Dure-Mansoor - Al-Maaida : 44
اِنَّاۤ اَنْزَلْنَا التَّوْرٰىةَ فِیْهَا هُدًى وَّ نُوْرٌ١ۚ یَحْكُمُ بِهَا النَّبِیُّوْنَ الَّذِیْنَ اَسْلَمُوْا لِلَّذِیْنَ هَادُوْا وَ الرَّبّٰنِیُّوْنَ وَ الْاَحْبَارُ بِمَا اسْتُحْفِظُوْا مِنْ كِتٰبِ اللّٰهِ وَ كَانُوْا عَلَیْهِ شُهَدَآءَ١ۚ فَلَا تَخْشَوُا النَّاسَ وَ اخْشَوْنِ وَ لَا تَشْتَرُوْا بِاٰیٰتِیْ ثَمَنًا قَلِیْلًا١ؕ وَ مَنْ لَّمْ یَحْكُمْ بِمَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الْكٰفِرُوْنَ
اِنَّا : بیشک ہم اَنْزَلْنَا : ہم نے نازل کی التَّوْرٰىةَ : تورات فِيْهَا : اس میں هُدًى : ہدایت وَّنُوْرٌ : اور نور يَحْكُمُ : حکم دیتے تھے بِهَا : اس کے ذریعہ النَّبِيُّوْنَ : نبی (جمع) الَّذِيْنَ اَسْلَمُوْا : جو فرماں بردار تھے لِلَّذِيْنَ : ان لوگوں کے لیے جو هَادُوْا : یہودی ہوئے (یہود کو) وَالرَّبّٰنِيُّوْنَ : اللہ والے (درویش) وَالْاَحْبَارُ : اور علما بِمَا : اس لیے کہ اسْتُحْفِظُوْا : وہ نگہبان کیے گئے مِنْ : سے (کی) كِتٰبِ اللّٰهِ : اللہ کی کتاب وَكَانُوْا : اور تھے عَلَيْهِ : اس پر شُهَدَآءَ : نگران (گواہ) فَلَا تَخْشَوُا : پس نہ ڈرو النَّاسَ : لوگ وَاخْشَوْنِ : اور ڈرو مجھ سے وَ : اور لَا تَشْتَرُوْا : نہ خریدو (نہ حاصل کرو) بِاٰيٰتِيْ : میری آیتوں کے بدلے ثَمَنًا : قیمت قَلِيْلًا : تھوڑی وَمَنْ : اور جو لَّمْ يَحْكُمْ : فیصلہ نہ کرے بِمَآ : اس کے مطابق جو اَنْزَلَ اللّٰهُ : اللہ نے نازل کیا فَاُولٰٓئِكَ : سو یہی لوگ هُمُ : وہ الْكٰفِرُوْنَ : کافر (جمع)
بیشک ہم نے تورات نازل کی اس میں ہدایت ہے اور روشنی ہے، اس کے ذریعہ انبیاء فیصلہ کرتے ہیں انبیاء جو اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار تھے، یہ فیصلے ان لوگوں کو دیتے تھے جو یہود تھے، اور اللہ والے اور علم والے بھی فیصلے دیتے تھے بوجہ اس کے کہ ان کو اللہ کی کتاب کو محفوظ رکھنے کا حکم دیا گیا تھا، اور وہ اس پر گواہ تھے۔ تو تم لوگوں سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو اور میری آیتوں کے ذریعہ تھوڑی سی قیمت مت خریدو اور جو شخص اس کے موافق حکم نہ کرے جو اللہ نے نازل فرمایا ہے سو یہی لوگ کافر ہیں۔
(1) امام ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے مقاتل (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت انا انزلنا التورۃ فیھا ھدی ونور یعنی ہدایت سے گمراہی سے اور روشنی ہے اندھے پن سے۔ لفظ آیت یحکم بھا النبیون وہ فیصلہ کرتے رہے ان حکموں کے ساتھ جو تورات میں ہیں موسیٰ سے عیسیٰ تک لفظ آیت للذین ھادوا جو ان کے حق میں تھے ان کے خلاف تھے۔ پھر فرمایا صوفیا علماء بھی فیصلہ کرتے رہے۔ لفظ آیت والربنیون والحبار یعنی تورات کے ساتھ لفظ آیت بما استحفظوا من کتب اللہ وہ فیصلہ رجم کا تھا اور محمد ﷺ پر ایمان لانے کا تھا۔ لفظ آیت وکانوا علیہ شھداء فلا تخشوا الناس اور وہ اس پر گواہ تھے محمد ﷺ کے معاملہ میں پھر فرمایا کہ تم محمد ﷺ اور رجم کے حکم کو ظاہر کرو لفظ آیت واخشون اور اس کے چھپانے میں مجھ سے ڈرو۔ علماء وصوفیا کا توراۃ کے مطابق فیصلے (2) امام عبد بن حمید اور ابن جریر نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت انا انزلنا التورۃ فیھا ھدی ونور یحکم بھا النبیون الذین اسلموا للذین ھادوا والربنیون والحبار کے بارے میں فرمایا کہ ربانیوں سے فقہاء یہود مراد ہیں اور احبار سے ان کے علماء مراد ہیں پھر فرمایا کہ ہم کو یہ بات بتائی گئی کہ نبی ﷺ نے فرمایا جب یہ آیت نازل ہوئی کہ ہم فیصلے کریں گے یہودیوں پر اور ان کے علاوہ دوسرے دین والوں پر۔ (3) امام عبد بن حمید، ابن جریر اور ابو الشیخ نے حسن ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت یحکم بھا النبیون الذین اسلموا کے بارے میں فرمایا کہ نبی ﷺ اور ان سے پہلے دوسرے انبیاء حق کے مطابق فیصلہ کرتے رہے جو اس توریت میں موجود تھا۔ (4) امام ابن جریر نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت والربنیون والحبار سے فقہاء اور علماء مراد ہیں۔ (5) امام ابن جریر سے روایت ہے مجاہد نے لفظ آیت والربنیون سے علماء فقہاء مراد لیے ہے اور ان کا درجہ احبار سے زیادہ تھا۔ (6) امام ابن جریر نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت والربنیون سے فقہاء الیہود مراد ہے۔ اور الاحبار سے علماء مراد ہیں۔ (7) امام ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ یہودیوں میں سے دو آدمی تھے جو دونوں بھائی تھے۔ ان کو ابن صوریا کے بیٹے کہا جاتا تھا۔ انہوں نے نبی ﷺ کی اتباع کی مگر مسلمان نہیں ہوئے اور انہوں نے آپ سے وعدہ کیا کہ اگر آپ ہم سے تورات میں سے کوئی سوال کریں گے تو ہم آپ کو بتائیں گے۔ ان میں سے ایک فقیر تھا اور دوسرا عالم تھا اور یہ معاملہ کہ جب ایک شریف نے زنا کیا اور ایک مسکین نے زنا کیا تو کیا حکم ہوگا۔ اور کس طرح انہوں نے اس کو تبدیل کیا۔ تو اللہ تعالیٰ نے (یہ آیت) اتاری لفظ آیت انا انزلنا التورۃ فیھا ھدی ونور یحکم بھا النبیون الذین اسلموا للذین ھادوا یہاں کے نبیوں سے مراد رسول اللہ ﷺ کی ذات ہے اور والربانیون والاحبار سے مراد صوریا کے دونوں بیٹے ہیں۔ (8) امام ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت والربنیون سے فقہاء علماء مراد ہیں۔ (9) امام ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت والربنیون کے بارے میں فرمایا کہ اس سے مراد مؤمن ہیں اور والاحبار سے مراد قرأ ہیں لفظ آیت کانو علیہ شھداء یعنی ربانیوں اور احبار دونوں گواہ ہیں محمد ﷺ کے لئے اس بات پر کہ جو کچھ انہوں نے فرمایا وہ حق ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے آیا ہے۔ اور وہ اللہ کے نبی یعنی محمد ﷺ کہ ان کے پاس یہودی آئے تو آپ ﷺ نے ان کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ فرمایا۔ (10) امام ابن منذر اور ابن جریر نے ابن جریج (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت فلا تخشوا الناس واخشون کے بارے میں فرمایا کہ یہ خطاب محمد ﷺ اور آپ کی امت کے لئے ہے۔ (11) حکیم ترمذی نے نوادر الاصول میں اور ابن عساکر نے نافع (رح) سے روایت کیا کہ ہم ابن عمر ؓ کے ساتھ ایک سفر میں تھے کہا گیا کہ ایک راستہ میں ایک درندہ ہے۔ جس نے لوگوں کو روک رکھا ہے۔ ابن عمر ؓ نے اپنی سواری کو ابھارا (تیز چلنے پر) جب اس کی طرف پہنچے تو اپنی سواری کو بٹھایا اور اس درندے کا کان پکڑ کر اس کو نیچے بٹھایا اور فرمایا میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ وہ ناراض ہوتا ہے۔ ابن آدم پر جس کو ابن آدم خوف زدہ کرتا ہے۔ اگر ابن آدم اللہ کے سوا کسی چیز سے نہ ڈرے تو اس پر اس کے علاوہ کوئی چیز مسلط نہ ہو۔ بعض لوگوں کی جانب سے معاملات انسانوں کے سپرد کر دئیے جاتے ہیں۔ اگر ابن آدم اللہ کے سوا کسی نے امید نہ رکھے تو اللہ تعالیٰ اپنے سوا اس کو کسی اور کی طرف سپرد نہیں کرے گا۔ (12) امام ابن جریر نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت فلا تخشوا الناس سے مراد ہے کہ تم لوگوں سے نہ ڈرو کہ تمہاری اس چیز کو چھپانے لگو مگر جو تمہاری طرف نازل کی گئی۔ پھر فرمایا لفظ آیت ولا تشتروا بایتی ثمنا قلیلا اور اسے چھپا کر تم تھوڑی سی قیمت نہ لو۔ (13) امام ابن جریر نے ابن زید (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ولا تشتروا بایتی ثمنا قلیلا کے بارے میں فرمایا یہ کتاب کو (بیچ کر) حرام نہ کھاؤ۔ (14) امام ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ومن لم یحکم بما انزل اللہ کے بارے میں فرمایا یعنی جو اللہ کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ نہ کرے تو اس نے کفر کیا اور جس نے اقرار کرنے کے باوجود اس کے ساتھ فیصلہ نہ کیا تو ظالم اور فاسق ہے۔ (15) سعید بن منصور الفریابی، ابن منذر، ابن ابی حاتم، حاکم (اور حاکم نے تصحیح بھی کی) اور بیہقی نے سنن میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاولئک ھم الکفرون اور فرمایا لفظ آیت ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاولئک ھم الظلمون پھر فرمایا لفظ آیت ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاولئک ھم الفسقون یعنی وہ کافر ہیں، فاسق ہیں، ظالم ہیں، فاسق ہیں تو یہ کفر دوسرے کفر سے، یہ ظلم عام ظلم سے، یہ فسق عام فسق سے مختلف ہے۔ (16) سعید بن منصور، ابو الشیخ اور ابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا لفظ آیت ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاولئک ھم الکفرون اللہ تعالیٰ نے کافر ظالم اور فاسق کا جو حکم نازل فرمایا وہ یہودیوں کے ساتھ خاص ہے۔ (17) امام ابن جریر نے ابو صالح ؓ سے روایت کیا کہ یہ تینوں آیات جو سورة مائدہ میں ہیں لفظ آیت ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاولئک ھم الکفرون یعنی وہ ظالم ہیں اور فاسق ہیں اہل اسلام کا ان سے کوئی تعلق نہیں اور یہ کفار کے متعلق ہیں۔ (18) امام ابن جریر نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاولئک ھم الکفرون یعنی وہ ظالم ہیں وہ فاسق ہیں یہ آیت اہل کتاب کے بارے میں نازل ہوئی۔ (19) عبد الرزاق، عبد بن حمید، ابو الشیخ نے ابراہیم نخعی (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ومن لم یحکم بما انزل اللہ یہ آیت بنی اسرائیل کے بارے میں نازل ہوئیں اور اس امت کے لئے بھی ان کو پسند کیا۔ (20) عبد بن حمید اور ابن جریر نے حسن بصری (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاولئک ھم الکفرون کے بارے میں فرمایا کہ یہ آیت یہودیوں کے بارے میں نازل ہوئی۔ اور یہ ہم پر بھی واجب ہے۔ (کہ ہم اللہ کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ کریں) (21) عبد بن حمید، ابن جریر، ابن منذر، ابو الشیخ نے شعبی (رح) سے روایت کیا کہ یہ تینوں آیات سورة مائدہ میں ہیں لفظ آیت ومن لم یحکم بما انزل اللہ پہلی آیت اس امت کے بارے میں ہے، دوسری یہودیوں کے بارے میں ہے اور تیسری نصاری کے بارے میں ہے۔ (22) امام ابن جریر نے ابن زید (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاولئک ھم الکفرون سے مراد ہے کہ جو شخص اس کتاب کے ساتھ فیصلہ کرے جو اس نے اپنے ہاتھ میں لکھی اور اللہ کی کتاب کو چھوڑدیا اور یہ گمان کیا کہ یہ کتاب بھی اللہ کی طرف سے ہے تو اس نے کفر کیا۔ (23) عبد الرزاق، ابن جریر، ابن ابی حاتم، حاکم نے (اس کو صحیح بھی کیا ہے) حذیفہ ؓ سے روایت کیا کہ ان کے پاس ان آیات کا ذکر کیا گیا لفظ آیت ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاولئک ھم الکفرون یعنی ظالموں اور فاسقوں کے بارے میں۔ ایک آدمی نے کہا کہ یہ تو بنی اسرائیل کے بارے میں ہے۔ حذیفہ ؓ نے فرمایا ہاں۔ تمہارے کتنے اچھے بھائی بنی اسرائیل ہیں تمہارے لئے ہر ایک چیز اچھی ہے اور ان کے لئے ہر چیز کڑوی ہے۔ اللہ کی قسم تم بھی اسی راستہ پر چل رہے ہو۔ (24) امام ابن منذر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ تم کتنی اچھی قوم ہو جو میٹھی چیز ہو تو وہ تمہارے لئے ہے اور جو کڑوی ہے وہ اہل کتاب کے لئے گویا آپ کی رائے تھی یہ آیات مسلمانوں کے بارے میں نازل ہوئی۔ یعنی لفظ آیت ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاولئک ھم الکفرون (25) امام عبد بن حمید اور ابو الشیخ نے ابو مجلز سے روایت کیا کہ لفظ آیت ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاولئک ھم الکفرون ہاں وہ کافر ہے جو اللہ کے حکم کے مطابق فیصلہ نہ کرے۔ پھر ان لوگوں نے کہا لفظ آیت ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاولئک ھم الظلمون (کہ وہ ظالم ہے) فرمایا ہاں پھر لوگوں نے کہا یہ وہ لوگ ہیں جو اس حکم کے ساتھ فیصلہ کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا۔ فرمایا ہاں ٹھیک ہے یہی ان کا دین ہے کہ جس کے ساتھ وہ فیصلہ کرتے ہیں اور یہودی نصرانیوں اور مشرکین کے لئے ہے۔ جو اس حکم کے ساتھ فیصلہ نہیں کرتے جو اللہ تعالیٰ نے اتارا۔ (26) امام عبد بن حمید نے حکیم بن جبیر ؓ سے روایت کیا کہ میں نے سعد بن جبیر (رح) سے ان تینوں آیات کے بارے میں پوچھا جو سورة مائدہ میں ہیں۔ یعنی لفظ آیت ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاولئک ھم الکفرون اور لفظ آیت ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاولئک ھم الظلمون اور لفظ آیت ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاولئک ھم الفسقون میں نے عرض کیا کہ قوم نے یہ خیال کیا کہ یہ آیتیں بنی اسرائیل کے بارے میں اتریں ہمارے بارے میں نہیں اتریں تو انہوں نے فرمایا ان سے پہلے اور ان کے بعد کی آیات کو پڑھو۔ میں نے اس آیت کو پڑھا تو فرمایا نہیں۔ بلکہ ہمارے بارے میں نازل ہوئی پھر میں مقسم سے ملا جو ابن عباس ؓ کے آزاد کردہ غلام تھے اور ان سے میں نے ان آیت کے بارے میں پوچھا جو سورة مائدہ میں ہیں میں نے کہا قوم نے یہ خیال کیا کہ یہ بنی اسرائیل کے بارے میں ہوئی ہیں۔ اور ہمارے بارے میں نازل نہیں ہوئیں۔ تو انہوں نے فرمایا کہ یہ بنی اسرائیل پر اور ہم پر نازل ہوئیں۔ اور جو نازل ہوا ہم میں اور ان پر تو وہ ہمارے لئے بھی ہے اور ان کے لئے بھی ہے۔ پھر میں علی بن الحسین ؓ کے پاس گیا اور ان آیات کے بارے میں پوچھا فرمایا جو مائدہ میں ہیں اور میں نے ان کو یہ بھی بیان کیا کہ میں نے ان کے بارے میں سعید بن جبیر اور مقسم سے بھی پوچھا ہے۔ تو انہوں نے پوچھا مقسم نے کیا کہا تو میں نے ان کو بتایا جو اس نے بتایا تھا۔ انہوں نے فرمایا سچ کہا لیکن یہ کفر شرک والا نہیں ہے اور یہ فسق شرک والا فسق نہیں ہے اور یہ ظلم شرک والا ظلم نہیں ہے۔ میں نے سعید بن جبیر (رح) سے واقعات کے بعد ان کو بتایا تو انہوں نے فرمایا کہ سعید بن جبیر نے اپنے بیٹے سے فرمایا تو نے یہ جواب کیسا پایا ؟ میں نے ان کی فضیلت کو پایا تجھ پر اور مقسم پر۔ (27) امام سعید بن منصور نے عمر ؓ سے روایت کیا کہ میں نے ان جیسا آدمی نہیں دیکھا جو دو آدمیوں کے درمیان فیصلہ کرے ان آیات کے بعد۔ قاضی (جج) بننا خطرناک ہے (28) امام سعید بن منصور نے ؓ سے روایت کیا کہ ابو درداء ؓ کو قاضی بنا دیا گیا تو میں ان کو صبح کو مبارک بادی دینے کے لئے آیا۔ انہوں نے فرمایا تم مجھے قاضی بننے کی مبارک بادی دیتے ہو حالانکہ مجھے اس گھڑے کے کنارے کھڑا کردیا گیا کہ اس کی گہرائی عدن اور ابین سے بھی دور ہے۔ اگر لوگ جان لیتے کہ قاضی بننے میں کیا ہے تو اس سے اعراض کرتے اور اسے ناپسند کرنے کی وجہ سے بہت سے اموال کے عوض ذمہ داری لیتے اور اگر لوگ جان لیتے کہ اذان میں کیا (ثواب) ہے تو اس میں رغبت کرتے ہوئے اور اس پر حرص کرتے ہوئے اسے اموال کے بدلے میں حاصل کرتے۔ (29) امام ابن سعد نے یزید بن موھب (رح) سے روایت کیا کہ عثمان نے عبد اللہ بن عمر ؓ کو فرمایا لوگوں کے درمیان فیصلہ کیجئے۔ انہوں نے فرمایا کہ میں دو کے درمیان فیصلہ نہیں کروں گا۔ اور نہ دو آدمیوں کی امامت کروں گا فرمایا میں ہرگز ایسا نہیں کروں گا کیونکہ مجھ کو یہ بات پہنچی ہے کہ قاضی تین قسم کے ہیں وہ آدمی جو جہالت کے ساتھ فیصلہ کریں وہ جہنم میں ہے۔ اور وہ آدمی جس نے ظلم کیا ہے اور اس کو مائل کرلیا خواہش نفس نے تو وہ بھی جہنم میں ہوگا۔ اور ایک آدمی نے اجتہاد کیا اور درست فیصلہ کیا۔ تو یہ اس کے لئے کفاف ہوگا۔ یعنی نہ اس کے لئے اجر ہے اور نہ اس پر گناہ ہے۔ پھر (عثمان ؓ) فرمایا بلاشبہ تیرا باپ تو فیصلہ کرتا تھا۔ بلاشبہ میرے باپ کو جب کسی چیز کا اشکال پیش آجاتا تھا تو نبی ﷺ سے پوچھ لیتے تھے۔ اور جب نبی ﷺ کو اشکال ہوتا تو وہ جبرئیل سے پوچھ لیتے اور میں نہیں پاتا کہ جس سے پوچھوں کیا آپ نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے نہیں سنا جس نے اللہ سے پناہ مانگی تو اس نے ایسی ذات سے پناہ مانگی جو پناہ مانگے جانے کے لائق ہے۔ عثمان ؓ نے فرمایا کیوں نہیں اور انہوں نے فرمایا کہ میں اللہ سے پناہ مانگتا ہوں کہ مجھ کو عامل بنا دیا جائے پھر انہوں نے ان کو معاف کردیا (اور ان کو قاضی نہیں بنایا) یہ بات کسی اور کو نہ بتانا۔ (30) امام حکیم ترمذی نے نوادرالاصول میں عبد العزیز بن ابی رواد سے روایت کیا کہ مجھ کو یہ بات پہنچی ہے کہ بنی اسرائیل کے زمانہ میں ایک قاضی تھا۔ وہ اپنے اجتہاد سے اس مقام پر پہنچ گیا کہ اس نے اپنے رب سے دعا کی کہ اس کے اور اپنے درمیان ایسی نشانی بنا دے کہ جب وہ حق کے ساتھ فیصلہ نہ کرے وہ اس کو پہچان لے۔ اس سے کہا گیا کہ اپنے گھر میں داخل ہوجا پھر اپنا ہاتھ کو اپنی دیوار کے ساتھ لمبا کر۔ پھر تو دیکھ کہ تیری انگلیاں دیوار میں کہاں تک پہنچتی ہیں تو ایک خط کھینچ دے۔ جب تو مجلس قضا سے کھڑا ہوجائے تو اس خط کی طرف لوٹا آ۔ اپنے ہاتھ کو اس کی طرف لمبا کر جب تو حق پر ہوگا تو بلاشبہ تیرا ہاتھ خط تک پہنچ جائے گا۔ اور اگر تو نے حق میں کوتاہی کی ہوگی تو تیرا ہاتھ وہاں تک نہیں پہنچے گا۔ اور وہ صبح کو قضا کی طرف جاتا تھا کہ جبکہ وہ مجتہد ہوتا۔ اور وہ حق کے ساتھ فیصلہ کرتا تھا۔ جب وہ فارغ ہوتا تو نہ کھاتا، نہ پیتا اور نہ ہی گھر والوں کے لئے کوئی چیز لاتا۔ یہاں تک کہ اس خط کی طرف آتا تھا۔ جب اس کو پہنچ جاتا تو اللہ کی حمد بیان کرتا اور اس چیز تک رسائی حاصل کرتا جو اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے حلال کی ہوتی تھی گھر والے ہوں یا کھانے پینے کی چیز ہو ایک دن جب وہ مجلس قضا میں تھا۔ دو آدمی اس کے پاس اپنی سواری پر آئے اس کے دل میں یہ بات واقع ہوئی کہ دونوں اس کی طرف اپنا جھگڑا لے کر آئے ہیں اور ان میں سے ایک اس کا دوست اور ساتھی تھا۔ اس کے دل میں اس کی محبت کی وجہ سے یہ بات آگئی۔ حق دوست کا ہو اور وہ اپنے دوست کے حق میں فیصلہ کرے۔ جب ان دونوں نے بات کی تو حق اس کے دوست کے خلاف ہوا۔ مگر اس نے اس کے خلاف فیصلہ کردیا۔ جب اپنی مجلس سے اٹھا اور اپنے خط کی طرف گیا جیسے ہر دن جایا کرتا تھا اور خط کی طرف اپنا ہاتھ بڑھایا تو اچانک وہ خط چھت کی طرف جا چکا تھا اس طرح وہ اس کی طرف نہ پہنچ سکا۔ تو وہ سجدہ میں یہ کہتے ہوئے گرپڑا۔ اے میرے رب، میں نے اس کا ارادہ نہیں کیا تھا اس سے کہا گیا کہ تو نے یہ خیال کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ تیرے دل کے ظلم پر مطلع نہیں ہوا۔ جب تو نے اس بات کو پسند کیا کہ حق تیرے دوست کے لئے ہو اور اسی کے لئے فیصلہ کرے تو نے اس کا ارادہ کیا اور اس کی پسند کیا لیکن اللہ تعالیٰ نے حق کو اس کے مستحق کی طرف لوٹا دیا۔ اور تو اس کو ناپسند کرتا تھا۔ (31) امام حکیم ترمذی نے لیث ؓ سے روایت کیا کہ حضرت عمر ؓ کے پاس دو آدمی جھگڑا لے کر آئے انہوں نے ان کو اس حال پر رہنے دیا۔ پھر وہ دونوں آئے تو آپ نے ان دونوں کے درمیان فیصلہ کردیا۔ اس بارے میں ان سے پوچھا گیا۔ تو انہوں نے فرمایا کہ دونوں میرے پاس آئے۔ تو میں نے ان میں سے ایک کے لئے جو جذبہ پایا جو اس کے ساتھی کے لئے میں نے نہیں پایا تو میں نے اس بات کو ناپسند کیا کہ میں ان کے درمیان فیصلہ کروں پھر یہ دونوں آئے تو میں نے کچھ وہی جذبہ پایا۔ جس کو میں نے ناپسند کیا پھر یہ دونوں آئے اور وہ چیز جا چکی تھی تو میں نے ان دونوں کے درمیان فیصلہ کردیا۔
Top