Urwatul-Wusqaa - Al-An'aam : 161
قُلْ اِنَّنِیْ هَدٰىنِیْ رَبِّیْۤ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ١ۚ۬ دِیْنًا قِیَمًا مِّلَّةَ اِبْرٰهِیْمَ حَنِیْفًا١ۚ وَ مَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِیْنَ
قُلْ : کہہ دیجئے اِنَّنِيْ : بیشک مجھے هَدٰىنِيْ : راہ دکھائی رَبِّيْٓ : میرا رب اِلٰي : طرف صِرَاطٍ : راستہ مُّسْتَقِيْمٍ : سیدھا دِيْنًا : دین قِيَمًا : درست مِّلَّةَ : ملت اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم حَنِيْفًا : ایک کا ہو کر رہنے والا وَ : اور مَا كَانَ : نہ تھے مِنَ : سے الْمُشْرِكِيْنَ : مشرک (جمع)
تم کہہ دو مجھے تو میرے پروردگار نے سیدھا راستہ دکھایا ہے وہی درست اور صحیح دین ہے ابراہیم (علیہ السلام) کا طریقہ کہ ایک ہی اللہ کے لیے ہوجانا اور ابراہیم (علیہ السلام) ہرگز مشرکوں میں سے نہ تھا
ابراہیم (علیہ السلام) کا دین حنیف بھی شرک سے بیزاری ہی تھا اور یہی اسلام ہے : 255: اسلام کو قرآن کریم میں بار بار ملت ابراہیمی (علیہ السلام) کہا گیا ہے اگرچہ اسلام کو ملت نوح (علیہ السلام) ، ملت موسیٰ (علیہ السلام) اور ملت عیسیٰ (علیہ السلام) بھی کہا جاسکتا ہے پھر کیا یہ ہے کہ ملت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعوت ہی کی اتباع کرنے کا حکم دیا گیا ہے ؟ ملت ابراہیم (علیہ السلام) کی اتباع کی دعوت تین وجوہ سے دی گئی ہے ایک یہ کہ قرآن کریم کے اولین مخاطب اہل عرب تھے اور وہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے جس طرح مانوس تھے کسی اور سے نہ تھے۔ ان کی تاریخ ، روایات اور معتقدات میں جس شخص کا اثرو رسوخ رچا ہوا تھا وہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ہی کی شخصیت تھی۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ہی وہ شخص تھے جن کی بزرگی پر یہودی ، عیسائی ، مسلمان ، مشرکین عرب اور شرق اوسط کے صائبی سب متفق تھے انبیاء (علیہ السلام) میں کوئی دوسرا شخص ایسا نہ تھا اور نہ ہے جس پر سب کا اتفاق ہو۔ تیسری وجہ ہے یہ کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ان سب ملتوں کی پیدائش سے پہلے گزرے ہیں۔ یہودیت ، عیسائیت اور سائبیت کے متعلق تو معلوم ہی ہے کہ سب بعد کی پیداوار ہیں رہے مشرکین عرب تو وہ بھی یہ مانتے تھے کہ ان کے ہاں بت پرستی کا رواج عمرو بن لحی سے شروع ہوا جو نبی خزاعہ کا سردار تھا اور موآب کے علاقہ سے ہبل نامی بت لے آیا تھا اور اس کا زمانہ زیادہ تر پانچ چھ سو سال قبل مسیح کا ہے لہٰذا یہ ملت بھی ابراہیم (علیہ السلام) سے صدیوں بعد پیدا ہوئی اس صورت حال کے پیش نظر قرآن کریم جب کہتا ہے کہ ان ملتوں کی بجائے ملت ابراہیم (علیہ السلام) کو اختیار کرو تو وہ دراصل اس حقیقت پر متنبہ کرتا ہے کہ اگر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) برحق اور برسر ہدایت تھے اور ان حلقوں میں سے کسی کے پیرو نہ تھے تو لا محالہ پھر وہی ملت اصل ملت حق ہے نہ کہ یہ بعد کی ملتیں اور محمد رسول اللہ ﷺ کی دعوت اسی ملت کی طرف ہے جو سب کی متفق علیہ ہے پھر اس سے گنجائش انکار کیسے ؟ اس ایک بات پر غور کرلیا جائے تو کتنے جھگڑے ہیں جو خود بخود ختم ہوجاتے ہیں اور اس طرح کے سوالات کا جواز ختم ہوجاتا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) ہی کو ” ابن مریم “ اور ” کلمۃ اللہ “ اور ” روح منہ “ کے الفاظ سے کیوں خطاب کیا گیا ہے ؟ موسیٰ (علیہ السلام) کی صرف ماں ہی کا ذکر کیوں قرآن میں آیا ہے ؟ یونس (علیہ السلام) ہی کو کیوں صاحب حوت اور صاحب نون کہا گیا ہے ؟ ؟ ؟ ؟ جواب واضح ہے کہ یہ سب اسی طرح مشہور ومعروف ہوچکے تھے اور ان کا عرف ان کے حق بالکل صحیح تھا۔
Top