جمع ذکر کرنا ناجائز ہے۔ ماوردی نے ذکر کیا ہے : یہ بھی احتمال ہے کہ خطا کی ظلمت، شدت کی ظلمت اور تنہائی کی ظلمت کو الظلمت سے تعبیر کیا گیا ہو۔ روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مچھلی کی طرف وحی فرمائی یونس کے ایک بال کو بھی اذیت نہ دینا۔ میں نے تیرے پیٹ کو اس کی قید بنایا ہے میں نے اسے تیری خوراک نہیں بنایا ہے۔ روایت ہے کہ حضرت یونس (علیہ السلام) نے مچھلی کے پیٹ میں سجدہ کیا جب سمندر کی گہرائی میں مچھلیوں کی تسبیح سنی۔ ابن ابی الدنیا نے ذکر کیا ہے انہوں نے کہا ہمیں عباس بن یزید عبدی نے بتایا انہوں نے کہا ہمیں اسحاق بن ادریس نے بتایا کہ انہوں نے کہا ہمیں جعفر بن سلیمان نے بتایا انہوں نے عوف سے انہوں نے سعید بن ابی حسن سے روایت کیا ہے فرمایا : جب مچھلی نے حضرت یونس (علیہ السلام) کو نگل لیا تو انہوں نے گمان کیا کہ وہ فوت ہوگئے ہیں پس انہوں نے اپنی ٹانگوں کو لمبا کیا جبکہ وہ فوت نہیں ہوئے تھے۔ آپ اپنی عادت کے مطابق نماز کے لیے کھڑے ہوئے آپ نے اپنی دعا میں کہا : میں نے تیرے لیے ایسی جگہ کو مسجد بنایا جس کو کسی نے مسجد نہیں بنایا۔ ابوالمعالی نے کہا : نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے لا تفضلونی علی یونس بن متی (
1
) اس کا معنی ہے میں جب سدرۃ المنتہیٰ میں تھا میں اللہ تعالیٰ کے قریب ان سے زیادہ تھا جبکہ وہ مچھلی کے پیٹ میں سمندر کی گہرائی میں تھے۔ یہ دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی جہت میں نہیں۔ یہ مفہوم سورة بقرہ اور سورة الاعراف میں گزر چکا ہے۔ ان لا الہ الا انت سبحنک انی کنت من الظلمین۔ آپ نے قوم کے ساتھ رہنے کو ترک کیا تھا اور ان پر صبر نہیں کیا تھا وہ ظلم مراد ہے۔ بعض نے فرمایا : بغیر اجازت کے نکلنا مراد ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عقوبت نہیں تھی کیونکہ انبیاء کرام کو عقاب نہیں کیا جاتا یہ تمحیص (پاک و صاف کرنا) تھا کبھی کبھی اسے ادب سکھایا جاتا ہے جو عقاب کا مستحق نہیں ہوتا جیسے بچے ہوتے ہیں ؛ یہ ماوردی نے ذکر کیا ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : اس کا مطلب ہے میں نے اپنی قوم پر عذاب کی عدا کر کے قصور کیا حالانکہ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کے لیے بد دعا کی تو ان کا مواخذہ نہ ہوا۔ واسطی نے کہا : اس کا معنی ہے اپنے رب کی ظلم سے پاکیزگی بیان کی اور استحقاق و اعتراف کی بناء پر ظلم کی نسبت اپنی طرف کی، اسی کی مثل حضرت آدم علیہ اور حضرت حواء (علیہما السلام) کا قول ہے۔ ربنا ظلمنا انفسنا (الاعراف :
23
) جب انہوں نے اپنے آپ کو اپنے منصب پر نہ رکھا تو وہ زمین میں اتارے گئے۔ مسئلہ نمبر
2
۔ ابو دائود نے حضرت سعد بن ابی وقاص سے اور انہوں نے نبی کریم ﷺ سے روایت کیا ہے فرمایا : ” حضرت یونس (علیہ السلام) کی مچھلی کے پیٹ میں یہ دعا تھی۔ لا الہ الا انت سبحنک انی کنت من الظلمین جس مسلمان نے اس دعا کے ساتھ کسی مسئلہ میں دعا مانگی تو وہ قبول کی گئی “ (
1
