Tadabbur-e-Quran - Aal-i-Imraan : 142
اِنَّاۤ اَنْزَلْنَا التَّوْرٰىةَ فِیْهَا هُدًى وَّ نُوْرٌ١ۚ یَحْكُمُ بِهَا النَّبِیُّوْنَ الَّذِیْنَ اَسْلَمُوْا لِلَّذِیْنَ هَادُوْا وَ الرَّبّٰنِیُّوْنَ وَ الْاَحْبَارُ بِمَا اسْتُحْفِظُوْا مِنْ كِتٰبِ اللّٰهِ وَ كَانُوْا عَلَیْهِ شُهَدَآءَ١ۚ فَلَا تَخْشَوُا النَّاسَ وَ اخْشَوْنِ وَ لَا تَشْتَرُوْا بِاٰیٰتِیْ ثَمَنًا قَلِیْلًا١ؕ وَ مَنْ لَّمْ یَحْكُمْ بِمَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الْكٰفِرُوْنَ
اِنَّا : بیشک ہم اَنْزَلْنَا : ہم نے نازل کی التَّوْرٰىةَ : تورات فِيْهَا : اس میں هُدًى : ہدایت وَّنُوْرٌ : اور نور يَحْكُمُ : حکم دیتے تھے بِهَا : اس کے ذریعہ النَّبِيُّوْنَ : نبی (جمع) الَّذِيْنَ اَسْلَمُوْا : جو فرماں بردار تھے لِلَّذِيْنَ : ان لوگوں کے لیے جو هَادُوْا : یہودی ہوئے (یہود کو) وَالرَّبّٰنِيُّوْنَ : اللہ والے (درویش) وَالْاَحْبَارُ : اور علما بِمَا : اس لیے کہ اسْتُحْفِظُوْا : وہ نگہبان کیے گئے مِنْ : سے (کی) كِتٰبِ اللّٰهِ : اللہ کی کتاب وَكَانُوْا : اور تھے عَلَيْهِ : اس پر شُهَدَآءَ : نگران (گواہ) فَلَا تَخْشَوُا : پس نہ ڈرو النَّاسَ : لوگ وَاخْشَوْنِ : اور ڈرو مجھ سے وَ : اور لَا تَشْتَرُوْا : نہ خریدو (نہ حاصل کرو) بِاٰيٰتِيْ : میری آیتوں کے بدلے ثَمَنًا : قیمت قَلِيْلًا : تھوڑی وَمَنْ : اور جو لَّمْ يَحْكُمْ : فیصلہ نہ کرے بِمَآ : اس کے مطابق جو اَنْزَلَ اللّٰهُ : اللہ نے نازل کیا فَاُولٰٓئِكَ : سو یہی لوگ هُمُ : وہ الْكٰفِرُوْنَ : کافر (جمع)
بیشک ہم ہی نے تورات اتاری جس میں ہدایت اور روشنی ہے، اسی کے مطابق خدا کے فرمانبردار انبیا، ربانی علما اور فقہا یہود کے معاملات کے فیصلے کرتے تھے، بوجہ اس کے کہ وہ کتاب الٰہی کے امین اور اس کے گواہ ٹھہرائے گئے تھے کہ لوگوں سے نہ ڈریو، مجھی سے ڈریو اور میرے احکام کو دنیا کی متاع حقیر کے عوض نہ فروخت کیجیو اور جو لوگ اللہ کی اتاری ہوئی شریعت کے مطابق فیصلے نہ کریں تو یہی لوگ کافر ہیں
تفسیر آیات 44۔ 45۔ اِنَّآ اَنْزَلْنَا التَّوْرٰىةَ فِيْهَا هُدًى وَّنُوْرٌ ۚ يَحْكُمُ بِهَا النَّبِيُّوْنَ الَّذِيْنَ اَسْلَمُوْا لِلَّذِيْنَ هَادُوْا وَالرَّبّٰنِيُّوْنَ وَالْاَحْبَارُ بِمَا اسْتُحْفِظُوْا مِنْ كِتٰبِ اللّٰهِ وَكَانُوْا عَلَيْهِ شُهَدَاۗءَ ۚ فَلَا تَخْشَوُا النَّاسَ وَاخْشَوْنِ وَلَا تَشْتَرُوْا بِاٰيٰتِيْ ثَـمَنًا قَلِيْلًا ۭوَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْكٰفِرُوْنَ۔ وَكَتَبْنَا عَلَيْهِمْ فِيْهَآ اَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ ۙوَالْعَيْنَ بِالْعَيْنِ وَالْاَنْفَ بِالْاَنْفِ وَالْاُذُنَ بِالْاُذُنِ وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ ۙ وَالْجُرُوْحَ قِصَاصٌ ۭ فَمَنْ تَصَدَّقَ بِهٖ فَهُوَ كَفَّارَةٌ لَّهٗ ۭ وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ۔ تورات کا مرتبہ : اِنَّآ اَنْزَلْنَا التَّوْرٰىةَ فِيْهَا هُدًى وَّنُوْرٌ۔ یہ تورات کی قدروقیمت واضح فرمائی گئی کہ اللہ نے اس کو اتارا تھا تو بازیچہ اطفال بنانے کے لیے نہیں اتارا تھا بلکہ زندگی کے اعلی اقدار کے تحفظ کا وسیلہ، خدا اور اس کے نبیوں کے بتائے ہوئے طریقوں کی طرف رہنمائی کا ذریعہ، صراط مستقیم کی ہدایت اور خواہشات و بدعات کی تاریکیوں سے نکالنے والی روشنی بنا کر اتارا تھا۔ تورات کے بارے میں اس کے مخلص حاملین کی روش : يَحْكُمُ بِهَا النَّبِيُّوْنَ الَّذِيْنَ اَسْلَمُوْا لِلَّذِيْنَ هَادُوْا وَالرَّبّٰنِيُّوْنَ وَالْاَحْبَارُ بِمَا اسْتُحْفِظُوْا مِنْ كِتٰبِ اللّٰهِ وَكَانُوْا عَلَيْهِ شُهَدَاۗءَ۔ یہ تورات کے سچے اور مخلص حاملین کی روش بیان ہوئی ہے کہ کس طرح اللہ کے فرمانبردار نبیوں اور مخلص علماء و فقہا نے خود اس کی اطاعت کی اور اس کے قوانین و احکام کے مطابق وہ یہودیوں کے معاملات و مقدمات کے فیصلے کرتے رہے اور اپنے اندر برابر اس احساس ذمہ داری کو زندہ کرھا کہ وہ خدا کی طرف سے اس کے امین و محافظ اور اس کے گواہ بنائے گئے ہیں اس وجہ سے نہ تو اس میں ان کے لیے کوئی خیانت جائز ہے اور نہ اس کے اظہار و اعلان میں کوئی کوتاہی روا ہے۔ یہ اللہ کا عہد و میثاق ہے جو بہرحال انہیں پورا کرنا ہے۔ یہ آئینہ وقت کے یہود کے سامنے اس غرض سے رکھا گیا ہے کہ وہ اس میں دیکھیں کہ تورات سے متعلق ان پر کیا ذمہ داریاں عائد تھیں، ان کے صالح اسلاف نے ان ذمہ داریوں کو کسی طرح نبھایا اور انہوں نے کس طرح اس عہد الٰہی کو بچوں کا کھیل بنا رکھا ہے۔ کتاب الٰہی کا حقیقی مقصد : " یحکم بہا النبییون " میں مضارع سے پہلے عربیت کے عام قاعدے کے مطابق " کان " کا صیغہ محذوف ہے یعنی کان یحکم بہا النبیو (انبیاء اس کے ذریعہ سے یہود کے معاملات کا فیصلہ کرتے تھے)۔ " حکم " کے لفظ سے یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ کتاب الٰہی کا اصل مقصد یہ ہے کہ وہ زندگی کے معاملات و نزاعات میں امر و حکم اور فیصلہ و قضا کا ذریعہ بنے اور تمام اجتماعی و سیاسی اور قانونی معاملات اسی کی ہدایات کے مطابق اور اسی کی روشنی میں انجام پائیں۔ اگر اس کی یہ حیثیت باقی نہ رہے بلکہ وہ صرف تبرک بنا کے رکھ چھوری جائے، یا اس کے الفاظ کی تلاوت کرلی جائے یا اس کو صرف مردے بخشوانے کا وسیلہ سمجھ لیا جائے، زندگی کے معاملات و مسائل سے نہ صرف یہ کہ اس کا کوئی تعلق باقی نہ رہے بلکہ صریحاً اس کے احکام کے خلاف احکام و قوانین بنائے جائیں تو یہ اللہ کی کتاب کے ساتھ مذاق ہے۔ یہود پر ایک لطیف تعریض : انبیاء کے لیے الذین اسلموا۔ کی صفت سے اس حقیقت کا اظہار ہورہا ہے کہ یہ انبیاء جو تورات کے احکام کے مطابق یہود کے معاملات کے فیصلے کرتے تھے، صرف دوسروں ہی کے لیے تورات کو واجب العمل نہیں سمجھتے تھے بلکہ خود بھی خدا کے فرمانبردار اور تورات کے احکام و قوانین کے پابند تھے۔ اس میں ایک لطیف تعریض ہے ان علمائے یہود پر جنہوں نے اول تو تورات کو زندگی کے معاملات سے بالکل بےدخل کر رکھا تھا اور اگر کسی دائرے میں اس کو جگہ دی بھی تھی تو اس کی نوعیت یہ تھی کہ دوسروں کو تو اس کا حکم دیتے تھے للیکن خود اپنے آپ کو اس کا مخاطب نہیں سمجھتے تھے۔ قرآن مجید نے اتامرون الناس بالبر وتنسون انفسکم کے الفاظ سے ان کی اسی حالت کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ یہود کو ایک یاد دہانی : ربانی، اور احبار، عربی زبان میں اہل کتاب سے آئے ہوئے الفاظ ہیں۔ ربانی سے مراد علما ہیں اور احبار کا غالب استعمال فقہا اور قضاۃ کے لیے ہے۔ یہ دونوں الفاظ یہاں اپنے حقیقی مفہوم یعنی علمائے حقانی اور دیانت دار اور راست بز فقہا و قضاۃ کے لیے استعمال ہوئے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ جس طرح خدا کے فرماں بردار انبیاء ٹھیک تورات کے مطابق لوگوں کے فیصلے کرتے رہے ہیں اسی طرح حق پرست علماء اور راست باز فقہا بھی اپنے فتوے اور فیصلے اس کی روشنی میں صادر کرتے رہے ہیں۔ یہاں بھی وقت کے علمائے یہود اور ان کے فقہاء کو نہایت لطیف طریقے پر توجہ دلائی ہے کہ تم جن اسلاف کے اخلاف ہو ان میں ایسے لوگ بھی گزرے ہیں جو تمہاری طرح خدا کی کتاب کے معاملے میں چور اور بد دیانت نہیں تھے۔ عہد الہی کی پاسبان خشیت الٰہی ہے : بما استحفظوا من کتبا للہ وکانوا علیہ شہداء۔ میں اس ذمہ داری کا بیان ہے جس کے وہ حامل بنائے گئے تھے اور جس کے صحیح احساس ہی نے ان کی عناں گیری کی جس کے سبب سے ان کو کتاب اللہ کا حق ادا کرنے کی توفیق ملی۔ وہ یہ کہ اللہ نے ان کو اپنی کتاب کا محافظ اور امین اور خلق کے سامنے اس کا شاہد اور گواہ بنایا تھا اور ہر گروہ جو اللہ کی کتاب کا حامل بنایا جاتا ہے وہ درحقییقت اس کا محافظ اور گواہ ہی ہوتا ہے۔ یہ الفاظ بھی وقت کے یہود اور ان کے علماء و فقہا کو یاد دہانی کر رہے ہیں کہ وہ ذرا اپنے گریبانوں میں منہ ڈال کر دیکھیں کہ پاسبان ہو کر انہوں نے خدا کے حرم میں کس طرح نقب لگائی ہے اور گواہ ہو کر کس طرح کتمان شریعت میں مہارت دکھائی ہے۔ فَلَا تَخْشَوُا النَّاسَ وَاخْشَوْنِ وَلَا تَشْتَرُوْا بِاٰيٰتِيْ ثَـمَنًا قَلِيْلًا۔ عام طور پر مفسرین نے اس ٹکڑے کو اوپر کے سیاق وسباق سے الگ کرکے وقت کے یہود سے خطاب کے مفہوم میں لیا ہے۔ اگرچہ الفاظ میں یہ مفہوم لینے کی بھی گنجائش ہے لیکن میرا رجحان اس طرف ہے کہ اس کا تعلق بھی اوپر کے ٹکڑے ہی سے ہے اور قرآن کے معروف طریقہ کے مطابق یہاں اسلوب غائب کے بجائے حاضر کا ہوگیا ہے قرآن مجید میں اس کی مثالیں بکثرت پائی جاتی ہیں کہ بات غائب کے صیغے سے کہتے کہتے اچانک اسلوب حاضر کا آجاتا ہے۔ یہ تبدیلی کلام میں تنوع بھی پیدا کردیتی ہے اور صورت حال کا نقشہ سامنے آجانے کے سبب سے قاری اور سامع پر اس کا اثر بھی پڑتا ہے۔ مثلاً سورة انعام میں ہے " ویوم یحشرھم جمیعا یا معشر الجن قد استکثرتم من الانس " (اور جس دن جن و انس سب کو اکٹھا کرے گا، اے جنوں کے گروہ تم نے تو انسان میں سے بہتوں کو اپنے دام میں پھنسا لیا)۔ پھر آگے ہے " وکذلک نولی بعض الظالمین بعضا بما کانوا یکسبون، یا معشر الجن والانس " (اور اسی طرح ہم ظالموں میں سے ایک کو دوسرے پر ان کے اعمال کی پاداش میں مسلط کردیتے ہیں، اے جنوں اور انسانوں کے گروہ۔۔۔)۔ یہی اسلوب سورة بقرہ کی آیت " واذ جعلنا البیت مثابۃ لنناس وامنا واتخذوا من مقام ابراہیم مصلی میں بھی استعمال ہوا ہے۔ اس کے محل میں ہم نے اس پر تفصیل کے ساتھ بحث کی ہے۔ ہمارے نزدیک یہی اسلوب مائدہ اس آیت میں بھی ہے۔ یعنی یہ بات ان شہداء سے خطاب کر کے کہی گئی تھی جن کا ذکر پہلے گزرا لیکن اس کو غائب کے صیغہ سے بیان کرنے کے بجائے حاضر کے صیغہ میں فرمایا تاکہ کلام زیادہ مؤثر ہوجائے۔ یہ ملحوظ رہے کہ تورات میں جہاں جہاں یہود سے پابندی احکام شریعت کے عہد لینے کا ذکر آتا ہے وہاں حضرت موسیٰ کی طرف سے ان باتوں کی تاکید ضرور آتی ہے جن کی طرف قرآن کے الفاظ اشارہ کر رہے ہیں۔ یعنی خداوند خدا ہی سے ڈرنا، اس کے حکموں کے معاملے میں کسی کی پروا نہ کرنا، اس کی شریعت کو دنیا کے حقیر فوائد پر قربان نہ کرنا۔ غور کیجیے تو یہ باتیں اس امانت اور شہادت کا لازمی تقاضا ہیں جن کا " بما استحفظوا من کتاب اللہ وکانوا علیہ شہداء " میں ذکر آیا ہے۔ جو گروہ کتاب الٰہی کا گواہ بنایا گیا ہے اس کے لیے واجب ہے کہ وہ صرف خدا ہی سے ڈرے، دوسروں کا خوف و رعب اپنے سینے سے نکال دے۔ اس کے بغیر ہر طرح کے حالات میں اس کے لیے کتاب الٰہی کی شہادت کی ذم داریوں سے عہدہ برآ ہونا ممکن نہیں ہے۔ اسی طرح جو جماعت کتاب الٰہی کی امین بنائی گئی ہے اس پر حرام ہے کہ وہ اپنے دنیوی مفادات و اغراض کی خاطر خدا کی اس امت میں خیانت کرے اور کتاب الٰہی پر تاویل و تحریف کی قینچی چلائے مزید غور کیجئے تو یہ حقیقت بھی واضح ہوگی کہ میثاق الٰہی کی انہی تنبیہات کو فراموش کردینے کی وجہ سے یہود " شہداء اللہ " اور ابناء اللہ ہونے کے بجائے سمعون للکذب اور اکلون للسحت بن کر رہ گئے جس کے سبب سے خدا نے ان پر لعنت کردی۔ حقیقی کافر : ۭوَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْكٰفِرُوْنَ۔۔ اس ٹکڑے کا عطف چونکہ اوپر والے ٹکڑے ہی پر ہے اس وجہ سے جو حکم اس کا ہے وہی حکم اس کا بھی ہے۔ یعنی یہ نتیجہ بھی اس تنبیہ کا ایک حصہ ہے جو اوپر مذکور ہوئی۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ نے جن کو شریعت کا امین اور گواہ بنایا ہے اگر انہی کے معاملات کے فیصلے شریعت کے مطابق نہ ہوئے تو حقیقی کافر وہی ہیں۔ اس تاکید اور زور کے ساتھ ان کے کافر قرار دینے کی وجہ وہ اہتمام ہے جو اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنی شریعت اور کتاب کی تعلیم دینے، اس کی ذمہ داریوں سے آگاہ کرنے اور اس راہ کے خطرات سے متنبہ کرنے کے لیے فرمایا۔ جو لوگ اس سارے اہتمام کے بعد بھی راہ حق سے بھٹک گئے انہوں نے گویا پورے دن کی روشنی میں ٹھوکر کھائی اس وجہ سے یہ تمام اندھوں سے بڑھ کر اندھے ہیں۔ یہ آیت اگرچہ ہے تو یہود سے متعلق لیکن بعینہ یہی جرم اگر مسلمانوں کے کسی گروہ سے صادر ہو کہ وہ اختیار و آزادی رکھتے ہوئے کتاب الٰہی کے مطابق معاملے کا فیصلہ نہ کریں، بلکہ علی الاعلان اس سے انحراف اختیار کریں تو ان کا حکم بھی یہی ہوگا اور یہی ہونا چاہیے آگے اس کی وضاحت آئے گی۔ وَكَتَبْنَا عَلَيْهِمْ فِيْهَآ اَنَّ النَّفْسَ۔۔۔ الایۃ۔ یہ تورات کے اس قانون کا ھوالہ ہے جو خروج 21: 23۔ 25، احبار 24:، 20، استثنا 19:، 21 میں مذکور ہے۔ یہ حوالہ اس بات کی تصدیق کے لیے دیا گیا ہے جو اوپر آیت 43 میں مذکور ہوئی ہے کہ تورات میں حدود و تعزیرات کے واضح احکام کی موجودگی میں آخر یہ یہود کس طرح تمہیں حکم بنا کر تمہارے فیصلہ سے گریز کرتے ہیں اور اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ در اصل یہ حدود ہی کے معاملات تھے جو یہود کے لیے سب سے زیادہ مزلہ قدم ثابت ہوئے۔ ول تو انہوں نے تحریف کر کے ان کا حلیہ ہی بگاڑ دیا۔ پھر جو احکام تحریف کی دستبرد سے بچ رہے ان سے بھی فرار کے لیے انہوں نے مختلف قسم کے حیلے نکال لیے۔ فَمَنْ تَصَدَّقَ بِهٖ فَهُوَ كَفَّارَةٌ لَّهٗ میں لہ کے مرجع کے بارے میں اصحاب تاویل کا اختلاف ہے۔ ایک گروہ کے نزدیک اس کا مرجع شخص مجروح ہے۔ یعنی اگر مجروح اپنے مجرم کو بکش دے، اس سے بدلہ نہ لے، تو اس کی یہ نیکی اس کے گناہوں کے لیے کفارہ بنے گی۔ گویا یہ ٹکڑا مجروح کے لیے ترغیب ہے کہ وہ مجرم کو معاف کردے تو یہ بہتر ہے۔ دوسرے گروہ کے نزدیک جس میں ابن عباس، مجاہد اور ابراہیم و شعبی جیسے اکابر تفسیر شامل ہیں، اس کا مرجع جارح ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اگر مجروح (اور بصورت قتل، اولیائے مقتول) مجرم کو معاف کردے تو یہ معافی مجرم کے لیے کفارہ بن جائے گی۔ حکومت اس پر کوئی گرفت نہیں کرے گی اور اگر مجرم توبہ کرلے گا تو عنداللہ بی یہ معافی اس کے لیے کفارہ بن جائے گی۔ میرا رجحان اسی دوسری تاویل کی طرف ہے۔ قرآن کے الفاظ سے اسی کی تائید ہوتی ہے۔ اصلی ظالم : وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ۔ اوپر یہی مضمون بیان کرتے ہوئے " کافرون " کا لفظ آیا ہے۔ یہاں ظالمون کا لفظ ہے۔ لفظ ظلم ہلکے معنی میں نہیں سمجھنا چاہیے۔ یہ قرآن میں خدا اور بندوں کے سب سے بڑے حقوق کے تلف کرنے کے لیے بھی استعمال ہوا ہے چناچہ شرک کو ظلم سے تعبیر فرمایا گیا ہے۔ جو لوگ اللہ کی کتاب اور اس پر عمل کی آزادی رکھتے ہوئے اس کے قانون کو نظر انداز کرتے ہیں وہ خدا کا بھی سب سے بڑا حق تلف کرتے اور خود اپنے نفس اور اللہ کے دوسرے بندوں کا بھی سب سے بڑا حق تلف کرتے ہیں اور درحقیقت اصلی ظالم یہی لوگ ہیں۔ یہ آیت بھی اگرچہ یہود کے جرائم کے بیان کے سیاق میں ہے۔ لیکن یہی جرم مسلمانوں سے صادر ہو (جس کی شہادت ہر مسلمان ملک میں موجود ہے) تو میں نہیں سمجھتا کہ اس کا حکم اس سے الگ کس بنیاد پر ہوگا۔ خدا کا قانون تو سب کے لیے ایک ہی ہے ؟ آیت 45 محکم ہے یا منسوخ : یہ آیت قصاص جیسا کہ ہم نے اوپر اشارہ کیا، تورات کے ایک حک کے حوالہ کے طور پر وارد ہوئی ہے لیکن کوئی اشارہ چونکہ اس کے منسوخ ہونے کا موجود نہیں ہے بلکہ انداز بیان اس کے محکم ہونے پر دلیل ہے اس وجہ سے یہی قانون اس امت کے لیے بھی ہے۔ نبی ﷺ اور صحابہ کے عمل سے اس بات کی تائید ہوتی ہے۔ سورة بقرہ کی تفسیر میں لفظ قصاص پر بحث کرتے ہوئے ہم لکھ چکے ہیں کہ اپنے عام استعمال میں۔ لفظ قصاص جانی و مالی دونوں پر بولا جاتا ہے اس وجہ سے اگر دیت پر راضی نامہ ہوجائے یا دیت ہی تقاضائے انصاف قرار پائے تو دیت ہی قصاص سمجھی جائے گی۔ تفصیلات اس کی فقہ کی کتابوں میں موجود ہیں۔
Top