Urwatul-Wusqaa - Al-An'aam : 160
مَنْ جَآءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهٗ عَشْرُ اَمْثَالِهَا١ۚ وَ مَنْ جَآءَ بِالسَّیِّئَةِ فَلَا یُجْزٰۤى اِلَّا مِثْلَهَا وَ هُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ
مَنْ : جو جَآءَ بالْحَسَنَةِ : لائے کوئی نیکی فَلَهٗ : تو اس کے لیے عَشْرُ : دس اَمْثَالِهَا : اس کے برابر وَمَنْ : اور جو جَآءَ بالسَّيِّئَةِ : کوئی برائی لائے فَلَا يُجْزٰٓى : تو نہ بدلہ پائے گا اِلَّا مِثْلَهَا : مگر اس کے برابر وَهُمْ : اور وہ لَا يُظْلَمُوْنَ : نہ ظلم کیے جائیں گے
جو کوئی نیکی لائے گا تو اس کے لیے اس کے عمل سے دس گنا زیادہ ثواب ہوگا اور جو کوئی برائی لائے گا تو وہ برائی کے بدلے اتنی ہی سزا پائے گا جتنی برائی کی ہوگی اور ایسا نہ ہوگا کہ لوگوں کے ساتھ ناانصافی کی جائے
نیکی کمانے والوں کے لئے کم از کم دس گنا اجر دئیے جانے کا اعلان عام : 253: زیر نظر آیت میں آخرت کی جزا و سزا کا کریمانہ ضابطہ ارشاد فرمایا کہ جو شخص ایک نیکی کمائے گا اس کو دس گنا بڑھا کر بدلہ دیا جائے گا اور جو شخص ایک گناہ کرے گا اس کا بدلہ صرف اس گناہ کے برابر اس کو دیا جائے گا۔ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تمہارا رب عزو جل رحیم ہے جو شخص کسی نیک کام کا صرف ارادہ کرے اس کے لئے ایک نیکی لکھ دی جاتی ہے خواہ عمل کرنے کی نوبت بھی نہ آئے ، پھر جب وہ نیک کام کو کرلے تو دس نیکیاں اس کے نامہ اعمال میں لکھ دی جاتی ہیں اور جو شخص کسی گناہ کا ارادہ کرے مگر پھر اس پر عمل نہ کرے تو اس کے لئے بھی ایک نیکی لکھ دی جاتی ہے اور اگر وہ گناہ کا عمل کرے تو ایک گناہ اس کے اعمال نامہ میں لکھ دیا جاتا ہے اور اگر اللہ چاہے تو اس کو بھی معاف فرما دے پھر اس عفو وکرم کے ہوتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے ہاں وہی شخص ہلاک ہو سکتا ہے جس نے خود ہلاک ہونے کی ٹھان لی ہے۔ (صحیح بخاری ، مسلم ، نسائی اور مسند احمد ) ایک قدسی حدیث میں بروایت ابو ذر ؓ بیان ہوا کہ جو شخص ایک نیکی کرتا ہے اس کو دس نیکیوں کا ثواب ملتا ہے اور اس سے بھی زیادہ اور جو شخص ایک گناہ کرتا ہے تو اس کی سزاصرف اس کے گناہ ہی کے برابر ملتی ہے یا وہ بھی معاف کردیا جاتا ہے اور جو شخص اتنے گناہ کر کے میرے پاس آئے جن سے ساری زمین بھر جائے (یہ کثرت گناہ کے لئے محاورہ ہے ) اور مغفرت کا طالب ہو تو میں اتنی ہی مغفرت سے اس کے ساتھ معاملہ کروں گا اور جو شخص میری طرف ایک بالشت قریب ہوتا ہے میں ایک ہاتھ اس کی طرف بڑھتا ہوں اور جو شخص ایک ہاتھ میری طرف آتا ہے میں اس کی طرف بقدر ایک باع کے آتا ہوں اور جو شخص میری طرف جھپٹ کر آتا ہے میں اس کی طرف دوڑ کر آتا ہوں۔ (ایک سادہ لوح انسان کی تفہیم کا کیا پیارا انداز ہے لیکن نکتہ چینوں نے اس کو کیا بنا دیا ) ۔ معلوم ہوا کہ نیکی کی جزا میں دس تک کی زیادتی جو اس آیت میں مذکور ہے ادنیٰ حد کا بیان ہے یعنی کم از کم جو بدلہ دیا جانے والا ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے رحم وکرم سے اس سے زیادہ ہی دے گا جب کہ دوسری روایات میں ستر گنا یا سات سو گنا تک ثابت ہوتا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا لوگ چار قسم کے ہوتے ہیں اور اعمال چھ قسم کے اور پھر لوگوں کی اقسام اس طرح گنوائیں کہ : (1) بعض وہ ہیں جو دنیا اور آخرت دونوں جگہ خوش نصیب نکلتے ہیں۔ (2) بعض صرف دنیا میں صاحب نصیب ہوتے ہیں اور آخرت میں صاحب نصیب نہیں ہوتے۔ (3) بعض دنا میں بدنصیب ہوتے ہیں اور آخرت میں وہ خوش نصیب ہوتے ہیں۔ (4) بعض بد بخت ایسے ہیں جو دنیا اور آخرت دونوں جگہ بدنصیب ہوتے اور اعمال کی چھ اقسام کو اس طرح بیان فرمایا : ” دو قسمیں تو واجب کردینے والی ہیں یعنی برابر برابر بدلہ ملے گا یا دس گنا زیادہ یا سات سو گنا زیادہ جو اللہ کے فضل پر ہی ایسا ہوگا اور نتیجہ بخش چیزیں بھی دو ہیں یعنی کوئی شخص مومن مرجائے اور اس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا ہو تو نتیجہ میں جنت اس کے لئے ہے اور اس طرح جو کافر مرگیا ہو تو نتیجہ میں اس کے لئے دوزخ ہے۔ پانچویں قسم یہ ہے کہ ایک شخص نے نیکی کا ارادہ کیا لیکن کسی وجہ سے عمل نہ کرسکا تو اللہ جانتا ہے کہ اس کے دل میں یہ بات تھی اور وہ اس کو عمل میں لانے کے لئے حریص تھا اس لئے اس کے حق میں نیکی لکھ دی جاتی ہے اور چھٹی یہ کہ کسی شخص نے اللہ کی راہ میں کچھ خرچ کیا تو کبھی دس حصے زیادہ ثواب ملتا ہے اور کبھی سات سو گنا اس کے اجر میں اضافہ ہوتا ہے۔ “ برائی کا بدلہ برائی کے مطابق دیا جاتا ہے زیادہ نہیں : 254: آخرت میں تو ایسا ہی ہوگا کہ برائی کا بدلہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اگر دیا گیا تو اس کی برائی کے برابر ہی ہوگا زیادہ نہیں کیونکہ زیادہ ہونا ظلم ہے جب کہ وہ برائی میں ہو اور نیکی میں زیادہ ہو تو وہ ظلم نہیں بلکہ وہ عفو ورحم ہے اور اللہ سے عفو ورحم کا صدور یقینی ہے لیکن ظلم کا تصور ممتنع ہے کیونکہ اللہ کی ذات رحیم وکریم تو ہے اور ہونا بھی چاہئے لیکن ظلم کا صدور اس سے ممکن ہی نہیں ہاں ! عفو وکرم اس طرح ہو سکتا ہے کہ وہ چاہے تو اس کی برائی کو معاف فرما دے اور انسان کو یہی امید اپنے رب سے رکھنی چاہئے کہ وہ ضرور کرم فرمائے گا اور وہ یقیناً بخش دے گا بشرطیکہ انسان نے خود اپنی ذات پر ظلم نہ کیا ہو اور اس ظلم سے ہماری مراد شرک کا ارتکاب ہے کیونکہ مشرک سے بڑا کوئی اور ظالم نہیں ہوسکتا کہ وہ خود اپنی جان پر ظلم کرتا ہے۔
Top