) بعض علماء نے کہا : یہ اللہ تعالیٰ کا اسم اعظم ہے اس کو حضرت سعد نے نبی کریم ﷺ سے روایت کیا ہے۔ خبر میں ہے کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی شرط ہے اس شخص کے لیے جو اس سے دعا مانگے تو وہ اس کی دعا قبول فرمائے گا جس طرح حضرت یونس (علیہ السلام) کی دعا قبول فرمائی تھی اور اسے نجات دے گا جس طرح انہیں نجات دی تھی۔ یہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : انی کنت من الظلمین۔ آپ نے ظلم کا اعتراف کیا پس یہ اشارہ تھا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وکذلک نجی المومنین۔ یعنی جو عمل ان سے ہوا اس کی وجہ سے جس پریشانی میں ہوتے ہیں اس سے انہیں ہم خلاصی دیتے ہیں وہ یہ ارشاد ہے : فلولا انہ کان من المسبحین۔ فی بطنہ الی یوم یبعثون۔ (الصافات) اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندے حضرت یونس (علیہ السلام) کی حفاظت ہے۔ اس کے حق تعبد کی رعایت کی اور جو انہوں نے طاعت میں سے پہلے کیا تھا اس کے حق کی حفاظت فرمائی۔ استاذ ابو اسحاق نے فرمایا : حضرت یونس (علیہ السلام) تھوڑے دن مچھلی کے ساتھ رہے تو قیامت تک انہیں ذوالنون کہا جائے گا تو تیرا اس بندے کے متعلق کیا گمان ہے جس نے ستر سال عبادت کی، اس کے نزدیک یہ رائیگاں جائے گی یہ تو گمان ہی نہیں کیا جاسکتا ہے۔ من الغم یعنی مچھلی کے پیٹ سے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وکذلک نجی المومنین۔ اکثر کی قرأت دونوں کے ساتھ ہے۔ یہ انجی ینجی سے مشتق ہے۔ ابن عامر نے نجی ایک نون اور جیم مشدد اور یاء کے سکون کے ساتھ ماضی کا صیغہ پڑھا ہے اور مصدر کا اضمار کیا ہے یعنی کذلک نجی النجاء المومنین۔ جیسے تو کہتا ہے : ضرب زیداً بمعنی ضرب الضرب زیداً اور بطور استشہاد یہ شعر پڑھا ہے :۔ ولو ولدت قفیرۃ جرو کلب لست بذلک الجرو الکلابا تو شاعر نے لسب السب بذالک الجرو کا ارادہ کیا ہے یا کو ان کی لغت کے مطابضق ساکن کیا گیا ہے جو یا کو حرکت دئیے بغیر کہتے ہیں بقی ورضی۔ حسن نے : وذروامابقی من الربوا (البقرہ :
278
) پڑھا کیونکہ یا ما قبل مکسور کو حرکت دینے سے ثقل پیدا ہوتا ہے اور یہ اشعار پڑھے ہیں : خمر الشیب لمتی تخ میرا وحدا بی الی القبور البعیرا لیت شعری اذا القیامۃ قامت ودعی بالحساب این المصیرا یاء کو دعی میں ساکن کیا گیا کیونکہ اس کو حرکت دینے اور اس کے ماقبل کسرہ سے ثقل پیدا ہوتا ہے۔ حدا کا فاعل المشیب ہے یعنی وحد المشیب البعیر لیت شعری المصیر أین ھوغ یہ تاویل فراء ابو عبید اور ثعلب نے کی ہے۔ اسی قرأت کو درست کرنے کے لیے ابو حاتم اور زجاج نے غلطی کی ہے کہ انہوں نے کہا : یہ غلطی ہے کیونکہ نائب الفاعل کو نصب دی گئی ہے۔ کہا جاتا ہے : نجی المؤمنون جیسے کہا جاتا ہے : کرم الصالحون اور ضرب زیدا ا بمعنی ضرب الضرب زیداً کہنا جائز نہیں، کیونکہ نون کا مخرج جیم کے مخرج سے دور ہے اس لیے ادغام نہیں ہوگا۔ من جآء بالحسنۃ (الانعام :
160
) میں مجاء بالحسنۃ جائز نہیں۔ نحاس نے کہا : میں نے جو بات علی بن سلیمان سے سنی ہے اس سے بہتر کوئی بات نہیں سنی۔ انہوں نے کہا : اصل میں ننجی تھا ایک نون کو حذف کیا گیا کیونکہ دونوں جمع ہوئے ہیں جیسا کہ ایک تاء کو حذف کیا جاتا ہے جب دونوں جمع ہوجاتی ہیں جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وما تفرقوا (الشوریٰ :
14
) اصل میں لا تنفرقوا تھا محمد بن السمیقع اور ابوالعالیہ نے وکذلک نجی المومنین پڑھا ہے یعنی نجی اللہ المومنین۔ یہ عمدہ ہے۔
Top