Dure-Mansoor - Al-A'raaf : 205
وَ اذْكُرْ رَّبَّكَ فِیْ نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَّ خِیْفَةً وَّ دُوْنَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَ الْاٰصَالِ وَ لَا تَكُنْ مِّنَ الْغٰفِلِیْنَ
وَاذْكُرْ : اور یاد کرو رَّبَّكَ : اپنا رب فِيْ : میں نَفْسِكَ : اپنا دل تَضَرُّعًا : عاجزی سے وَّخِيْفَةً : اور ڈرتے ہوئے وَّدُوْنَ : اور بغیر الْجَهْرِ : بلند مِنَ : سے الْقَوْلِ : آواز بِالْغُدُوِّ : صبح وَالْاٰصَالِ : اور شام وَلَا تَكُنْ : اور نہ ہو مِّنَ : سے الْغٰفِلِيْنَ : بیخبر (جمع)
اور اپنے دل میں عاجزی کرتے ہوئے اور ڈرتے ہوئے اور ایسی آواز سے اپنے رب کو یاد کیجئے جو زور کی بات سے کچھ کم ہو صبح کے وقت اور شام کے اوقات میں، اور غفلت والوں میں سے مت ہوجانا
(1) امام عبد الرزاق، عبد بن حمید، ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے اس آیت کے بارے میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے بندے کو حکم فرمایا کہ وہ اسے یاد کرے اور اس کو غفلت سے روکا ” بالغدو “ سے صبح کی نماز مراد ہے اور والاصال سے شام (کا وقت) مراد ہے۔ (2) امام ابن ابی حاتم نے ابو ضحر (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ” واذا قری القران فاستمعوا لہ وانصتوا “ کے بارے میں فرمایا کہ (حکم اس وقت) ہے جب امام کھڑا ہوجائے نماز کے لئے تو اس کو سنو اور خاموش ہوجاؤ۔ ” واذکر ربک “ (اور اپنے رب کو یاد کر) اے خاموش رہنے والے ” فی نفسک تصرعا وخیفۃ ودون الجھر من القول “ فرمایا یعنی ذکر کے ساتھ اپنی آواز کو اونچا نہ کر ” بالغدو والاصال “ یعنی صبح کو اور شام کو ” ولا تکن من الغفلین “ (اور غفلت کرنے والوں میں نہ ہو) (4) امام ابن جریر اور ابو الشیخ نے عبید بن عمر (رح) سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” واذکر ربک فی نفسک “ (یعنی جب میرا بندہ مجھ کو اپنے دل میں یاد کرتا ہے تو میں بھی اس کو اپنے دل میں یاد کرتا ہوں اور جب میدا بندہ مجھ کو اکیلا یاد کرتا ہے تو میں اس کو اکیلا یاد کرتا ہوں ” واذا ذکری فی ملاء ذکرتہ فی ملاء احسن منھم واکرم “ (اور جب وہ مجھ میں کسی جماعت میں یاد کرتا ہے تو میں اس کو ایسی جماعت میں یاد کرتا ہوں جو ان کی نسبت احسن واکرم ہے۔ (5) امام ابن جریر اور ابو الشیخ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ ” بالغدو “ سے مراد ہے کہ فجر کے آخر صبح کی نماز ہے اور والاصال سے مراد شام کا آخر یعنی عصر کی نماز ہے۔ ان میں سے ہر ایک کے لئے کا وقت ہے فجر کا اول وقت بھی اور اس کا آخر وقت بھی۔ اور اسی طرح اللہ تعالیٰ کا قول سورة آل عمران میں بھی ہے۔ لفظ آیت ” بالعشی والابکار (41) “ کہ سورج کو غروب ہونے کی طرف مائل ہونا اور ابکار سے مراد ہے فجر کا اول وقت۔ (6) امام عبد بن حمید نے معرف بن واصل (رح) سے روایت کی ہے کہ میں نے ابو وائل کو سورج کے غائب ہونے کے وقت اپنے غلام کو کہتے سنا ” اصلنا “ یعنی ہم نے شام کی۔ غافلین میں ذکر کرنے والوں کی فضیلت (7) امام بزار اور طبرانی نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ نے لفظ آیت ” ولا تکن من الغفلین “ کے بارے میں فرمایا کہ غافلین میں اللہ کا ذکر کرنے والا ایسا ہے جیسے میدان جنگ سے بھاگ جانے والوں میں سے لڑنے والا۔ (8) امام ابن ابی حاتم نے بکر بن اخنس (رح) سے روایت کیا کہ جمعہ کے دن کوئی اس حال میں آئے کہ وہ نہیں جانتا کہ یہ جمعہ کا دن ہے تو وہ غافلین میں لکھا جاتا ہے۔ (9) امام طبرانی، ابن مردویہ اور بیہقی نے شعب میں ابن عمر ؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ غفلت تین چیزوں میں ہوتی ہے اللہ کے ذکر سے جب صبح کی نماز پڑھنے کے بعد سے سورج طولع ہونے تک (غفلت ہوتی ہے) اور آدمی غافل رہتا ہے اپنے دل سے دین کے معاملہ میں یہاں تک کہ خواہش نفس کا تابع ہوجائے۔
Top