Dure-Mansoor - At-Tawba : 1
بَرَآءَةٌ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖۤ اِلَى الَّذِیْنَ عٰهَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِكِیْنَؕ
بَرَآءَةٌ : بیزاری (قطعِ تعلق) مِّنَ : سے اللّٰهِ : اللہ وَرَسُوْلِهٖٓ : اور اس کا رسول اِلَى : طرف الَّذِيْنَ : وہ لوگ جنہوں نے عٰهَدْتُّمْ : تم سے عہد کیا مِّنَ : سے الْمُشْرِكِيْنَ : مشرکین
اللہ کی طرف سے اور اس کے رسول اللہ ﷺ کی طرف سے ان مشرکوں کی طرف برات ہے جن سے تم نے عہد کیا
سورة التوبۃ مدنیۃ آیات 129: رکوع 21 یہ مدنی سورة ہے اور اس کی ایک سو ننانوے آیات ہیں۔ 1:۔ ابو الشیخ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ سورة برات فتح مکہ کے بعد نازل ہوئی۔ 2:۔ ابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ سورة توبہ مدینہ منورہ میں نازل ہوئی۔ 3:۔ ابن مردویہ نے عبداللہ بن زبیر ؓ سے روایت کیا کہ سورة براۃ کو مدینہ منورہ میں نازل کیا گیا۔ 4:۔ ابن منذر نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ ان سورتوں میں سے جو مدینہ منورہ میں نازل ہوئی (ان میں) براۃ بھی ہے۔ 5:۔ ابن ابی شیبہ واحمد وابوداود والترمذی اور آپ نے اس کو حسن کہا والنسائی وابن ابی داود نے مصحف میں وابن منذر والنحاس نے اپنی ناسخ میں وابن حبان وابو الشیخ والحاکم اور آپ نے اس کو صحیح کہا وابن مردویہ والبیہقی نے دلائل میں ابن عباس ؓ نے بیان فرمایا کہ میں نے عثمان ؓ سے عرض کیا آپکو کس چیز نے آمادہ کیا کہ انفال کا قصہ کریں حالانکہ یہ مثانی میں سے ہے اور اس براۃ کا قصد کریں حالانکہ وہ شین میں سے ہے اور پھر میں نے ان دونوں کو ملادیا۔ اور دونوں کے درمیان سطر (آیت) بسم اللہ الرحمن الرحیم نہیں لکھی اور پھر تم نے برات کو سبع طوال میں رکھ دیا تم کو اس پر کس نے ابھارا عثمان ؓ نے فرمایا رسول اللہ ﷺ پر ایک ایسا زمانہ آیا کہ آپ پر ذوات العدد سورتیں نازل ہورہی تھیں۔ جب کچھ نازل ہوتا تو آپ کاتبین وحی میں سے کسی کو بلاتے اور فرماتے کہ ان آیات کو فلاں سورة میں لکھ دو کہ جس میں فلاں فلاں چیز کا ذکر کیا گیا اور انفال مدینہ کے ابتدائی ایام میں نازل ہوئی اور سورة برات سب سے آخری زمانہ میں اور اس کا قصہ انفال کے قصہ کے مشابہ ہے۔ میں نے خیال کی کہ یہ اس میں سے ہے اس وجہ سے میں نے ان دونوں کو ملا دیا رسول اللہ ﷺ اس دنیا سے چلے گئے اور ہم نے یہ بیان نہیں فرمایا کہ یہ سورة برات اس سورة انفال میں سے ہے۔ اس لیے میں نے دونوں کو یکجا کردیا اور ان دونوں سطر (آیت) بسم اللہ الرحمن الرحیم نہیں لکھی۔ اور ان دونوں کو سبع طوال (یعنی سات طویل سورتوں میں) رکھ دیا۔ 6:۔ ابن ابی شیبہ والبخاری والنسائی وابن الضریس وابن المنذر والنحاس نے اپنی ناسخ میں وابو الشیخ وابن مردویہ نے براء ؓ سے روایت کیا سب سے آخر میں یہ آیت نازل فرمائی ” یستفتونک۔ قل اللہ یفتیکم فی الکللۃ “ (النساء آیت 176) اور سب سے آخر میں دوسورۃ مکمل نازل ہوئی جو سورة مکمل طور پر نازل ہوئی وہ سورة برات ہے۔ 7:۔ ابوالشیخ نے ابور جاء سے روایت کیا کہ میں نے حسن سے انفال اور براۃ کے بارے میں پوچھا کیا یہ دوسورتیں ہیں یا ایک سورت انہوں نے فرمایا دوسورتیں ہیں۔ 8:۔ ابوالشیخ نے ابو ردق ؓ سے روایت کیا کہ انفال اور براۃ ایک ہی سورة ہے۔ 9:۔ نحاس نے اپنی ناسخ میں عثمان ؓ سے روایت کیا کہ انفال اور براۃ کو رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں فریقین پکارا جاتا ہے اس وجہ سے ان دونون کو سبع طوال میں شامل کردیا۔ سورۃ برات کے شروع میں بسم اللہ نہ ہونا :ـ 10:۔ دارقطنی نے الافراد میں عسعس بن سلامہ ؓ سے روایت کیا کہ میں نے عثمان ؓ سے عرض کیا اے امیر المومینن کیا ہوا کہ انفال اور براۃ کے درمیان (آیت) بسم اللہ الرحمن الرحیم “۔ نہیں ہے ؟ تو انہوں نے فرمایا کہ سورة (جب) نازل ہوتی تو وہ مسلسل لکھی جاتی تھی۔ یہاں تک کہ (آیت) بسم اللہ الرحمن الرحیم “۔ نازل ہوجاتی تھی۔ جب (آیت) بسم اللہ الرحمن الرحیم “۔ آجاتی تو دوسری سورة لکھ دی جاتی تو (جب) انفال نازل ہوئی تو (آیت) بسم اللہ الرحمن الرحیم “۔ نہیں لکھی گئی۔ 11:۔ طبرانی الاوسط میں علی ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ منافقین سورة ہود سورة برات، سورة یسین، سورة دخان اور عم یتساءلون یاد نہیں کریں گے۔ 12:۔ ابوعبید و سعید بن منصور وابو الشیخ والبیہقی نے شعب میں ابوعطیہ ہمدانی (رح) سے روایت کیا کہ عمربن خطاب ؓ نے لکھا سورة براۃ کو سیکھو اور اپنی عورتوں کو سورة توبہ سکھاؤ۔ 13:۔ ابن ابی شیبہ والطبرانی نے الاوسط میں ابوالشیخ والحاکم وابن مردویہ نے حذیفہ ؓ سے روایت کیا کہ جسکو تم سورة توبہ کہتے ہو وہ سورة عذاب ہے اللہ کی قسم اس نے کسی کو نہیں چھوڑا مگر اس نے اس سے کچھ حصہ پالیا اور جو کچھ ہم اس میں سے پڑھتے ہیں تم اس سے چوتھائی کے سوا کچھ نہیں پڑھو گے۔ 14:۔ ابو عبید وابن منذر وابوالشیخ، ابن مردویہ نے حذیفہ ؓ سے روایت کیا سورة برات کے بارے میں نقل کیا کہ وہ اس کو سورة توبہ کا نام دیتے ہیں اور وہ سورة عذاب ہے۔ 15:۔ ابن عبیدہ وابن منذر وابوالشیخ وابن مردویہ نے حذیفہ ؓ سے روایت کیا سورة براۃ یہ سورة توبہ ہے اور یہی سورة عذاب ہے۔ 16:۔ ابوعبید و ابن منذر وابوالشیخ، وابن مردویہ نے سعید بن جبیر ؓ سے روایت کیا کہ میں نے ابن عباس ؓ سے سورة توبہ کے بارے میں پوچھا کیا یہ سورة التوبہ ہے ؟ تو انہوں نے فرمایا صرف توبہ نہیں بلکہ یہ فاضحہ ہے۔ (یعنی منافقوں کو رسوا کرنے والی) یہ برابر نازل ہوتی رہی اور یہاں تک کہ لوگوں کو یہ خیال ہوگیا کہ ہم میں سے کوئی ہرگز باقی نہیں رہے گا مگر اس میں اس کا ذکر کیا جائے گا۔ 