Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-Maaida : 44
اِنَّاۤ اَنْزَلْنَا التَّوْرٰىةَ فِیْهَا هُدًى وَّ نُوْرٌ١ۚ یَحْكُمُ بِهَا النَّبِیُّوْنَ الَّذِیْنَ اَسْلَمُوْا لِلَّذِیْنَ هَادُوْا وَ الرَّبّٰنِیُّوْنَ وَ الْاَحْبَارُ بِمَا اسْتُحْفِظُوْا مِنْ كِتٰبِ اللّٰهِ وَ كَانُوْا عَلَیْهِ شُهَدَآءَ١ۚ فَلَا تَخْشَوُا النَّاسَ وَ اخْشَوْنِ وَ لَا تَشْتَرُوْا بِاٰیٰتِیْ ثَمَنًا قَلِیْلًا١ؕ وَ مَنْ لَّمْ یَحْكُمْ بِمَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الْكٰفِرُوْنَ
اِنَّا
: بیشک ہم
اَنْزَلْنَا
: ہم نے نازل کی
التَّوْرٰىةَ
: تورات
فِيْهَا
: اس میں
هُدًى
: ہدایت
وَّنُوْرٌ
: اور نور
يَحْكُمُ
: حکم دیتے تھے
بِهَا
: اس کے ذریعہ
النَّبِيُّوْنَ
: نبی (جمع)
الَّذِيْنَ اَسْلَمُوْا
: جو فرماں بردار تھے
لِلَّذِيْنَ
: ان لوگوں کے لیے جو
هَادُوْا
: یہودی ہوئے (یہود کو)
وَالرَّبّٰنِيُّوْنَ
: اللہ والے (درویش)
وَالْاَحْبَارُ
: اور علما
بِمَا
: اس لیے کہ
اسْتُحْفِظُوْا
: وہ نگہبان کیے گئے
مِنْ
: سے (کی)
كِتٰبِ اللّٰهِ
: اللہ کی کتاب
وَكَانُوْا
: اور تھے
عَلَيْهِ
: اس پر
شُهَدَآءَ
: نگران (گواہ)
فَلَا تَخْشَوُا
: پس نہ ڈرو
النَّاسَ
: لوگ
وَاخْشَوْنِ
: اور ڈرو مجھ سے
وَ
: اور
لَا تَشْتَرُوْا
: نہ خریدو (نہ حاصل کرو)
بِاٰيٰتِيْ
: میری آیتوں کے بدلے
ثَمَنًا
: قیمت
قَلِيْلًا
: تھوڑی
وَمَنْ
: اور جو
لَّمْ يَحْكُمْ
: فیصلہ نہ کرے
بِمَآ
: اس کے مطابق جو
اَنْزَلَ اللّٰهُ
: اللہ نے نازل کیا
فَاُولٰٓئِكَ
: سو یہی لوگ
هُمُ
: وہ
الْكٰفِرُوْنَ
: کافر (جمع)
ہم نے تورات نازل کی جس میں ہدایت اور نور تھا ‘ فیصلہ کرتے تھے اسی تورات کے مطابق وہ نبی ‘ جو خود اسکے فرمانبردار تھے یہودی بن جانے والوں کے معاملات کا اور اسی طرح علمائے حقانی اور فقہاء بھی (اسی پر فیصلہ کا مدار رکھتے تھے) ‘ کیونکہ انہیں کتاب اللہ کی حفاظت کا ذمہ دار بنایا گیا تھا اور وہ اس پر گواہ تھے۔ کہ تم لوگوں سے مت ڈریو اور صرف مجھی سے ڈریو اور میرے احکام کو دنیا کی متاع حقیر کے عوض مت بیچو۔ جو بھی اللہ کی شریعت کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے وہی لوگ تو کافر ہیں
اِنَّآ اَنْزَلْنَا التَّوْرٰۃَ فِیْھَا ھُدًی وَّ نُوْرٌ ج یَحْکُمُ بِھَا النَّبِیُّوْنَ الَّذِیْنَ اَسْلَمُوْا لِلَّذِیْنَ ھَادُوْا وَ الرَّبَّانِیُّوْنَ وَالْاَحْبَارُ بِمَا اسْتُحْفِظُوْا مِنْ کِتٰبِ اللہِ وَکَانُوْا عَلَیْہِ شُھَدَآئَ ج فَلَا تَخْشَوُا النَّاسَ وَاخْشَوْنِ وَلَا تَشْتَرُوْا بِاٰیٰتِیْ ثَمَنًا قَلِیْلًا ط وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہ ُ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْکٰفِرُوْنَ ۔ (المائدہ : 44) ” ہم نے تورات نازل کی جس میں ہدایت اور نور تھا ‘ فیصلہ کرتے تھے اسی تورات کے مطابق وہ نبی ‘ جو خود اس کے فرمانبردار تھے یہودی بن جانے والوں کے معاملات کا اور اسی طرح علمائے حقانی اور فقہاء بھی (اسی پر فیصلہ کا مدار رکھتے تھے) ‘ کیونکہ انھیں کتاب اللہ کی حفاظت کا ذمہ دار بنایا گیا تھا اور وہ اس پر گواہ تھے کہ تم لوگوں سے مت ڈریو اور صرف مجھی سے ڈریو اور میرے احکام کو دنیا کی متاع حقیر کے عوض مت بیچیو۔ جو بھی اللہ کی شریعت کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے وہی لوگ تو کافر ہیں “۔ تورات علم و ہدایت کا سرچشمہ تھی ارشاد فرمایا : اِنَّآاَنْزَلْنَا التَّوْرٰۃَ فِیْھَا ھُدًی وَّ نُوْرٌ ج (ہم نے تورات نازل کی جس میں ہدایت اور نور تھا) بنی اسرائیل کے حالات کو دیکھتے ہوئے ‘ آدمی یہ گمان کرتا ہے کہ بنی اسرائیل جس صورت حال تک پہنچے اور اپنے بگاڑ کی جس انتہا کو انھوں نے چھوا ہے ‘ اس کا شاید سبب یہ تھا کہ ان پر جو کتاب اتاری گئی تھی ‘ اس میں ان کی زندگی کی ضرورتوں کی رہنمائی کے لیے شاید مکمل سامان نہیں تھا۔ وہ ایسی کتاب ہوگی کہ جس کو لذت اندوزی کے لیے شاید پڑھا جاتا ہوگا ‘ لیکن زندگی کے تلخ حقائق سے اسے شاید کوئی واسطہ نہیں ہوگا۔ دنیا میں ہر زبان میں لٹریچر کی بہت ساری ایسی کتابیں ہیں ‘ جو صرف دفع الوقتی یا لذت طلبی کے لیے پڑھی جاتی ہیں یا ان سے کسی تقریب میں مجلس آرائی کا کام لیا جاتا ہے ‘ لیکن زندگی کے تلخ حقائق میں ان سے کبھی راہنمائی نہیں لی جاتی ‘ کیونکہ اس کا سروسامان وہ اپنے اندر نہیں رکھتیں۔ اس لیے اس آیت کریمہ میں بتایا جا رہا ہے کہ تم چاہے کتنا ہی تعجب کرو ‘ لیکن یہ ایک واقعہ ہے کہ بنی اسرائیل پر جو کتاب تورات کے نام سے اتاری گئی ‘ اس میں انسانی راہنمائی کے لیے پورا سامان موجود تھا۔ زندگی گزارنے کے لیے دو طرح کی راہنمائی انسان کو مطلوب ہوتی ہے۔ ایک فکری راہنمائی اور دوسری قانونی راہنمائی۔ فکری راہنمائی سے ذہنی الجھنوں کا علاج ہوتا ہے اور دل کے ناآسودہ تصورات اطمینان پاتے ہیں۔ فکری الجھنوں کے ہزاروں رنگ ہیں ‘ جو دل کی بےاطمینانی پر منتج ہوتے ہیں۔ اس کے لیے ضرورت ہوتی ہے کہ فکروخیال کی ایسی روشنی قلب و دماغ کو میسر آئے ‘ جس سے ایک ایک الجھن کا علاج ہوتا رہے اور آدمی فکری گتھیوں سے نجات پا سکے۔ ہر دور میں انسانی زندگی اور اس کے خالق کے بارے میں ‘ کائنات سے اس کے تعلق کے بارے میں ‘ اس کے آغاز اور اس کے انجام کے بارے میں اور اس کے مقاصد اور اہداف کے بارے میں ‘ ہمیشہ نئے نئے خیالات ‘ نئی نئی تھیوریاں ‘ سامنے آتی رہی ہیں۔ اگر ان کا کوئی متعین حل تجویز نہ کیا جائے تو انسانی قلب و دماغ کو پراگندہ ہونے سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ جس کے نتیجے میں زندگی کی کوئی جہت اور کوئی سمت ِسفرمتعین کرنا ممکن نہیں رہتا۔ ضرورت ہوتی ہے کہ اس کے لیے کوئی ایسی روشنی میسر آئے ‘ جس سے آدمی ان تمام اندھیروں میں اصل منزل کا سراغ پا سکے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ اسی فکری راہنمائی کے لیے ہم نے تورات کو نور بنا کر بھیجا ‘ یعنی اس میں وہ روشنی موجود تھی ‘ جسکی معاونت سے فکری آسودگی حاصل کی جاسکتی تھی۔ لیکن ان دل و دماغ کے اندھوں نے ہمیشہ اس سے روگردانی کی ‘ اس سے روشنی حاصل کرنے کے بجائے ‘ ہمیشہ اندھیروں میں بھٹکتے رہے۔ انسانی زندگی کی دوسری ضرورت آئین اور قانون ہے ‘ جس سے انسانی اعمال کی حدود متعین ہوتی ہیں۔ اچھائی برائی کے معیارات متعین ہوتے ہیں۔ آدمی حیوانوں کی طرح جنگل کا باسی اور اندھیروں کا مسافر نہیں بلکہ وہ آبادیوں میں رہنے والا ‘ انسانی معاشرے کا فرد اور اپنے حقوق و فرائض کا احساس رکھنے والا ہے اور یہ دولت اسے ہمیشہ ایک متعین آئین کی شکل اور انسانی راہنمائی کی تحریک کی شکل میں میسر آتی ہے۔ کسی قوم کو اگر یہ دولت نصیب نہیں ہوتی تو اس کی نہ کوئی تہذیب ہوتی ہے ‘ نہ تمدن۔ حتیٰ کہ وہ آداب زندگی تک سے تہی دامن رہتی ہے۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو اس دولت سے محروم نہیں رکھا بلکہ اس کو جو کتاب عطا کی گئی اس کے بارے میں فرمایا کہ اس میں ہدایت تھی یعنی وہ ہر لحاظ سے ایک راہنما تھی ‘ جس میں آئینی اور قانونی ضرورتیں پوری کرنے کی صلاحیت تھی اور وہ ان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے لیے ایک مکمل رہنما تھی۔ قرآن میں لفظ ہدایت کے استعمال جہاں تک لفظ ” ہدایت “ کا تعلق ہے ‘ قرآن کریم اس کو مختلف معانی میں استعمال کرتا ہے اور تورات ان سب معانی کے اعتبار سے ‘ ایک واقعی ہدایت تھی۔ قرآن کریم نے ” ہدایت “ کا لفظ ایک تو صراط مستقیم کے لیے استعمال کیا۔ ارشاد فرمایا : اِنَّکَ لَعَلٰی ھُدًی مُّسْتَقِیْمٍ ۔ (الحج 22: 67) یہاں ہدایت صراط اور راستے کے معنی میں ہے کہ ” آپ صراط مستقیم پر ہیں “۔ کبھی اسے فعل ہدایت کے معنی میں استعمال فرمایا مثلاً لَیْسَ عَلَیْکَ ھُدَاھُمْ (البقرۃ : 272) (ان کو ہدایت دینا آپ کی ذمہ داری نہیں) یعنی زبردستی بالفعل ان کو ہدایت کے راستے پر ڈال دینا یا ہدایت یافتہ بنادینا ‘ یہ آپ کا کام نہیں ہے۔ کبھی اسے نشان راہ کے مفہوم میں قرآن کریم نے استعمال کیا۔ جیسے سڑکوں پر سنگ میل ہوتے ہیں ‘ جو راہ کے نشان کے طور پر منزل کی خبر دیتے ہیں۔ اسی طرح حیات انسانی کے سفر پر اللہ کی کتابیں بار بار آدمی کو راہنمائی مہیا کرتی ہیں ‘ تاکہ وہ منزل تک پہنچ سکے۔ موسیٰ (علیہ السلام) کے واقعہ میں قرآن کریم ہمیں بتاتا ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے رات کی تاریکی میں دور سے ایک آگ جلتی ہوئی دیکھی تو آپ نے اپنے اہل خانہ سے فرمایا کہ آپ یہاں ٹھہریں ‘ میں وہاں جا کر دیکھتا ہوں ‘ ہوسکتا ہے کہ میں وہاں سے تمہارے تاپنے کے لیے آگ لے آئوں۔ اَوْ اَجِدُ عَلَی النَّارِ ھُدًی۔ (طہٰ 20: 10) (یا ہوسکتا ہے میں اس آگ پر کوئی نشان راہ پا لوں) جس سے ہمیں اپنی منزل تک پہنچنے میں آسانی ہو۔ کبھی قرآن کریم نے ” ھُدًی “ کے لفظ کو قلبی نور و بصیرت کے معنی میں استعمال کیا یعنی آدمی بعض دفعہ کسی اقدام کا ذہنی طور پر فیصلہ کرلیتا ہے ‘ لیکن دل اس سے مطمئن نہیں ہوتا۔ طبیعت اس پر یکسو نہیں ہوتی یا آدمی اندیشہ ہائے دور دراز کا شکار ہوجاتا ہے۔ فرمایا یہ تورات اپنے اندر دلوں کا اطمینان اور بصیرت کا سامان بھی رکھتی ہے۔ اصحاب کہف کے بارے میں اسی معنی میں اس لفظ کو استعمال کیا گیا۔ فرمایا : اَنَّہُمْ فِتْیَۃٌ اٰمَنُوْا بِرَبِّھِمْ وَ زِدْنٰہُمْ ھُدًی۔ (الکہف : 13) وہ چند نوجوان لڑکے تھے ‘ جو اپنے رب پر ایمان لے آئے ‘ لیکن آنے والے خطرات سے گھائل ہو رہے تھے۔ کچھ سجھائی نہیں دیتا تھا کہ وہ اس ہولناک صورتحال سے کیسے نکل سکتے ہیں۔ حکومت ان کی گرفتاری کے لیے برابر تعاقب کر رہی تھی۔ کافر معاشرہ ‘ ان کو نگل جانا چاہتا تھا۔ ایسی صورت حال میں فرمایا جا رہا ہے کہ (ہم نے ان کی ہدایت میں اضافہ کیا یعنی انھیں دل کا اطمینان اور بصیرت عطا فرمائی) اندازہ فرمایئے ! جس کتاب کی یہ شان ہے کہ وہ نور بھی ہے اور ہدایت بھی (ان تفصیلات سمیت جو میں نے عرض کی ہیں) ‘ لیکن بنی اسرائیل کا پھر بھی اس سے فائدہ نہ اٹھانا ‘ یہ ان کی اپنی بدنصیبی اور محرومی ہے ورنہ اللہ کی طرف سے کرم فرمائی میں کوئی کمی نہ تھی۔ بات یہ نہیں تھی کہ انھیں راہنمائی میسر نہ تھی۔ بات یہ تھی کہ وہ راہنمائی قبول کرنے کو تیار نہ تھے ؎ موسم اچھا پانی وافر مٹی بھی زرخیز جس نے اپنا کھیت نہ سینچا وہ کیسا دہقان یہود کے تورات سے فائدہ نہ اٹھا پانے کے تین بنیادی اسباب اور ہم یَحْکُمُ بِھَا النَّبِیُّوْنَ الَّذِیْنَ اَسْلَمُوْا لِلَّذِیْنَ ھَادُوْا وَ الرَّبّٰنِیُّوْنَ وَالاَْحْبَارُ بِمَا اسْتُحْفِظُوْا مِنْ کِتٰبٍ اللہِ وَ کَانُوْا عَلَیْہِ شُھَدَآئَ ج (فیصلہ کرتے تھے اسی تورات کے مطابق وہ نبی ‘ جو خود اس کے فرمانبردار تھے یہودی بن جانے والوں کے معاملات کا اور اسی طرح علمائے حقانی اور فقہاء بھی (اسی پر فیصلہ کا مدار رکھتے تھے) کیونکہ انھیں کتاب اللہ کی حفاظت کا ذمہ دار بنایا گیا تھا اور وہ اس پر گواہ تھے) آیت کریمہ کے اس حصہ میں تین باتیں ارشاد فرمائی گئیں اور یہ تین وہ بنیادی اسباب ہیں جن کی وجہ سے یہود اپنے پاس تورات رکھتے ہوئے بھی اس سے کوئی فائدہ نہ اٹھا سکے۔ 1 سب سے پہلی وجہ یہ کہ انھوں نے اس بات کو سمجھنے سے انکار کردیا یا سمجھ کر ماننے سے انکار کردیا کہ تورات کی اصل حیثیت ان کی زندگی میں کیا ہے۔ انھوں نے اس کتاب کو صرف تبرک جانا ‘ اس لیے اس سے محض برکت کے حصول کی خاطر ‘ وہ ہمیشہ اس کی طرف متوجہ ہوتے تھے۔ ثواب کی نیت سے پڑھتے اور بیماریاں دور کرنے کے لیے اس سے فائدہ اٹھاتے۔ لیکن جہاں تک اس کی اصل حیثیت کا تعلق تھا ‘ اس کو کبھی قبول کرنے پر آمادہ نہ تھے۔ اس آیت کے اس پہلے لفظ میں اس کی حیثیت کا تعین کیا گیا کہ اس کی اصل حیثیت یہ ہے کہ وہ انفرادی اور اجتماعی زندگی میں اور زندگی کے تمام حقائق میں ‘ تہذیبی اور تمدنی ضرورتوں میں ‘ آئینی اور قانونی مسائل میں ‘ علمی اور عملی گتھیوں میں ‘ غرضیکہ زندگی کے تمام مراحل میں ‘ وہ ایک حاکمانہ حیثیت کی مالک ہے۔ اس کا کام یہ ہے کہ تم اس کے سامنے اپنے مسائل رکھو۔ وہ تمہارے مسائل کا فیصلہ کرے۔ یعنی تم اس کی راہنمائی میں مسائل کا فیصلہ کرو۔ وہ مسائل چاہے معاشی ہوں ‘ چاہے معاشرتی ‘ چاہے انفرادی ہوں ‘ چاہے اجتماعی ‘ چاہے وہ قومی ہوں ‘ چاہے بین الاقوامی ‘ ہر صورت میں اس کتاب کی طرف رجوع کرنا ‘ یہ اس کتاب کی بنیادی حیثیت کا تقاضہ ہے۔ لیکن یہود نے تورات کی اس حیثیت کو ماننے سے ہمیشہ انکار کیا۔ وہ اس کا احترام بجا لاتے ‘ اس کو اللہ کی کتاب جانتے ‘ اس کو چوم کر خوبصورت جزدانوں میں لپیٹ کر ایک اونچے طاقچے میں سجا دیتے تھے ‘ تاکہ اس کی بےادبی نہ ہونے پائے۔ رہا زندگی کا سفر ‘ اس کا دھارا ہمیشہ اس سے دور بہتا تھا۔ اس پر نفس کی حکمرانی تھی یا طاغوت اور شیطان کی حاکمیت تھی۔ ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں کس طرح ممکن تھا کہ ان کی زندگی میں اس (تورات) سے تأثر کی چھاپ بھی ہوتی۔ 