Tafseer-e-Jalalain - Al-Maaida : 44
اِنَّاۤ اَنْزَلْنَا التَّوْرٰىةَ فِیْهَا هُدًى وَّ نُوْرٌ١ۚ یَحْكُمُ بِهَا النَّبِیُّوْنَ الَّذِیْنَ اَسْلَمُوْا لِلَّذِیْنَ هَادُوْا وَ الرَّبّٰنِیُّوْنَ وَ الْاَحْبَارُ بِمَا اسْتُحْفِظُوْا مِنْ كِتٰبِ اللّٰهِ وَ كَانُوْا عَلَیْهِ شُهَدَآءَ١ۚ فَلَا تَخْشَوُا النَّاسَ وَ اخْشَوْنِ وَ لَا تَشْتَرُوْا بِاٰیٰتِیْ ثَمَنًا قَلِیْلًا١ؕ وَ مَنْ لَّمْ یَحْكُمْ بِمَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الْكٰفِرُوْنَ
اِنَّا : بیشک ہم اَنْزَلْنَا : ہم نے نازل کی التَّوْرٰىةَ : تورات فِيْهَا : اس میں هُدًى : ہدایت وَّنُوْرٌ : اور نور يَحْكُمُ : حکم دیتے تھے بِهَا : اس کے ذریعہ النَّبِيُّوْنَ : نبی (جمع) الَّذِيْنَ اَسْلَمُوْا : جو فرماں بردار تھے لِلَّذِيْنَ : ان لوگوں کے لیے جو هَادُوْا : یہودی ہوئے (یہود کو) وَالرَّبّٰنِيُّوْنَ : اللہ والے (درویش) وَالْاَحْبَارُ : اور علما بِمَا : اس لیے کہ اسْتُحْفِظُوْا : وہ نگہبان کیے گئے مِنْ : سے (کی) كِتٰبِ اللّٰهِ : اللہ کی کتاب وَكَانُوْا : اور تھے عَلَيْهِ : اس پر شُهَدَآءَ : نگران (گواہ) فَلَا تَخْشَوُا : پس نہ ڈرو النَّاسَ : لوگ وَاخْشَوْنِ : اور ڈرو مجھ سے وَ : اور لَا تَشْتَرُوْا : نہ خریدو (نہ حاصل کرو) بِاٰيٰتِيْ : میری آیتوں کے بدلے ثَمَنًا : قیمت قَلِيْلًا : تھوڑی وَمَنْ : اور جو لَّمْ يَحْكُمْ : فیصلہ نہ کرے بِمَآ : اس کے مطابق جو اَنْزَلَ اللّٰهُ : اللہ نے نازل کیا فَاُولٰٓئِكَ : سو یہی لوگ هُمُ : وہ الْكٰفِرُوْنَ : کافر (جمع)
بیشک ہم نے تورات نازل فرمائی جس میں ہدایت اور روشنی ہے۔ اسی کے مطابق انبیاء جو (خدا کے) فرمانبردار تھے ' یہودیوں کو حکم دیتے رہے ہیں اور مشائخ اور علماء بھی۔ کیونکہ وہ کتاب خدا کے نگہبان مقرر کئے گئے تھے اور اس پر گواہ تھے (یعنی حکم الہٰی کا یقین رکھتے تھے) تو تم لوگوں سے مت ڈرنا اور مجھی سے ڈرتے رہنا اور میری آیتوں کے بدلے تھوڑی سی قیمت نہ لینا۔ اور جو خدا کے نازل فرمائے ہوئے احکام کے مطابق حکم نہ دے تو ایسے ہی لوگ کافر ہیں
آیت 44 تا 50 ترجمہ : ہم نے تورات نازل کی جس میں گمراہی سے ہدایت اور روشنی تھی (یعنی) احکام کا بیان تھا، بنی اسرائیل کے تمام انبیاء جو کہ مسلمان اللہ کے تابع فرمان تھے، یہودیوں کیلئے اسی کے ذریعہ فیصلہ کرتے تھے اور ان کے علماء اور فقہاء بھی (اسی کے ذریعہ فیصلے کرتے تھے) اس سبب سے کہ ان کو اللہ نے اس کا محافظ بنایا تھا یعنی ان کو اس پر امین بنایا تھا بایں طور کہ ان سے کتاب اللہ کی حفاظت کا مطالبہ کیا تھا، اس میں