17:۔ ابوعوانہ وابن منذر وابوالشیخ وابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ عمر ؓ سے کہا گیا سورة توبہ کیا ہے ؟ انہوں نے کہا کہ یہ عذاب کی طرف زیادہ قریب ہے اس نے لوگوں کو نہیں چھوڑا۔ یہاں تک کہ یہ خیال پیدا ہوگیا کہ وہ ان میں سے کسی ایک کو نہیں چھوڑے گی۔ 18۔ ابوالشیخ نے عکرمہ ؓ سے روایت کیا کہ عمر ؓ نے فرمایا سورة برات کے نازل ہونے سے ہم فارغ نہیں ہوئے یہاں تک کہ ہم نے گمان کیا کہ ہم میں سے کوئی باقی نہیں رہے گا مگر یہ کہ اس کے بارے میں حکم نازل ہوگا۔ اس کو فاضحہ (یعنی منافقوں کو رسوا کرنے والی) کا نام دیا جاتا ہے۔ 19:۔ ابوالشیخ وابن مردویہ نے زیدبن اسلم (رح) سے روایت کیا کہ ایک آدمی نے عبداللہ ؓ سے پوچھا سورة توبہ کیا ہے ؟ ابن عمر ؓ نے فرمایا ان میں سے کون سی سورة توبہ ہے ؟ عرض کیا سورة برات ابن عمر ؓ عنہنے فرمایا لوگوں نے اس کے سوا بھی کوئی عمل کئے ہم کو اس سے تندرست ہونے کی دعا کرتے ہیں۔ 20:۔ ابوالشیخ نے عبد اللہ بن عبید بن عمیر ؓ سے روایت کیا کہ سورة براۃ کو ” منقرہ “ کہا جاتا ہے کیونکہ اس نے باہر نکالا اور چھان بین کی۔ ان باتوں کو جو مشرکین کے دلوں میں تھا۔ 21:۔ ابوالشیخ نے حذیفہ ؓ سے روایت کیا تم سورة برات کا ثلث (یعنی ایک تہائی) نہیں پڑھو گے۔ 22:۔ ابن مردویہ نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ وہ اس کا نام دیتے ہیں سورة التوبہ حالانکہ وہ سورة عذاب یعنی براۃ ہے۔ 23:۔ ابن منذر نے محمد بن اسحاق (رح) سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں سورة براۃ کو معبرہ کا نام دیا جاتا تھا) یعنی تعبیر کرنے والی) کیونکہ اس نے لوگوں کے بھیدوں کو کھول دیا۔ 24:۔ سعید بن منصور والحاکم (اور آپ نے اس کو صحیح کہا) والبیہقی نے اپنی سنن میں ابوذر ؓ سے روایت کیا کہ جمہ کے دن میں مسجد میں داخل ہوا اور نبی کریم ﷺ خطبہ ارشاد فرما رہے تھے۔ میں ابی بن کعب ؓ کے قریب بیٹھ گیا۔ نبی کریم ﷺ نے سورة براۃ پڑھی تو میں نے ابی سے کہا یہ سورت کب نازل ہوئی اس نے مجھ سے کوئی بات نہیں کی۔ نبی کریم ﷺ جب نماز کو پورا کرچکے تو میں نے ابی ؓ پھر کہا میں نے آپ سے سوال کیا تھا لیکن تم مجھ سے ترش روئی سے پیش آئے اور مجھ سے بات نہیں کی۔ ابی ؓ نے فرمایا تیرے لئے تیری نماز میں سے کوئی (ثواب) نہیں ہے مگر وہ جو تو نے لغوبات کی۔ میں نبی ﷺ کے پاس گیا اور ان کو یہ بات بتائی آپ نے فرمایا ابی نے سچ کہا۔ 25:۔ ابن ابی شیبہ نے شعبی (رح) سے روایت کیا کہ ابوذر ؓ اور زبیر بن عوام ؓ میں سے ایک نے نبی کریم ﷺ سے ایک آیت سنی جس کو آپ کو پڑھ رہے تھے اور آپ جمعہ کے دن منبر پر تشریف فرما تھے اس نے اپنے ساتھی سے کہا یہ آیت کب نازل ہوئی۔ پس جب وہ اپنی نماز مکمل کرچکے۔ تو عمربن خطاب ؓ نے اس سے فرمایا تیرا جمعہ نہیں ہوا صحابی نبی کریم ﷺ کے پاس آئے اور ان کو اس بات کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا عمر نے سچ کہا۔ 26:۔ بیہقی نے شعب الایمان میں اور آپ نے اس کو ضعیف کہا جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت کیا کہ جب سورة براۃ نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں لوگوں کی خاطر داری کے لئے بھیجا گیا ہوں۔ 27:۔ ابوالشیخ وابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ میں نے علی بن ابی طالب ؓ سے پوچھا کہ سورة براۃ میں (آیت) بسم اللہ الرحمن الرحیم “ کیوں نہیں لکھی گئی۔ انہوں نے فرمایا کہ (آیت) بسم اللہ الرحمن الرحیم “ امان ہے اور سورة براۃ تلوار کے ساتھ نازل کی گئی۔ 1:۔ ابن ابی شیبہ وابن جریروابن منذر وابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” برآءۃ من اللہ ورسولہ الی الذین عھدتم من المشرکین “ سے مراد بنی خزاعہ اور بنی مدلج اور دوسرے وہ قبائل ہیں جن کے ساتھ معاہد کیا گیا تھا رسول اللہ ﷺ تبوک سے واپس تشریف لائے۔ تو آپ نے حج کا ارادہ فرمایا پھر فرمایا کہ وہ اس حال میں بیت اللہ سے حاضر ہوں گے کہ مشرکین ننگے ہو کر طواف کرتے ہیں تو میں اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ میں اس حالت میں حج کروں یہاں تک کہ ایسا ہونا بند نہ ہوجائے۔ چناچہ آپ نے ابوبکر ؓ اور علی ؓ کو بھیجا۔ یہ حضرات ذی المجار اور دیگر مقامات پر لوگوں میں گھومے جن جگہوں میں اور حاجتوں کے جمع ہونے کے مقامات میں وہ خریدو فروخت کرتے اور جن سے معاہدہ تھا ان کو جا کر بتایا ان کو چار ماہ تک امن ہے اور یہ عزت والے مہینے ہیں جو لگا تار گزرے ہیں ذی الحجہ کی آخری بیس (دنوں) سے لے کر ربیع الاول کے پہلے دس دین گزرنے تک ہیں۔ پھر ان کے لئے عہد لیا گیا اور سب لوگوں کو قتال کے بارے میں آگاہ کیا یہاں تک وہ مرجائیں۔ 2:۔ عبداللہ بن احمد بن حنبل نے زوائد المسند میں وابو الشیخ وابن مردویہ نے علی ؓ سے روایت کیا کہ جب نبی کریم ﷺ پر سورة براۃ میں سے دس آیات نازل ہوئیں تو آپ نے ابوبکر کو بلایا تاکہ وہ ان (آیات) کو مکہ والوں پر پڑھیں پھر مجھ کو بلایا اور مجھ سے فرمایا کہ میں ابوبکر کو پالوں جہاں بھی اس سے ملاقات ہوا اور اس سے کتاب لے لوں۔ ابوبکر ؓ لوٹ آئے اور عرض کیا یارسول اللہ میرے بارے میں کوئی حکم نازل ہوا ہے فرمایا نہیں لیکن جبرائیل میرے پاس آئے اور فرمایا کہ پیغام آپ یا آپ کے اہل بیت کے کسی آدمی کے سوا کوئی بھی وہ حکم آپ کی طرف سے نہیں پہنچا سکے گا۔ 3:۔ ابن ابی شیبہ واحمد والترمذی (اور آپ نے اس کو حسن کہا) وابوالشیخ وابن مردویہ نے انس ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ نے ابوبکر ؓ کو سورة براۃ (کے احکام) دے کر بھیجا پھر ان کو بلالیا اور فرمایا کہ کسی کے لئے یہ لائق نہیں کہ وہ اس (پیغام) کو پہنچائے مگر میرے خاندان میں سے کوئی آدمی ہو پھر انکے پیچھے علیؓ کو بلایا اور ان کو (پیغام پہنچانے کا کام) عطا فرمایا۔ 