Maarif-ul-Quran - Al-A'raaf : 159
وَ مِنْ قَوْمِ مُوْسٰۤى اُمَّةٌ یَّهْدُوْنَ بِالْحَقِّ وَ بِهٖ یَعْدِلُوْنَ
وَمِنْ : سے (میں) قَوْمِ مُوْسٰٓي : قوم موسیٰ اُمَّةٌ : ایک گروہ يَّهْدُوْنَ : ہدایت دیتا ہے بِالْحَقِّ : حق کی وَبِهٖ : اور اس کے مطابق يَعْدِلُوْنَ : انصاف کرتے ہیں
اور قوم موسیٰ میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو حق کا راستہ بتاتے اور اسی کے ساتھ انصاف کرتے ہیں۔
ذکر احوال بنی اسرائیل قال اللہ تعالیٰ ومن قوم موسیٰ امۃ یھدون بالحق۔۔۔ الی۔۔۔ بما کانوا یظلمون (ربط) اوپر سے سلسلۂ کلام موسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں چلا آرہا ہے اب یہ بتاتے ہیں بنی اسرائیل میں اب بھی بعضے لوگ خدا پرست اور انصاف دوست ہیں جو لوگوں کو راہ راست کی ہدایت کرتے ہیں جیسے عبداللہ بن سلام وگیرہ کہ آنحضرت ﷺ پر ایمان لائے اور اس بات کی شہادت دی کہ یہ وہی نبی امی ہیں جن کی توریت اور انجیل میں خبر دی گئی ہے اور ایسے ہی حق پرست اس رحمت خاصہ میں داخل ہوئے جس کی موسیٰ (علیہ السلام) نے واکتب لنا فی ھذہ الدنیا حسنۃ وفی الاخرۃ میں دعا کی تھی اور انہی اہل کتاب میں سے کچھ لوگ ظالم اور سرکش بھی ہیں باوجودیکہ ان پر اللہ کے بڑے بڑے انعامات ہوئے مگر پھر بھی دن بدن، نافرمانیاں اور سرکشیاں ہی کرتے رہے چناچہ فرماتے ہیں اور موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم میں سے ایک گروہ ایسا بھی ہے جو حق کی راہ بتاتا ہے اور اسی حق کے ساتھ انصاف کرتا ہے جیسے عبداللہ بن سلام وغیرہ اور ہم نے بنی اسرائیل کو بارہ قبیلوں پر بانٹ دیا گروہ گروہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے بارہ بیٹے تھے ہر بیٹے کی نسل کو سبط کہتے تھے مطلب یہ ہے کہ ہم نے بنی اسرائیل کو ایک دادا کی اولاد پر تقسیم کردیا جس سے ان کے بارہ گروہ ہوگئے۔ اور حکم بھجا ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف جب ان کی قوم نے جنگل میں ان سے پانی مانگا کہ اے موسیٰ تو اپنی لاٹھی کو پتھر پر مارا پس ان کے مارتے ہی اس پتھر سے بارہ چشمے جاری ہوگئے کیونکہ بارہ ہی سبط تھے اس لیے بارہ چشمے جاری ہوگئے۔ ہر سبط کے لیے علیحدہ علیحدہ چشمہ متعین ہوگیا۔ سب آدمیوں نے یعنی ہر سبط نے اپنا جدا جدا گھاٹ معلوم کرلیا۔ ایک سبط دوسرے سبط کے گھاٹ سے پانی نہیں لیتا تھا اور ایک انعام ہم نے ان پر یہ کیا کہ جنگل میں ابر کو ان پر سائبان بنادیا تاکہ بنی اسرائیل کو آفتاب کی گرمی کی تکلیف نہ ہو۔ اور ایک انعام ان پر یہ کیا کہ خزانہ غیب سے ان پر من وسلوی اتار۔ " من " ترنجبین کے مانند ایک میٹھی چیز تھی اور " سلو " مرغ اور بٹیر کے مانند کوئی جانور تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے یہ کھانا اتارا جن میں سے ایک شیریں اور دوسرا نمکین تھا اور ان سے یہ کہہ دیا کہ جو پاکیزہ روزی ہم نے محض اپنی عنایت سے بلا سبب ظاہری کے تم کو دی ہے اس میں سے کھاؤ اور شکر کرو اور ذخیرہ نہ کرو اور ان لوگوں نے ذخیرہ کر کے ہمارا کوئی نقصان نہیں کیا و لیکن ذخیرہ کر کے وہ خود ہی اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے نافرمانی کر کے اپنا ہی نقصان کیا اور یاد کرو اس وقت کو کہ جب بنی اسرائیل کو یہ حکم دیا گیا کہ اس بستی یعنی بیت المقدس یا اریحاء میں جا کر رہو اور اس کے پھلوں اور کھیتی اور پیداوار کھاؤ جہاں سے چاہو جتنی رغب ہو کھاؤ کوئی پابندی نہیں اور یہ بھی حکم دیا گیا کہ جب اس شہر میں جانے لگو تو زبان سے لفظ حطۃ کہو یعنی اے اللہ ہماری درخواست حطہ ذنوب اور وضع معاصی ہے یعنی اے اللہ ہمارے کاندھوں سے گناہوں کا بوجھ اتار دے اور اس شہر کے دروازے میں تواضع اور عاجزی کے ساتھ جھکے جھکے داخل ہونا تو ہم تمہاری اس توبہ اور نیاز مندی کی بناء پر تمہاری خطائیں بخش دیں گے اور جو تم میں سے نیکو کار اور مخلص ہیں ان کو مزید انعام اور ثواب سے نوازیں گے پس جو ان میں سے ظالم اور سرکش تھے وہاں پہنچ کر سرکشی کرنے لگے اور جو قول اور لفظ ان کو بتلایا گیا اس کو دوسرے قول سے بدل دیا۔ جو اس کے بالکل برعکس تھا یعنی انہوں نے بجائے حطۃ کے " حنطۃ فی شعرۃ " کہا جس کے معنی یہ ہیں کہ بالوں میں گیہوں دے اور بجائے سجدہ کرنے کے سرین کے بل گھسٹتے ہوئے داخل ہوئے پس اس سرکشی کی سزا میں ہم نے ان پر آسمان سے عذاب بھییجا یعنی طاعون آیا یا کوئی اور عذاب آیا جس سے ایک وقت میں ستر ہزار آدمی مرگئے اس لیے کہ وہ لوگ ظلم کرتے تھے یعنی انکا قول اور فعل سب بےمحل تھا اس لیے اسمان سے ان پر بلا نازل ہوئی اور برمحل نازل ہوئی یہ واقعہ سورة بقرہ میں گزر چکا ہے۔
Top