ردوبدل کرنے سے، اور وہ اس کے برحق ہونے پر شاہد تھے، پس اے یہود تم محمد ﷺ کی ان صفات کے اور رجم وغیرہ کے اظہار کے بارے میں جو تمہارے پاس ہیں لوگوں سے مت ڈرو (بلکہ) ان کے چھپانے کے بارے میں مجھ سے ڈرو اور میری آیتوں کو دنیوی قلیل معاوضہ کے بدلے جس کو تم اس کو چھپانے کے عوض میں لیتے ہو مت بیچو، اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی کافر ہیں اور ہم نے ان پر تورات میں مقرر کردیا ہے کہ جان کو جان کے بدلے قتل کیا جائیگا جب (قاتل) ان کو قتل کرے، اور آنکھ، آنکھ کے بدلے پھوڑی جائیگی اور ناک ناک کے بدلے کاٹی جائے گی، اور کان کان کے بدلے کاٹا جائیگا، اور دانت دانت کے بدلے اکھاڑا جائیگا اور ایک قراءت میں چاروں جگہ رفع کے ساتھ ہے، اور زخموں میں برابری ہے (جروح) میں بھی دونوں وجہ (رفع و نصب) ہیں، یعنی ان میں برابری کی جائیگی جبکہ ممکن ہو، جیسا کہ ہاتھ، پیر اور ذکر وغیرہ میں اور جس میں برابری ممکن نہ ہو اس میں عادل کے فیصلہ کا اعتبار ہوگا یہ (مذکورہ) حکم اگرچہ ان پر فرض کیا گیا ہے مگر وہ ہماری شریعت میں بھی ثابت ہے پھر جو قصاص کا صدقہ کر دے اس طور پر وہ اپنی ذات پر قدرت دیدے تو اس کا یہ عمل اس کے فعل (قتل) کا کفارہ ہے اور جو لوگ قصاص وغیرہ کے معاملہ میں اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی ظالم ہیں اور ہم نے ان نبیوں کے بعد عیسیٰ ابن مریم کو ان سے پہلی کتاب تورات کی تصدیق کرنے والا بنا کر بھیجا، اور ان کو انجیل عطا کی جس میں گمراہی سے رہنمائی تھی اور احکام کا بیان تھا حال یہ ہے کہ وہ اپنے سے سابق کتاب تورات یعنی اس کے احکام کی تصدیق کرنے والی ہے اور خدا ترس لوگوں کے لئے سراسر ہدایت اور نصیحت تھی، اور ہم نے حکم دیا کہ اہل انجیل ان احکام کے مطابق فیصلہ کریں جو ہم نے اس میں نازل کئے ہیں اور ایک قراءت پر عطف کرتے ہوئے، اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی فاسق ہیں، اور اے محمد ہم نے آپ کے پاس کتاب قرآن حق کے ساتھ نازل کی ہے (بالحق) انزلنا کے متعلق ہے، اور اس کتاب کی تصدیق کرنے والی ہے جو اس سے پہلے ہے اور اس پر شاہد ہے اور کتاب بمعنی کتب ہے، لہٰذا تم اہل کتاب کے درمیان جب وہ تمہارے پاس فیصلہ لائیں تو آپ نازل کردہ خدائی قانون کے ذریعہ فیصلہ کریں، اور جو حق آپ کے پاس آیا ہے اس سے روگردانی کرکے ان کو خوہشات کی پیروی نہ کریں، اور تم میں سے ہر ایک کے لئے اے لوگو ہم نے ایک شریعت اور دین کا واضح طریقہ متعین کیا ہے کہ جس پر تم چلو، اور اگر خدا چاہتا تو تم کو ایک امت بھی بنا سکتا تھا ایک شریعت کے ماننے والی، لیکن اس نے تم