4:۔ ابن مردویہ نے سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ابوبکر ؓ کو سورة براۃ (کا حکم) دے کر مکہ والوں کی طرف بھیجا پھ ان کے پیچھے علی کو بھیجا انہوں نے وہ سورت ان سے لے لی اور ابوبکر ؓ نے اپنے دل میں سے کچھ (ملال سا) پایا (کہ مجھ سے کام لے لیا گیا) تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا اے ابوبکر ؓ میرے اور میرے اہل کے کسی آدمی کے سوا میری طرف سے وہ کوئی نہیں پہنچا سکتا۔ مشرکین سے برات کا اعلان : 5:۔ ابن ابی حاتم نے سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے علی کو چار (کاموں) کے ساتھ بیجھا ہرگز کوئی ننگے ہو کر بیت اللہ کا طواف نہیں کرے گا۔ اور اس سال کے بعد مسلمان اور مشرک اکٹھے نہیں ہوں گے اور جس کا معاہدہ تھا رسول اللہ ﷺ اور اس کے درمیان تو وہ اپنے معاہدہ تک باقی رہے گا۔ اور بلاشبہ اللہ اور اس کا رسول مشرکین سے بری ہے۔ 6:۔ احمد و نسائی وابن منذر وابن مردویہ ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ میں علی ؓ کے ساتھ تھا جب رسول اللہ ﷺ نے انکو بھیجا علی کو چار کا موں کے ساتھ بھیجا ننگے ہو کر بیت اللہ کا طواف نہیں کرے گا اس سال کے بعد مسلمان اور مشرک اکٹھے نہیں ہوں گے اور جس کسی کا رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کوئی عہد ہے تو وہ اپنے عہد کی پاسداری کرے گا اور بلاشبہ اللہ اور اس کا رسول مشرکین سے بری ہیں۔ 7:۔ احمد و نسائی وابن منذر وابن مردویہ نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ میں علی کے ساتھ تھا جب رسول اللہ ﷺ نے علی کو مکہ والوں کی طرف سورة براۃ دے کر بھیجا۔ ہم آواز لگاتے تھے کہ جنت میں مومن کے علاوہ کوئی بھی ہرگز داخل نہ ہوگا۔ اور ننگے ہو کر بیت اللہ کا طواف نہیں کرے گا۔ اور جس آدمی کا رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کوئی معاہدہ ہے تو اس کا معاملہ اور اس کی مدت چار ماہ تک ہے۔ جب چار ماہ گزر جائیں گے تو اللہ اور اس کے رسول مشرکین سے بری ہوجائیں گے اور اس سال کے بعد کوئی مشرکین اس بیت اللہ کا حج نہیں کرے گا۔ 8:۔ عبدالرزاق وابن منذر وابن ابی حاتم نے سعید بن مسیب (رح) کے واسطے سے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ ابوبکر ؓ نے ان کو حکم دیا کہ وہ ابوبکر ؓ کے حج کے دروان برات کا اعلان کریں ابوہریرہ کا بیان ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ہمارے پیچھے علی کو بھیجا اور ان کو حکم فرمایا کہ وہ برات کا اعلان کریں گے اور ابوبکر ؓ احکام حج بیان کریں گے جیسا کہ وہ اس کام پر مقرر ہیں یا فرمایا ابوبکر ؓ اپنی ہیئت پر رہیں گے۔ 