2 دوسری بات یہ فرمائی گئی کہ جو نبی اس کتاب کے مناد اور مبلغ رہے یا جن پر اللہ کی کتابیں نازل ہوتی رہیں ‘ ان کی حیثیت یہ نہ تھی کہ وہ خود مستقل بالذات مرجعِ ہدایت ہوتے بلکہ وہ نبی ہوتے ہوئے بھی اسی کتاب تورات کی پیروی کرتے ‘ اسی کی فرمانبرداری بجا لاتے تھے۔ یہ بات بطور خاص شاید اس لیے کہی جا رہی ہے کہ انسانوں کی فطرت یہ رہی ہے کہ وہ جب کسی کو نبی بلکہ ولی مان لیتے ہیں تو پھر ان کی ذات سے ان کا ایسا تعلق قائم ہوجاتا ہے کہ وہ انہی کو مستقل بالذات مرجعِ ہدایت سمجھتے ہیں۔ صحیح غلط ‘ حلال حرام اور اچھائی برائی کی سند اور اتھارٹی ‘ ان کے یہاں صرف ان کی ذات ہوتی ہے۔ وہ ان کی عقیدت میں اللہ کی پوری شریعت کو بعض دفعہ نظر انداز کردیتے ہیں۔ ہم اپنی آنکھوں سے اپنے ملک کے مختلف حصوں میں اس کے مظاہر دیکھ سکتے ہیں کہ اللہ والوں نے تو ہمیشہ شریعت کی پابندی کی بھی اور کروائی بھی ‘ لیکن عام طور پر مریدوں نے تو اپنے پیروں کو ہی سب کچھ سمجھنے کی کوشش کی۔ دنیا دار پیر ‘ ہمیشہ اسی کمزوری سے فائدہ اٹھاتے رہے اور جن اللہ والوں نے اس روش کو روکنا چاہا ‘ عام طور پر خلق خدا کا رجوع ان کی طرف نہیں رہا ؎ اللہ کے کچھ بندے معبود ہی بن بیٹھے لوگوں میں نظر آئی جو خوئے جبیں سائی اس فطری کمزوری کا عالم تو یہ ہے کہ ہم بعض دفعہ بڑے بڑے بزرگوں کو بھی اسی پیمانے سے جانچتے ہیں۔ مشہور واقعہ ہے کہ حضرت مجدد الف ثانی ( رح) کے پیر و مرشد حضرت خواجہ باقی باللہ (رح) کے پاس ایک شخص حاضر ہوا اور تقریباً آٹھ سال تک وہاں مقیم رہا۔ شیخ نے اس سے کبھی نہیں پوچھا کہ تم کس مقصد سے آئے ہو۔ آٹھ سال کے بعد اس نے واپسی کا ارادہ کیا تو اجازت طلبی کے لیے حاضر ہوا۔ تب شیخ نے پوچھا کہ بھئی ! تم کیسے آئے تھے اور واپس کیوں جا رہے ہو ؟ اس نے کہا حضرت آپ کی بزرگی کی شہرت سن کر آیا تھا ‘ لیکن میں نے اتنے سالوں تک آپ کی کوئی کرامت نہیں دیکھی۔ اب مایوس ہو کر واپس جا رہا ہوں۔ حضرت فرمانے لگے کہ بھئی ! ہمارے پاس ایسی کرامتیں کہاں ‘ البتہ ایک بات بتائو کہ تم نے اتنے سالوں میں ہمارا کوئی کام خلاف سنت بھی دیکھا ؟ اس نے کہا کہ نہیں ! ایسا تو نہیں دیکھا۔ شیخ نے فرمایا یہی سب سے بڑی کرامت ہے۔ اس سے آپ اندازہ کیجئے کہ وہ صاحب سنت کے متلاشی نہیں تھے بلکہ وہ تو خواجہ صاحب کو عقیدت کا مرکز جان کر ‘ انہی کی ذات میں سب کچھ دیکھنا چاہتے تھے۔ اسی لیے یہاں فرمایا جا رہا ہے کہ تورات کی عظمت کا اس سے اندازہ کرو کہ وقت کے نبی بھی ‘ اسی سے فیصلہ کرتے تھے اور خود بھی ‘ اسی کے فرمانبردار تھے اور علمائے حقانی اور فقہا اور قضاۃ بھی ‘ اسی تورات سے فیصلے کیا کرتے تھے۔ یعنی بنی اسرائیل کے اکابر اور اسلاف میں ‘ جن لوگوں نے صحیح معنی میں تورات سے فائدہ اٹھایا ‘ وہ چاہے نبی ہوں اور چاہے علما اور ماہرین قانون اور عدالتوں کے ججز ‘ سب کے لیے راہنما کتاب یہی تھی۔ لیکن بنی اسرائیل نے اس سے یہی ایک کام ہے ‘ جو کبھی لینے کی زحمت نہ کی۔ 1 تیسری بات یہ ارشاد فرمائی کہ سلف صالحین تورات سے اس لیے ہمیشہ وابستہ رہے کہ انھیں ہمیشہ اس بات کا احساس رہا اور اسی احساس نے ہمیشہ ان کو بھٹکنے سے روکا بلکہ کتاب اللہ سے جذباتی تعلق ‘ ان کا قائم رکھا۔ کہ وہ جانتے تھے کہ وہ اللہ کی کتاب کے محافظ بنائے گئے ہیں اور اس پر گواہ ٹھہرائے گئے ہیں۔ اب ظاہر ہے کہ اللہ کی کتاب کی حفاظت ‘ اس کے سوا تو ممکن نہیں ہے کہ وہ جس طرح گھروں میں پڑھی جائے ‘ اسی طرح تعلیمی اداروں میں سکھائی جائے ‘ اسی طرح اس کا دیا ہوا قانون عدالتوں میں عدل و انصاف لینے کا ذریعہ بنے اور ایوان ہائے حکومت میں اسی کی آئینی حیثیت ہو اور پورے معاشرے پر اس کی ایسی گرفت ہو کہ زندگی میں راہنمائی کے لیے کسی اور طرف نگاہ اٹھا کر بھی نہ دیکھا جائے۔ اسی کا علم ‘ عزت اور ترقی کا زینہ ہو۔ اسی میں مہارت ‘ علمی وجاہت کی آئینہ دار سمجھی جائے۔ دنیا بھر کے علوم سے انتہا درجے کا شغف رہے ‘ لیکن اس کے حسن و قبح کا معیار اور کسوٹی ‘ یہی کتاب ہو۔ اسی طرح اسکی شہادت بھی بجز اسکے ممکن نہیں کہ جس طرح یہ کتاب منبر و محراب سے بولتی ہوئی سنائی دے ‘ اسی طرح ہمارے تمام اجتماعی ادارے اسی کے مطابق وجود میں آئیں اور اسی کے مطابق عمل پیرا ہوں۔ ہمارا نظام مالیات ‘ ہمارا نظام تعلیم ‘ ہمارا نظام عدالت ‘ ہمارے تہذیب و تمدن کے مظاہر ‘ حتیٰ کہ ہمارے ایوان ہائے حکومت اسی کے آئینہ دار ہوں نیز ہمارے علمی مذاکرات اور اسی حوالے سے منعقد ہونے والی ورکشاپس اور سیمینار ‘ اسکی سچائی ‘ علمی بلندی اور عملی گرفت کی منہ بولتی تصویر ہوں۔ ہر چھوٹا بڑا عالم اسی اعتماد سے سرشار ہو اور اس کے اثرات عوام تک میں نظر آئیں کہ جب بھی کبھی کسی حقیقت کا سامنا ہو تو ہر آدمی پورے اعتماد سے یہ بات کہے کہ میں شہادت دیتا ہوں کہ ہمارے ان تمام چھوٹے بڑے مسائل کا حل اور ہمارے مشکلات سے نکلنے کا راستہ ‘ اس کتاب الٰہی کے سوا اور کہیں نہیں۔ لیکن یہ اس وقت تک ممکن نہیں ہے ‘ جب تک کہ ان دو باتوں کی پابندی نہ کی جائے۔ فَلَاتَخْشَوُ النَّاسَ وَاخْشَوْنِ وَلاَ تَشْتَرُوْا بِاٰیٰتِیْ ثمَنًا قَلِیْلاً ط ( تم لوگوں سے مت ڈریو اور صرف مجھی سے ڈریو اور میرے احکام کو دنیا کی متاع حقیر کے عوض مت بیچیو) آیت کا یہ ٹکڑا خطاب کے صیغوں پر مشتمل ہے۔ اس لیے اسکے دو مفہوم ہوسکتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ جب قرآن پاک نازل ہو رہا تھا ‘ اس زمانے میں موجود یہود کو مخاطب کر کے یہ کہا جا رہا ہے کہ ” دیکھو ! تم اللہ سے ڈرو ‘ لوگوں سے مت ڈرو اور میرے احکام کو دنیا کی متاع حقیر کے بدلے میں مت بیچو “۔ یہ مفہوم اگر لیا جائے تو ظاہر ہے ‘ اس میں کوئی قباحت نہیں۔ اس لیے کہ ہر آنے والے رسول کی زندگی میں لوگوں کو آخر حد تک ‘ چاہے وہ بگاڑ کی کسی انتہا تک بھی پہنچے ہوئے ہوں ‘ راہ راست پر لانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ہم اگرچہ مسلسل یہ بات دیکھ رہے ہیں کہ یہود میں ہدایت پانے کی صلاحیت یکسر مفقود معلوم ہوتی ہے اور صدیوں سے ان کا معاملہ نافرمانی اور سرکشی کا آئینہ دار ہے ‘ لیکن اس کے باوجود قرآن کریم انھیں راہ راست پر لانے کی مسلسل کوشش کر رہا ہے۔ یا پھر دوسرا مفہوم یہ ہوسکتا ہے کہ یہ آنحضرت کے زمانے کے یہود سے خطاب نہیں ‘ بلکہ یہ خطاب انہی لوگوں سے ہے ‘ جن کا تذکرہ اس سے پہلے یہود کے اکابر اور اسلاف کے حوالے سے کیا جا رہا تھا۔ اس میں انبیاء کرام بھی ہیں اور علمائے حقانی بھی اور ان کے فقہاء بھی۔ البتہ ! یہ بات کھٹکتی ہے کہ اس سے پہلے غیب کے صیغوں سے بات کرتے کرتے اچانک خطاب کا اسلوب کیوں اختیار کرلیا گیا۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ بات کھٹکنے کی نہیں کیونکہ قرآن کریم کا عام اسلوب جابجا اس کی گواہی دیتا ہے۔ اس میں بہت ساری جگہوں میں ہم دیکھتے ہیں کہ بات غیب میں ہو رہی ہے مگر اچانک حاضر کا اسلوب اختیار کرلیا گیا ہے یا اس کے برعکس اسلوب میں تبدیلی آگئی ہے اور اس کی جابجا آپ کو مثالیں ملیں گی۔ وجہ اس کی ظاہر ہے کہ اس تبدیلی سے ایک تو کلام میں تنوع پیدا ہوتا ہے اور دوسرا مخاطب یکسانیت سے نکل کر ایک دوسری کیفیت میں پہنچ کر ایک تازگی محسوس کرتا ہے۔ چناچہ یہاں بھی یہی ہوا ہے کہ یہود کے اکابر اور اسلاف کی بات کہی جا رہی تھی کہ اچانک ان کو مخاطب کر کے یہ دو ہدایات دی گئیں۔ اس طرح ان کو دو ایسی رکاوٹوں سے اور موانع سے آگاہ کردیا گیا جو زندگی کی کٹھن صداقتیں ہیں۔ ہم تاریخ کے آئینہ میں اس کے بہت سارے شواہد دیکھ سکتے ہیں کہ اچھے اچھے لوگ اور قابل ذکر قومیں زندگی کے سفر میں اس لیے ناکام ہوگئیں کہ کبھی انھیں خوف اور خشیت سے واسطہ پڑا تو اس میں استقامت نہ دکھا سکیں اور کبھی انھیں اس دنیائے فانی اور اس کی نعمتوں کا لالچ دیا گیا یا اس کے عہدہ و منصب سے آزمایا گیا تو وہ اس آزمائش میں پوری نہ اتر سکیں۔ ہمارا سقوط بغداد کا حادثہ ‘ ان دونوں تلخ صداقتوں کا گواہ ہے۔ ہماری اپنی قریبی تاریخ جس میں ہم غلامی کی ذلت سے دوچار کیے گئے ‘ اس میں آپ برصغیر میں بسنے والے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کو ‘ انہی حوادث سے دوچار ہوتا دیکھیں گے۔ واقعہ یہی ہے کہ لوگ کبھی کوڑوں سے آزمائے گئے ہیں اور کبھی اشرفیوں کے توڑوں سے۔ یعنی کبھی مصائب میں ڈال کر اور کبھی زندگی کی آسائشوں میں مبتلا کر کے۔ بہت کم ایسا ہوا ہے کہ ان دونوں آزمائشوں میں مبتلا ہونے والے لوگ ‘ ساحل مراد تک پہنچ سکے ہوں۔ چناچہ یہود سے بھی یہی کہا گیا کہ تمہیں بار بار ان حوادث سے واسطہ پڑے گا۔ دیکھنا دنیا کی سرفرازیاں اور دنیا طلبی کا جوش تمہیں دین سے غافل نہ کر دے۔ اسی طرح مصائب کا ہجوم تمہیں اپنے اللہ اور آخرت سے مایوس نہ کر دے۔ تمہیں ہرحال میں اللہ کے احکام کی پابندی کرنی ہے۔ وقتی حوادث ضرور آئیں گے ‘ لیکن اللہ اور اس کے دین سے وفاداری ‘ یہ وہ چیز ہے جو تمہاری قومی زندگی ‘ دنیوی اور اخروی کامیابی کی ضمانت ہے۔ یہ باتیں صرف یہود سے ہی نہیں کہی جا رہی ہیں ‘ بلکہ اصلاً قرآن کریم میں ان کے نزول کا باعث ان کے تاریخ کے آئینہ کو ہمارے سامنے رکھ کر ‘ ہمیں سمجھانا مقصود ہے کہ دیکھنا قیامت تک تمہیں اس منصب پر فائز کیا جا رہا ہے ‘ جس پر کبھی یہود فائز رہ چکے ہیں۔ انہی دونوں راستوں سے انھوں نے ٹھوکریں کھائی تھیں۔ تم ان دونوں راستوں پر ثابت قدم رہنا۔ تمہیں ہر سطح پر ڈرایا ‘ دھمکایا بھی جائے گا اور تمہیں یہ باور کرانے کی کوشش بھی کی جائے گی کہ اگر تم نے اپنے دین سے تعلق نہ توڑا تو تم قصہ ماضی بن کر رہ جاؤ گے۔ اسی طرح تمہیں سبز باغ بھی دکھائے جائیں گے اور بڑی بڑی پیشکشیں بھی ہوں گی۔ تمہاری قسمت بدلنے کے دعوے ہوں گے۔ لیکن یہ بات کبھی نہ بھولنا کہ پورا کفر اسلام کے مقابلے میں ‘ ایک ملت ہے۔ وہ آپس میں چاہے ہزار اختلاف رکھتے ہوں ‘ لیکن اسلام اور مسلمانوں کے مقابلے میں سب متفق اور متحد ہیں۔ اس لیے ان کی پیشکشیں ‘ تمہاری خیر و فلاح کا باعث کبھی نہیں ہوسکتیں۔ ان کی طرف سے چھلکتے ہوئے جام دیکھ کر خوش فہمی میں مبتلا نہ ہونا بلکہ اس ساقی کو پہچاننے کی کوشش کرنا کیونکہ ہماری پوری تاریخ میں ان کی طرف سے کبھی ہمیں بھلائی کی ادنیٰ رمق بھی نصیب نہ ہوسکی۔ جہاں تک ان کے ڈرانے دھمکانے کا تعلق ہے ‘ یقیناً وقت ان کے ساتھ ہے۔ وہ اپنے ساتھ ایک بڑی قوت کا سامان بھی رکھتے ہیں ‘ لیکن اس سے بھی بڑی ایک حقیقت اور ہے ‘ وہ یہ ہے کہ اس کائنات کا ایک خالق ومالک بھی ہے۔ اگر کمزور قومیں ‘ اس کے سہارے اٹھنے کا فیصلہ کرلیں تو اس کے راستے پر چلنے والے مصائب کا شکار تو ہوسکتے ہیں ‘ وقتی حوادث سے بھی دوچار ہوسکتے ہیں ‘ لیکن آخرکار اگر اس کی اطاعت و فرمانبرداری میں استقامت کا ثبوت دے دیا جائے تو غلبہ ہمیشہ حق کا ہوتا ہے اور بڑی سے بڑی جابر و قاہر قوتیں بھی فنا کے گھاٹ اتر جاتی ہیں۔ یہی ایمان و یقین ایک مسلمان کی حقیقی پہچان ہے۔ محمد علی جوہر مرحوم نے ٹھیک کہا تھا : توحید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں کہہ دے یہ بندہ دو عالم سے خفا میرے لیے ہے جو شریعت کے مطابق فیصلے نہیں کرتے ‘ وہ کافر ہیں وَ مَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہ ُ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْکٰفِرُوْنَ ۔ (جو بھی اللہ کی شریعت کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے وہی لوگ تو کافر ہیں ) یعنی یہود پر ایک ایک بات واضح کردینے کے بعد ارشاد فرمایا جا رہا ہے کہ تمہاری زندگی کا اصل مقصد اور تمہاری اجتماعی توانائیوں کا اصل ہدف اللہ کی شریعت کا نفاذ اور پوری زندگی میں اس کے دین کی بالا دستی ہے اور مختلف حوالوں سے اس کی ایک ایک بات کو تمہارے سامنے واضح کیا جا رہا ہے۔ اگر تم پھر بھی اللہ کی کتاب کے نفاذ کا حق ادا کرنے سے پہلو تہی کر رہے ہو بلکہ خیانت تک کا ارتکاب کرنے سے باز نہیں آتے ہو تو پھر سن لو کہ جو بھی اللہ کی شریعت کے مطابق فیصلے نہیں کرتے اور اس کو حاکمانہ حیثیت دینے کے لیے تیار نہیں ہوتے ‘ اللہ کی نگاہ میں یہی لوگ تو کافر ہیں۔ ” کفر “ کا معنی ہے ” اللہ اور اس کی شریعت کو ماننے سے انکار کردینا “۔ یہ لوگ اگرچہ اس کو ماننے سے منکر نہیں تھے ‘ لیکن ان کا عملی رویہ انکار ہی کی تائید کرتا تھا کیونکہ انھوں نے اپنی عملی زندگی سے اللہ کی کتاب کو خارج کردیا تھا۔ زبان سے اقرار اور عمل سے انکار ‘ بلکہ خود کتاب خداوندی میں ترمیم ‘ تحریف اور اجتماعی اداروں میں اس کے نفوذ سے یکسر انکار۔ ظاہر ہے کہ اس سے بڑا کفر اور کیا ہوسکتا ہے۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے کسی بہت بڑی عقل کی ضرورت نہیں ہے کہ قرآن کریم جو بات یہود کے بارے میں کہہ رہا ہے اور جس رویے کے نتیجے میں کہہ رہا ہے ‘ وہی رویہ آج اگر مسلمانوں کا ہوگا اور وہ اپنی اجتماعی زندگی میں اگر اسی سرکشی اور تمرد کو اپنائیں گے تو انھیں بھی اسی سلوک کا مستحق سمجھا جائے گا۔ اللہ کے یہاں نسبتوں کا اعتبار نہیں بلکہ ایمان و عمل کا سکہ چلتا ہے۔ جو بات اہل کتاب کے لیے کفر کا باعث بنی ہے۔ یقیناً وہی بات اس امت کے لیے بھی کفر کا باعث بنے گی۔
Top