کو مختلف فرقے بنایا تاکہ وہ تم کو ان شرائع مختلفہ میں آزمائے جو تم کو دی ہیں تاکہ وہ تم میں سے فرمانبردار اور نافرمان کو دیکھے، لہٰذا بھلائیوں میں سبقت کرنے کی کوشش کرو یعنی اس کی طرف جلدی کرو تم سب کو بعث کے بعد خدا ہی کی طرف پلٹ کر جانا ہے پھر وہ تم کو اس کی اصل حقیقت بتادے گا جس میں تم اختلاف کیا کرتے تھے یعنی دینی امور میں، اور تم میں سے ہر ایک کو اس کے عمل کی جزاء دے گا اور آپ ان کے درمیان نازل کردہ خدائی قانون کے ذریعہ فیصلہ کرتے رہئے اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کیجئے اور محتاط رہئے کہ کہیں یہ لوگ آپ کو ان میں سے جو آپ پر اللہ نے نازل کی ہیں بعض باتوں سے منحرف نہ کردیں، پس اگر یہ لوگ نازل کردہ حکم سے انحراف کریں اور اس کے علاوہ کا قصد کریں تو سمجھ لو کہ اللہ نے ان کے بعض گناہوں کی پاداش میں جن کے وہ مرتکب ہوئے ہیں ان کو دنیا ہی میں مصیبت میں مبتلا کرنے کا ارادہ کر ہی لیا ہے، ان میں سے انحراف بھی ہے اور ان سب کی سزا تو آخرت میں دے گا، اور یہ حقیقت ہے کہ ان میں سے اکثر لوگ فاسق ہیں، اگر یہ (خدائی قانون) سے انحراف کرتے ہیں تو کیا یہ پھر جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں (یبغون) یاء اور تاء کے ساتھ ہے، اور استفہام انکاری ہے حالانکہ جو لوگ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں ان کے نزدیک اللہ سے بہتر فیصلہ کرنے والا کوئی نہیں ہے، اور اہل ایمان کو خاص طور پر اس لئے ذکر کیا گیا کہ وہی اس (فیصلہ میں) غور و فکر کرتے ہیں۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : الَذِیْنَ ھَادُوْا، اس کا تعلق یحکم سے ہے یعنی یہودیوں سے متعلق فیصلے کرتے تھے۔ قولہ : اَلذین اَسْلَمُوا، النبین کی صفت ہے۔ قولہ : اَلربّانیُونَ ، یہ خلاف قیاس رب کی طرف نسبت ہے، راء کے کسرہ کے ساتھ بھی بولا جاتا ہے۔ قولہ : اَلْاَحبار، یہ کسرہ اور فتحہ کے ساتھ حبر کی جمع ہے بمعنی فقہاء فراء نے کہا ہے کسرہ فصیح ہے یہ تحبیر سے ماخوذ ہے بمعنی تحسین۔ قولہ : اُسْتُحْفِظوا، اِسْتِحْفَاظ سے ماضی مجہول جمع مذکر غائب وہ نگہان مقرر کئے گئے، یعنی احبار کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ تورات کی تحریف سے حفاظت کریں۔ قولہ : وفِی قِرَاء ۃٍ بالرَّفْعِ فی الاَرْبَعَۃِ ، چاروں جگہ مبتداء و خبر ہونے کی وجہ سے ایک قراءت میں مرفوع بھی پڑھا گیا ہے۔ قولہ : یُقْتَصُّ ، قصاص کی تفسیر یُقتَصُّ سے کرنے کا مقصد حمل کو درست کرنا ہے۔ قولہ ؛ نحو ذلک، کالسفتین والانثیین والقدمین، اور جس زخم میں برابری اور مساوات ممکن نہ ہو مثلاً زخم لگا دینا یا بدن کے کسی حصہ سے گوشت اتار لینا یا ہڈی توڑ دینا، اس میں چونکہ مساوات ممکن نہیں ہے اسلئے حاکم عادل کا فیصلہ معیار ہوگا۔ قولہ : ای بالقصاص بان مَکَّنَ مَنْ نفسہٖ ، یہ تشریح امام شافعی (رح) تعالیٰ کے مذہب کے مطابق ہے، ورنہ امام ابوحنیفہ (رح) تعالیٰ کے نزدیک تَصَدَّقَ کے معنی معاف کے ہیں یعنی اگر مقتول کے ورثاء نے قاتل کا قصاص معاف کردیا تو یہ انکے حق میں صدقہ ہے۔ قولہ : قلنا۔ سوال : یہاں قلنا محذوف ماننے سے کیا فائدہ ہے ؟ جواب : تاکہ قَفَّیْنَا پر اس کا عطف صحیح ہوجائے۔ قولہ : بنصب لیحکم، لام کیْ کے بعد اَنِ مقدرہ کی وجہ سے یَحْکُمْ منصوب ہے۔ قولہ : عطفاً عَلیٰ مَعْمُوْلِ آتینا، اور وہ معمول مقدر ھدًی وموعظۃً ، ہے، آتَیْنُاہٗ کا مفعول لہ ہونے کی وجہ سے منصوب ہے، تقدیر عبارت یہ ہوگی، وآتَیْنَاہ الاِنْجیلَ للھدی والموعظۃ وحکمھم بہٖ ۔ تفسیر و تشریح اِنَّا اَنْزَلْنَا التوراۃ فیھا حکم اللہ، سابقہ آیت کے شان نزول کے سلسلہ میں سازش کا ایک قصہ ابن جریر ابن ابی حاتم نے ابن عباس کے حوالہ سے بیان کیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ عبد اللہ بن صوریا جو کہ اپنے زمانہ میں تورات کا بڑا ماہر عالم سمجھا جاتا تھا اور شماس بن قیس اور دیگر چند یہودی علماء کا ایک وفد آنحضرت ﷺ کی خدمت میں فریب دہی کے ارادہ سے حاضر ہوا، اور ایک فرضی مقدمہ میں آپ سے غلط فیصلہ کرانا چاہا مگر آپ نے منع فرما دیا اور فرمایا کہ تورات میں اس مقدمہ کا حکم لکھا ہوا ہے اس کے مطابق فیصلہ کرلو، اسی دوران آپ کو آگاہ کرنے کیلئے یہ آیت نازل فرمائی، جس کا مفہوم یہ ہے کہ اگر یہ لوگ آپ سے اپنے مقدمات کا فیصلہ کرانا ہی چاہیں تو آپ عدل و انصاف سے فیصلہ کریں اللہ کو یہی پسند ہے، اگر ان لوگوں کو انصاف منظور ہوتا تو یہ لوگ تورات کے ان احکام سے انحراف نہ کرتے جن پر تمام انبیاء بنی اسرائیل اور علماء و فقہاء کا عمل رہا ہے، اس آیت میں آپ ﷺ کے زمانہ کے یہود سے ان کے اسلاف کا طرز عمل یاد لا کر کہا جا رہا ہے کہ تم لوگوں کو اپنے بااثر سرگردہ لوگوں کے ڈر سے یا مالداروں سے رشوت لینے کے لالچ سے تورات کے احکام بدلنے کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرنا چاہیے، ورنہ تمہارا شمار احکام الہیٰ کے منکریں میں ہوگا، اگرچہ مذکورہ آیات یہود کے بارے میں نازل ہوئی ہیں لیکن اس امت میں سے بھی اگر کوئی دانستہ قرآنی آیات کا منکر ہو اور اس میں تحریف کرے تو وہ بھی اسی حکم میں داخل ہوگا، اور اگر کوئی شخص قرآنی آیت کے حق ہونے کے اقرار کے باوجود اس پر عمل نہ کرے تو گناہ گار ہوگا۔
Top