9:۔ ابن مردویہ نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ابوبکر ؓ کو حج پر مقرر فرمایا۔ پھر علی ؓ کو (سورۃ) براءۃ (کا حکم) دے کر ان کے پیچھے بھیج دیا۔ پھر نبی کریم ﷺ نے اگلے سال حج ادا فرمایا پھر آپ واپس تشریف لائے اور وفات پاگئے۔ ابوبکر ؓ خلیفہ ہوئے تو انہوں نے عمر ؓ کو حج پر مقرر فرمایا پھر ابوبکر ؓ نے اگلے سال حج (ادا) کیا پھر وہ وفات پاگئے پھر عمر ؓ خلیفہ ہوئے اور انہوں نے عبد الرحمن بن عوف ؓ کو حج پر مقرر فرمایا اس کے بعد پھر آپ حج کرتے رہے یہاں تک کہ فوت ہوگئے۔ پھر عثمان ؓ خلیفہ ہوئے اور انہوں نے عبدالرحمن بن عوف ؓ کو حج پر مقرر فرمایا پھر وہ بھی حج کرتے رہے یہاں تک کہ شہید کردیئے گئے۔ 10:۔ ابن حبان وابن مردویہ نے ابوسعید خدری ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ابوبکر ؓ کو بھیجا تاکہ وہ آپ کی طرف سے (سورۃ) براۃ کے احکام پہنچائیں۔ پھر آپ نے علی ؓ کو بھیجا اپنی اونٹنی عضباء پر سوار فرمایا وہ چلے اور ابوبکر ؓ کو (راستے میں) مل گئے اور ان سے براۃ کا حکم واپس لے لیا۔ ابوبکر ؓ نبی کریم ﷺ کے پاس لوٹ آئے تو عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ میرے لئے کوئی حکم نازل ہوگیا ہے۔ جب وہ آپ کے پاس آئے تو عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ میرے لئے کیا بات ہوئی ؟ آپ نے فرمایا خیر کی بات ہے تو میرا بھائی اور غار میں میرا ساتھی ہے اور تو میرے ساتھ حوض پر ہوگا مگر وہ سورة برات کے احکام میرے یا میرے اہل بیت کے کسی فرد کے سوا اور کوئی نہیں پہنچا سکتا تھا (اس لئے حضرت علی ؓ کو بھیجا) صدیق اکبر ؓ امیر الحجاج : 11:۔ ابن مردویہ نے ابو رافع ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ابوبکر کو (سورۃ) براءۃ (کے احکام) دیکر حج کے لئے بھیجا۔ جبرئیل تشریف لائے اور فرمایا بلاشبہ آپ ؓ آپ کے اہل کے کسی فرد کے سوا وہ احکام کوئی ہرگز نہیں بھیج سکے گا۔ تو آپ نے حضرت علی ؓ کو ابوبکر ؓ کے پیچھے بھیجا یہاں تک کہ وہ ان کو مکہ اور مدینہ کے درمیان مل گئے علی اور وہ احکام ان سے لے لئے۔ اور حج کے درمیان لوگوں کو پڑھ کر (سنائے) 12:۔ بخاری ومسلم وابن منذر وابن مردویہ والبیہقی نے دلائل میں ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ ابوبکر ؓ عنہنے اس حج میں اعلان کرنے والوں میں مجھ کو بلابھیجا اور آپ نے ان کو قربانی کے دن بھیجا اور وہ منی میں اعلان کرے کی اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہیں کرے گا۔ اور ننگے ہو کر بیت اللہ کا طواف نہیں کرے گا۔ پھر نبی کریم ﷺ نے علی بن ابی طالب ؓ کو ان کے پیچھے بھیجا۔ اور اس کو حکم فرمایا کہ وہ برات کا اعلان کریں تو علی ؓ نے ہمارے ساتھ منی والوں میں اعلان فرمایا قربانی کے دن کے اس سال کے لئے مشرک حج نہیں کرے گا اور ننگے ہو کر بیت اللہ طواف نہیں کرے گا۔ 