Dure-Mansoor - Al-A'raaf : 159
وَ مِنْ قَوْمِ مُوْسٰۤى اُمَّةٌ یَّهْدُوْنَ بِالْحَقِّ وَ بِهٖ یَعْدِلُوْنَ
وَمِنْ : سے (میں) قَوْمِ مُوْسٰٓي : قوم موسیٰ اُمَّةٌ : ایک گروہ يَّهْدُوْنَ : ہدایت دیتا ہے بِالْحَقِّ : حق کی وَبِهٖ : اور اس کے مطابق يَعْدِلُوْنَ : انصاف کرتے ہیں
اور موسیٰ کی قوم میں ایک ایسی جماعت ہے جو حق کی ہدایت دیتے ہیں اور اسی کے موافق انصاف کرتے ہیں
(1) امام فریابی اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ موسیٰ نے فرمایا اے میرے رب ! میں نے پایا ہے ایک امت کو کہ انجیل (یعنی کتاب) ان کے دلوں میں محفوظ ہوگی ؟ فرمایا یہ امت ہوگی تیرے بعد جو احمد کی امت ہے۔ عرض کیا اے میرے رب ! میں نے پایا ہے ایک امت کو جو پانچ نمازیں پڑھیں گے جو کفارہ ہوں گی ان کے درمیان (ہونے والے گناہوں) کا فرمایا یہ احمد کی امت ہے جو تیرے بعد ہوگی۔ عرض کیا اے میرے رب میں پاتا ہوں ایک امت کو جو اپنے مالوں کا صدقہ دیں گے پھر وہ ان کے درمیان لوٹ جائیں گے اور وہ اس کو کھائیں گے۔ فرمایا یہ احمد کی امت ہے جو تیرے بعد ہوگی۔ عرض کیا اے میرے رب مجھے احمد کی امت میں سے کر دے۔ تو اللہ تعالیٰ نے ان کی رضا مندی کی خاطر موسیٰ (علیہ السلام) کے لئے نازل فرمایا لفظ آیت ” ومن قوم موسیٰ امۃ یھدون بالحق وبہ یعدلون “ (2) امام ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے ابو لیلی کندی (رح) سے روایت کیا کہ عبد اللہ بن مسعود ؓ نے (یہ آیت) ” ومن قوم موسیٰ امۃ یھدون بالحق وبہ یعدلون “ پڑھی تو ایک آدمی نے کہا میں نہیں محبوب رکھتا اس بات کو کہ میں ان میں سے ہوجاؤں عبد اللہ نے فرمایا کیوں نہیں (پھر فرمایا) اس کی مثل ہونے کی بنا پر تمہارے نیک لوگ بڑھ جائیں گے۔ (3) امام ابن جریر، ابن منذر اور ابو الشیخ نے ابن جریج (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ” ومن قوم موسیٰ امۃ “ کے بارے میں فرمایا مجھ کو یہ بات پہنچی ہے کہ بنی اسرائیل نے جب اپنے انبیاء کو قتل کیا اور ان کا انکار کیا اور یہ بارہ قبیلے تھے ان میں سے ایک قبیلہ دوسروں کے ساتھ شریک ہونے سے بری ہوگیا اور معذرت کی اور اللہ تعالیٰ سے سوال کیا کہ وہ ان کو دوسرے قبائل سے جدا کر دے۔ تو اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے زمین میں ایک سرنگ کھول دی وہ اس میں چلتے رہے یہاں تک کہ چین کے پیچھے جانکلے۔ اور وہ وہیں ہیں اللہ کی طرف ہونے والے جو ہمارے قبلہ کا استقبال کرتے ہیں۔ ابن جریر نے کہا کہ ابن عباس نے فرمایا اسی کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” وقلنا من بعدہ لبنی اسرائیل اسکنوا الارض فاذا جاء وعد الاخرۃ جئنا بکم لفیفا “ (الاعراف آیت 104) اور آخرت کے وعدہ سے مراد عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) ہیں ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ وہ اس سرنگ میں ڈیڑھ سال تک چلتے رہے۔ (4) امام ابن ابی حاتم نے علی بن ابی طالب ؓ سے روایت کیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد بنی اسرائیل اکثر فرقوں میں بٹ گئے ایک فرقہ کے علاوہ سب دوزخ میں ہوں گے۔ اور عیسیٰ کے بعد نصاری بہتر فرقوں میں بٹ گئے اور ایک فرقہ کے علاوہ سب دوزخ میں ہوں گے اور یہ امت تہتر فرقوں میں بٹے گی ایک کے علاوہ سب دوزخ میں جائیں گے یہود کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں لفظ آیت ” ومن قوم موسیٰ امۃ یھدون بالحق ونہ تعدلون “ اور نصاری کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ” منھم امۃ مقتصدۃ “ (المائدہ آیت 66) اور یہ لوگ ہیں جو نجات پائیں گے اور ہمارے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” وممن خلقنا امۃ یھدون بالحق وبہ یعدلون “ یعنی یہ لوگ ہیں جو اس امت میں سے نجات پائیں گے۔ موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم کی زیارت (5) امام ابو الشیخ نے مقاتل (رح) سے روایت کیا کہ ان چیزوں میں جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے محمد ﷺ کی فضیلت عطا فرمائی ایک یہ بھی ہے۔ انہوں نے معراج کی رات کو موسیٰ کی قوم کو دیکھا جو چین کے پیچھے سکونت اختیار کئے ہوئے تھے یہ وہ لوگ تھے جب بنی اسرائیل نے گناہ کئے اور ان لوگوں کو قتل کیا اور ان انبیاء کو قتل کیا کہ انصار کو حکم کرتے تھے انہوں نے اپنے رب کو پکارا اور وہ مقدس زمین میں تھے۔ اور انہوں نے کہا اے اللہ ہم کو نکال دے ان کے درمیان سے۔ تو اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمائی اور ان کے لئے زمین میں ایک سرنگ بنا دی وہ اس میں داخ (رح) ہوگئے اور ان کے ساتھ ایک نہر بھی بنا دی اور (اللہ تعالیٰ نے) ان کے آگے نور کے چراغ روشن کر دئیے وہ اس میں ڈیڑھ سال تک چلتے رہے اور (یہ سفر) بیت المقدس سے ان کی بیٹھنے کی جگہ کی طرف تھا۔ جس میں وہ تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو اس زمین کی طرف نکال دیا کہ اس میں شیز جانور درندے باہم مل جل کر رہتے ہیں۔ وہاں گناہ اور معصیت کا کوئی تصور نہیں نبی ﷺ اس رات ان کے پاس تشریف لائے اور آپ کے ساتھ جبرئیل (علیہ السلام) بھی تھے۔ یہ لوگ آپ پر ایمان لائے ان کی تصدیق کی اور ان کو نماز سکھائی اور انہوں نے کہا کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کو اس بارے میں بشارت دی تھی۔ (6) امام ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ” ومن قوم موسیٰ امۃ یھدون بالحق وبہ یعدلون “ کے بارے میں فرمایا کہ تمہارے اور ان کے درمیان ایک ریت کی نہر جاری ہے۔ (7) امام ابن ابی حاتم نے صفوان ابن عمرو (رح) سے روایت کیا کہ وہ لوگ جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” وممن خلقنا امۃ یھدون بالحق “ یعنی دو قبیلے تھے بنی اسرائیل کے قبیلوں میں سے جنہوں نے بڑی گھمسان کی جنگ کی، جنگ کے دن لوگ مدد کرتے تھے تو اسلام اور اسلام والوں کی۔ (8) امام ابن ابی حاتم نے شعبی (رح) سے روایت کیا کہ اللہ کے کچھ بندے تھے اندلس کے پاس ہمارے اور اندلس کے درمیان یہ نہیں دیکھا گیا کہ مخلوق نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی ہو۔ ان کی کنکریاں موتی اور یاقوت ہیں اور ان کے پہاڑ سونے اور چاندی کے ہیں نہ وہ کھیتی کرتے ہیں نہ وہ کھیتی کو کاٹتے ہیں اور نہ وہ کوئی کام کرتے ہیں ان کے دروازوں پر درخت ہیں جس کے چوڑے پتے ہیں وہی ان کا لباس ہے۔ اور ان کے دروازوں پر ایسے درخت ہیں جن پر پھل لگا ہوا ہے۔ اور اس میں سے کھاتے ہیں۔ وقولہ تعالیٰ : فانبجست منہ اثنتا عشرۃ دینا : (9) امام ابن منذر، ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ” فانبجست “ یعنی پھوٹ پڑے۔ (10) امام طستی نے ابن عباس ؓ سے روایت نقل کی ہے کہ نافع بن ارزق نے ابن عباس ؓ سے پوچھا کہ مجھے اللہ تعالیٰ کے اس قول لفظ آیت ” فانبجست منہ اثنتا عشرۃ عینا “ کے بارے میں بتائیے تو فرمایا اللہ تعالیٰ نے ایک چٹان میں سے بارہ چشمے جاری فرما دئیے کہ یہ قبیلہ کا ایک چشمہ تھا جس میں سے وہ پیتے تھے۔ عرض کیا کیا عرب کے لوگ اس سے واقف ہیں فرمایا ہاں کیا تو نے بشر بن ابی حازم کا قول نہیں سنا ؟ وہ فرماتے ہیں۔ فاسلبت العینان منی بوا کیف کما انھل من واھی الکلی المتبجس ترجمہ : میری دونوں آنکھیں موسلا دھار آنسو بہاتی ہیں جیسے کمزور گردے والے کا پیشاب بہتا ہے۔
Top