13:۔ ترمذی (اور آپ نے اس کو حسن فرمایا) وابن حاتم والحاکم (اور آپ نے اس کو صحیح کہا) اور ابن مردویہ والبیہقی نے دلائل میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ابوبکر ؓ کو بھیجا اور ان کو حکم فرمایا کہ وہ ان کلمات کے ساتھ اعلان کریں گے پھر ان کے پیچھے علیؓ کو بھیجا اور ان کو حکم فرمایا کہ وہ بھی ان کلمات کے ساتھ اعلان کریں دونوں حضرات چلے اور حج کیا پھر ایام تشریق میں علی ؓ کھڑے ہوگئے اور آواز لگائی (آیت) ” ان اللہ بریء من المشرکین ورسولہ فسیحوا فی الارض اربعۃ اشھر ‘ اور سال کے بعد مشرک ہرگز حج نہیں کرے گا اور ننگے ہو کر بیت اللہ کا طواف ہرگز نہیں کرے گا اور جنت میں مومن کے سوا کوئی داخل نہیں ہوگا علی ان کلمات کے ساتھ آواز لگا رہے تھے۔ 14:۔ سعید بن منصور وان ابی شیبہ واحمد الترمذی اور آپ نے اس کو صحیح کہ اوابن منذر والنحاس والحاکم اور آپ نے اس کو صحیح کہا وابن مردویہ والبیہقی نے دلائل میں زید بن تبیع ؓ سے روایت کیا کہ ہم نے علی ؓ سے سوال کیا کہ کس چیز کے ساتھ آپ کو ابوبکر ؓ کے ساتھ بھیجا گیا تھا حج میں انہوں نے فرمایا چار چیزوں کے ساتھ کہ جنت میں مومن کے سوا کوئی داخل نہ ہوگا۔ ننگے ہو کر بیت اللہ کا طواف کوئی نہیں کرے گا۔ اور اس سال کے بعد مسجد حرام میں مومن اور کافر جمع نہیں ہوں گے اور جس آدمی کا رسول اللہ ﷺ کے درمیان کوئی عہد تھا۔ تو اس کا عہد اس کی مدت تک ہوگا اور جس آدمی کا کوئی عہد نہ تھا تو اس کی مدت چار ماہ ہے۔ 15:۔ اسحاق بن راہویہ والدارمی والنسائی وابن خزیمہ وابن حبان وابوالشیخ وابن مردویہ والبیہقی نے دلائل میں حضرت جابر ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے حضرت ابوبکر ؓ کو حج پر بھیجا پھر حضرت علی ؓ (سورۃ) براۃ (کا حکم) دیکر بھیجا پس انہوں نے موقف حج میں لوگوں کو مکمل سورة برات پڑھ کر سنائی۔ 16:۔ بیہقی نے دلائل میں عروہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے (ہجرت کے) نویں سال میں ابوبکر ؓ کو لوگوں پر امیر بنا کر بھیجا اور ان کو حج کے احکام لکھ کردیئے۔ اور علی بن ابی طالب ؓ کو سورة براۃ کی آیات دیکر بھیجا اور اس کا حکم فرمایا کہ مکہ، منی، عرفہ اور تمام مشاعر حج میں اعلان کردیں گے۔ اللہ اور اس کا رسول بری ہے اس کی ذمہ داری سے اس سال کے بعد جس مشرک نے بھی حج کیا۔ یا بیت اللہ کا ننگا طواف کیا اور جس شخص کا رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کوئی معاہدہ ہو اس کی مدت چار ماہ ہے۔ علی اپنی سواری پر سب لوگوں میں چلے اور ان پر قرآن پڑھتے رہے (براءۃ من اللہ ورسولہ) اور ان پر یہ آیت بھی پڑھی۔ (آیت) یبنی ادم خذو ازینتکم عند کل مسجد “ (الاعراف آیت 31) 17:۔ ابوالشیخ نے حضرت علی ؓ سے روایت کیا کہ مجھ کو رسول اللہ ﷺ نے (سورۃ) براءۃ (کا حکم) دیکر یمن کی طرف بھیجا میں نے عرض کیا یارسول اللہ آپ مجھ کو بھیج رہے ہیں حالانکہ میں ایک نوجوان لڑکا ہوں اور مجھ سے قضاء کے بارے میں سوال کریں گے اور میں نہیں جانتا کہ میں کیا جواب دوں ؟ آپ نے فرمایا اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ یہ سورت تو لے کر جائے یا میں اس کو لے کر جاوں۔ میں نے عرض کیا اگر یہ ضروری ہے تو میں جاتا ہوں آپ نے فرمایا تو چلا جا کہ اللہ تعالیٰ تیری زبان کو ثابت کردیں گے اور تیرے دل کو ہدایت دیں گے۔ پھر فرمایا تو چلا جا اور اس (حکم) کو لوگوں کے سامنے پڑھ دے۔ 18۔ ابن منذر وابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” برآء ۃ من اللہ ورسولہ “ کے بارے میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے لئے حد مقرر فرما دی جنہوں نے رسول اللہ ﷺ سے معاہدہ کیا تھا چار ماہ کی کہ وہ اس (مدت) میں چلیں پھریں جہاں چاہیں اور اس آدمی کی بھی حد مقرر فرمادی جس کا کوئی معاہدہ نہ تھا (یعنی) عزت والے چار ماہ قربانی کے دن سے محرم کی پچاس راتوں کے گزرنے تک جب عزت والے مہینے گزر گئے تو ان کا حکم فرمایا کہ جن کے ساتھ معاہدہ ہے ان کے بارے میں تلوار اٹھائیں اگر وہ اسلام میں داخل نہیں ہوئے جو کچھ بھی ان کے ساتھ عہد ہوا وہ توڑ دیں۔ اگرچہ پہلی شرط ختم ہوجائے۔ فرمایا (آیت) ” الا الذین عہدتم عند المسجد الحرام “ سوائے مکہ والوں کے جن سے تم نے مسجد حرام کے پاس معاہدہ کیا۔ 19:۔ نحاس نے اپنی ناسخ میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ قوم کے کئی معاہدے تھے تو اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو حکم فرمایا کہ ان کو چارماہ کی مہلت دیں اس میں گھوم پھر لیں اس کے بعد ان کا کوئی معاہدہ نہیں ہے اور اس کے بعد وہ سب (معاہدے) باطل قرار دے دیئے۔ اور جن قوموں کے ساتھ کوئی عہد نہیں تھا تو ان کی مدت پچاس دن ہے۔ ذی الحجہ میں بیس دن اور محرم سارا مہینہ اس کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” فاذا انسلخ الاشہر الحرم فاقتلوا المشرکین حیث وجدتموہم “ (التوبہ آیت 5) راوی نے کہا کہ اس آیت کے بعد رسول اللہ ﷺ نے کوئی معاہدہ نہیں کیا۔ 20:۔ ابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” برآء ۃ من اللہ ورسولہ “ کے بارے میں فرمایا کہ ان کے معاہدوں سے رسول اللہ ﷺ نے برات کا اعلان فرمایا جسے اللہ عزوجل نے ذکر فرمایا۔ 21:۔ عبد الرزاق وابن جریر وابن ابی حاتم والنحاس نے زہری (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” فسیحوا فی الارض اربعۃ اشھر “ کے بارے میں فرمایا (یہ آیت) شوال میں نازل ہوئی اور چار ماہ سے مراد۔ شوال ذوالقعدہ، ذی الحجۃ اور محرم ہیں۔
Top