Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tibyan-ul-Quran - An-Naml : 57
وَ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلٰلَةٍ مِّنْ طِیْنٍۚ
وَ
: اور
لَقَدْ خَلَقْنَا
: البتہ ہم نے پیدا کیا
الْاِنْسَانَ
: انسان
مِنْ
: سے
سُلٰلَةٍ
: خلاصہ (چنی ہوئی)
مِّنْ طِيْنٍ
: مٹی سے
ہم نے انسان کو مٹی کے ست سے بنایا
ولقد تبعثون (12 تا 16) یہ انداز تخلیق ، یہ منظم انداز نشونما اس کے اندر پایا جانے وا لا تسلسل ۔ سب سے پہلے تو یہ بتاتا ہے کہ اس پورے نظام کا ایک خالق ہے اور پھر اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ پورا عمل اس کے ارادہ مدبرہ کے مطابق ہے۔ یہ نہایت ہی پچیدہ عمل محض اتفاق سے یونہی نہیں ہوجاتا اور نہ یہ پورا عمل بغیر کسی ارادے اور تدبیر کے یونہی اتفاقاً ہوتا ہے۔ خصوصاً اس کا یہ پہلو کہ اس پورے نظام واقعات میں کبھی بھی یہ سلسلہ منقطع نہیں ہوتا۔ انسان کا یہ نظام تخلیق عقلاً کئی دوسرے طریقوں سے ممکن ہے لیکن کبھی یہ طریق کار تبدیلی کو قبول نہیں کرتا۔ یہ پہلوخصوصاً ٓاس بات کا اظہار کرتا ہے کہ ایک مخصوص ارادہ جو اس نظام کی پشت پر ہے۔ حیات انسانی کی یہ تدریجی نشونما اپنے اس تسلسل کے ساتھ بظاہر ایک اعجوبہ ہے اور اسے صرف اس صورت میں حل کیا جاسکتا ہے کہ اس سورة کے مطابق ایک انسان سیدھی طرح اللہ پر ایمان لے آئے۔ بس یہی ایک طریقہ ہے جس سے اس تخلیق اور اس نشو نما کو اپنے کمال تک پہنچانے کا تصور دیا جاسکتا ہے۔ صرف ایمان باللہ ہی کی صورت میں دنیا و آخرت کی زندگی با معنی اور با مقصد ہوسکتی ہے۔ صفات مومنین کے بعد یہاں زندگی کی اس عجیب نشونما کے مدارج کو کیوں لایا گیا ہے ؟ ولقد خلقنا الانسان من سللۃ من طین (23 : 12) ” ہم نے انسان کو مٹی کے ست سے بنایا ، پھر ایک محفوظ جگہ ٹپی کی ہوئی بوند میں تبدیل کیا “۔ یہ آیت انسانی زندگی کی نشونما کے انداز کو نہایت ہی تعین کے ساتھ بتاتی ہے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان موجود انسانی شکل تک کئی مراحل طے کرکے پہنچتا ہے۔ یو وہ پہلے مٹی سے انسان تک پہنچا ، کیچڑ گویا انسان کی تخلیق درجہ اول ہے۔ اور انسان اپنی موجودہ شکل میں اس عمل تخلیق کا فائنل مرحلہ ہے۔ یہ وہ حقیقت ہے جس کی قرآن کریم صراحت کرتا ہے۔ ہم انسان کے اس عمل تخلیق کی تصدیق ان سائنسی مشاہدات سے کرنا نہیں چاہتے جنہوں نے اس عمل کو تخلیقی کا بڑی باریکی سے مشاہدہ کیا ہے کہ انسانی زندگی کس طرح نشونما پاتی ہے۔ قرآن کریم نے تخلیق کس قدر پچیدہ ہے ۔ قابل غور بات یہ ہے کہ کیچڑ سے انسان کی تخلیق تک کس قدر تبدیلی ہے ۔ قرآن کریم نے اس سے زیادہ تفصیلات نہیں دی ہیں کیونکہ قرآن کریم کا مقصد ان موٹے موٹے مدارج تخلیق کے ذکر ہی سے پورا ہوجاتا ہے ۔ رہے موجودہ سائنسی مشاہدات تو ان کے پیش نظر نشونما کے نہایت ہی مفصل مدارج کا بیان ہوتا ہے تاکہ وہ کیچڑ سے مکمل انسان کی تخلیق تک مدارج کو تفصیل سے لیں۔ سائنس دانوں کے مشاہدات درست بھی ہوسکتے ہیں اور بعض اوقات وہ غلط مشاہدات بھی کرتے ہیں۔ آج زیادہ وہ مدارج بتاتے ہیں اور کل ان میں کمی کردیتے ہیں کیونکہ آلات مشاہدہ میں آئے دن تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں ۔ قرآن کریم کبھی تو ان مدارج کو اختصار کے ساتھ بیان کرتا ہے اور کبھی ان کی تفصیلات دیتا ہے۔ بعض اوقات صرف یہ فقرہ ہوتا ہے۔ و بدا خلق الانسان من طین (32 : 7) ” انسان کی ابتدائی تخلیق مٹی سے کی گئی “۔ اب اس میں مراحل کا ذکر بالکل نہیں ہے اور جس آیت میں تفصیلات دی گئی ہیں اس میں کہا ہے۔ من سللۃ من طین (23 : 12) ” دوسری آیت میں اختصار سے کام لیا گیا ہے۔ رہی یہ بات کہ انسان مٹی سے کس طرح تسلسل کے ساتھ اپنی موجودہ کامل حالت تک پہنچاتو قرآن کریم نے اس کی تفصیلات نہیں دی ہیں اور جیسا کہ ہم نے دوسری جگہ تفصیلات دے دی ہیں یہ امور قرآن کریم کے مقاصد میں شامل ہی نہیں ہیں۔ قرآن کریم نے جو مدارج حیات بیان کیے ہیں وہ سائنسی مشاہدات کے مطابق بھی ہوسکتے ہیں اور خلاف بھی ہوسکتے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ عمل کسی نامعلوم ذریعہ سے ہوا ہو اور ابھی بھی انسان نے اسے دریافت نہ کیا ہو یا کچھ ایسے فیکٹر ہوں جو ابھی انسان کے علم سے باہر ہوں۔ لیکن قرآن انسان کو جس نظر سے دیکھتا ہے اور یہ دوسرے سائنسی نظریات اسے جن مقاصد کے لیے مشاہدہ کرتی ہیں ان میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ قرآن کریم انسان کو ایک نہایت ہی مکرم اور برگزیدہ مخلوق قرار دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اس ذات کے اندر اللہ کی روح پھونگی گئی ہے اور اس روح ہی نے اسے مٹی سے انسان بنادیا اور اسے دو خصوصیات عطا کیں جن کی وجہ سے انسان کہلایا اور حیوان سے ممتاز قرار پایا یوں قرآن کا نقطہ نظر انسان کے بارے میں مادہ پرستوں سے بالکل جدا ہے اور اللہ کا قول تمام لوگوں سے زیادہ سچا ہے۔ (دیکھئے الانسان بین المادیۃ والاسلام محمد قطب) یہ ہے جنس انسانی کی اصل تخلیق مٹی کے ست سے۔ رہا بعد کا سلسلہ نسل انسانی تو اس کا طریق کا بالکل کار بالکل جدا ہے اور ایک معروف اور مشاہدہ کیا ہواطریقہ ہے۔ ثم جعلنہ نطفۃ فی قرار مکین (23 : 13) ” پھر ہم نے اسے ایک محفوظ ٹپکی ہوئی بوند میں تبدیل کردیا ”۔ اللہ نے جنس انسانی (آدم) کو تو مٹی کے ست بنایا۔ رہا سلسلہ تناسل تو اس سلسلے کو اللہ تعالیٰ نے پانی کے ایک قطرے سے چلایا۔ پانی کا یہ قطرہ مرد صنب سے نکلتا ہے۔ یہ قطرہ رحم مادر میں ٹھرتا ہے۔ یہ پانی کا نہایت ہی چھوٹا نکتہ ہوتا ہے بلکہ یہ ہزار ہا خلیوں میں سے ایک خلیہ ہوتا ہے اور پانی کے اس قطرے میں یہ خلیے ہزار ہا کی تعداد میں ہوتے ہیں۔ فی قرار مکین (23 : 13) ” محفوظ جگہ میں “ یہ نقطہ رحم میں جاکر رحم کی ہڈیوں کے درمیان ایسی جگہ محفوظ جگہ میں ہوتا ہے کہا اس پر جسم کی حرکات کا کو ئی اثر نہیں ہوتا۔ یہ جگہ ایسی ہوتی ہے کہ انسان کی پیٹھ اور پیٹ کو جھٹکے اور چوٹیں اور حرکات اور تاثرات پہنچتے ہیں یہ جگہ ان سے محفوظ ہوتی ہے۔ قرآن کریم اس نقطے کو انسان کی تخلیق کا ایک مرحلہ قرار دیتا ہے اس نقطے سے بڑھ کر انسان ایک مکمل انسان بنتا ہے ۔ یہ ایک سائنسی حقیقت ہے لیکن یہ عجیب اور قابل غور حقیقت ہے۔ جب اس عظیم الحبثہ انسان کو ہم مختصص کرکے اس نقطے کے اندر وہ تمام انسانی خصائص پائے جاتے ہیں تو پھر ایک کامل انسان اندر سے اس قسم کے اور جینز تخلیق ہوتے رہتے ہیں ۔ سلسلہ تخلیق کا یہ ایک عجیب نظام ہے۔ اس نقطے سے انسان پھر علفہ بن جاتا ہے یعنی خون کا ایک لوتھڑا۔ اس مرحلے میں مرد کا جرثومہ عورت کے انڈے کے ساتھ مکس ہوجاتا ہے اور ابتداء میں رحم مادر کے ساتھ معلق یہ ایک باریک نقطہ ہی ہوتا ہے ۔ یہ نقطہ رحم مادر کے خون سے غذاپاتا ہے۔ علقہ سے پھر المضغۃ ” خون کی بوٹی “ کی شکل میں آجاتا ہے ۔ بوٹی کی شکل میں اب یہ نقطہ قدرے بڑا ہے ۔ اب یہ گوشت کا ایک ٹکڑا ہوتا ہے ۔ یہ خون کا ایک موٹا ٹکڑا ہوتا ہے ۔ یہ چھوٹی سی مخلوق اپنی اس راہ پر چلتی ہے۔ یہ اپنی ڈگر تبدیل نہیں کرتی۔ نہ اپنی راہ سے ادھر ادھر جاتی ہے ۔ اس کی حرکت معظم اور مرتب ہوتی ہے اور یہ اس ناموس کے مطابق ہوتی ہے جو پہلے سے اللہ نے مقرر کردیا ہے۔۔ یعنی اللہ کی تدبیر و تقدیر کے مطابق ۔ اس کے بعد ہڈیوں مرحلہ آتا ہے۔ فخلقنا المضغۃ عظما (23 : 13) پھر بوٹی کی ہڈیاں بنائیں۔ اور اس کے بعد یہ مرحلہ آیا کہ ہڈیوں پر گوشت چڑھ آیا۔ فکسونا العظم لحما (23 : 31) ” پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھایا “۔ ان مراحل کو پڑھ کر اور پھر دیکھ کر انسان حیران رہ جاتا ہے کہ قرآن کریم نے کے ان مراحل کو جس تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے وہ سائنس دانوں کے مشاہدے میں بہت بعد میں آئی ہے ۔ سائنس دانوں نے بعد میں یہ بات معلوم ہوئی کہ ہڈیوں کے خلیے اور ہیں ۔ اور گوشت کے خلیے اور ہیں۔ اور یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچی کہ جنین کے اندر ہڈیوں کے خلیے پہلے چڑھتے ہیں اور بعد میں ان پر گوشت کے خلیے چڑھتے ہیں اور جب تک ہڈیوں کے خلیے مکمل نہیں ہوتے اس وقت تک گوشت کے خلیے پاپید ہوتے ہیں اور بعد میں جنین کا ڈھانچہ بنتا ہے۔ یہ حیران کن حقیقت ہے جسے جسے قرآن کریم ریکارڈ کرتا ہے۔ فخلقنا المضغۃ عظما فکسونا العظم لحما (23 : 14) ” پھر بوٹی کی ہڈیاں بنائیں “ اور پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھایا ۔ ثم انشانہ خلقا اخر (23 : 14) ” پھر اسے ایک دوسری مخلوق بنا کھڑا کیا “۔ اور یہ مخلوق انسان ہے۔ یہ امتیازی خصوصیات کا حامل ہے ۔ ابتداء مین انسان کا جنین اور حیوان کا جنین جسمانی ساخت کے اعتبار سے ایک جیسے نظر آتے ہیں لیکن آخر میں جاکر انسان کا جنین ایک دوسری مخلوق کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ یہ ایک مکرم اور صاحب امتیاز مخلوق ہوتی ہے اور یہ ارتقاء اور ترقی کی بےپناہ استعداد اپنے اندر رکھتی ہے ۔ حیوان کا جنین حیوان کے ہی درجے میں رہ جاتا ہے۔ وہ انسانی خصائص کو اخذ نہیں کرسکتا۔ اور ان کمالات تک نہیں پہنچ پاتا جن تک انسان پہنچتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ انسانی جنین کو متعین اور مخصوص خصوصیات دی گئی ہیں اور یہی خصوصیات ہیں جو بعد کے زمانے مین انسان کو انسانیت کی راہ پر ڈالتی ہیں۔ اس طرح انسان ” ایک دوسری “ مخلوق بن جاتا ہے ۔ اور یہ اس وقت ہی بن جاتا ہے جب یہ جنین اپنے آخری دور میں نشونما میں ہوتا ہے۔ حیوان اپنے آخری دور میں انسان سے پیچھے رہ جاتا ہے اس لیے کہ اس کو انسانی خصوصیات نہیں دی گئیں۔ چناچہ کسی حیوان کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ اپنے حیوانی مقام سے آگے بڑھ پائے اور اس طرح آگے بڑھتے بڑھتے حیوان سے انسان بن جائے جیسا کہ مادی نطریہ کے قائلین اس پر یقین رکھتے ہیں لیکن انسان اپنی انسانی خصوصیات کے اعتبار سے ایک مقام جا کر رک جاتا ہے اور انسان خلق آخر بن جاتا ہے اور ان ذمہ داریوں کے اٹھانے کے قابل بن جاتا ہے جو اس نے اس کرہ ارض پر ادا کرنی ہیں۔ یہ فرق ان امتیازی خصوصیات کی وجہ سے ہے جو اللہ تعالیٰ نے انسان کو دی ہیں ۔ اس معاملے میں یہ نظریہ بالکل غلط ہے کہ حیوانات نے ترقی کرتے کرتے درجہ انسانی تک بلندی حاصل کی ہے۔ نظریہ ارتقاء اسلام کے نظریہ سے متضاد تصور پر قائم ہے۔ یہ نظریہ فرض کرتا ہے کہ موجودہ انسان حیوانی ارتقاء کا ایک درجہ ہے ۔ اور یہ کہ حیوان بھی ترقی کرکے انسان بن سکتا ہے لیکن واقعی صورت حالات یہ ہے کہ واضح طور پر یہ کہ نظریہ محض مفروضہ اور جھوٹ نظر آتا ہے ۔ حیوان کبھی بھی انسانی خصوصیات کا حامل نہیں ہوسکتا ۔ وہ ہمیشہ ہی اپنی حدود میں رہتا ہے ان سے آگے نہیں بڑھ سکتا ۔ یہ ممکن ہے کہ کسی نوع کے اندر شکلی اعتبار سے کوئی نوع حیوان ترقی کرلے جس طرح ڈرائون کہتا ہے۔ لیکن ہر نوع اپنے نوع اپنے نوعی حدود کے اندر رہتی ہے وہ نوعی خصوصیات بدل نہیں سکتی کیونکہ ہر نوع حیوانی کی خصوصیات علیحدہ ہوتی ہیں اور کسی خارجی قوت نے اسے دی ہوتی ہیں جبکہ نوع انسانی بالکل ایک علیحدہ نوعیت اور خصوصیات کی حامل ہے اور یہ خصوصیات اسے بعض مخصوص مقاصد کے لیے اللہ کی قوت نے دی ہیں۔ فتبرک اللہ احسن الخلقین (23 : 14) ” بس بڑا ہی با برکت ہے اللہ ، سب کا کاریگروں سے اچھا کاریگر “۔ جس نے انسان کے جنین کے اندر یہ صلاحیت رکھی ہے وہ اس انداز نشونما کے مطابق ایک خود کار نظام کے مطابق آگے برھتا ہے۔ ایک نہایت ہی پچیدہ سنت الیہ کے مطا بق جس کے اندر کوئی تبدیلی نہیں آئی اور نہ اس کے مراحل میں سے مرحلہ حذف ہوتا ہے یہاں تک کہ انسان ترقی و کمال مقررہ درجہ کمال تک پہنچ جاتا ہے ۔ لوگ سائنس کے انکشافات کو معجزہ قرار دیتے ہیں اور ان کو سن سن کر تعجب کا اظہار کرتے ہیں۔ خصوصا جب انسان ایک ایسا آلہ یا مشین تیار کرتا ہے جو خود کار طریقے کے مطابق چلتا ہے اور انسان کی مداخلت کے بغیر کام کرتا ہے ۔ کیا یہ لوگ اس جنین کو نہیں دیکھتے کہ یہ نہایت ہی خود کار طریقے کے مطابق اپنے مختلف مراحل طے کرتا چلا جاتا ہے۔ بظاہر ان مراحل سے گزرنے میں اسے گزارنے والا نظر نہیں آتا ۔ جب ایک مرحلے سے دوسرے مرحلے میں داخل ہوتا ہے تو اس کی ماہیت میں بھی مکمل تبدیلی آجاتی ہے۔ پھر نظر آتا ہے کہ ان دونوں مراحل میں اس کے اندر ایک تبدیلی آگئی ہے۔ لوگ رات دن ان تغیرات اور واقعات کو دیکھتے ہیں لیکن اپنی آنکھیں بند کرکے چلے جاتے ہیں ، ان کے دل و دماغ اس عظیم خود کار نظام پر غور نہیں کرتے۔ یہ کیوں ؟ اس لیے کہ ہم اس نظام کے عادی ہوگئے ہیں حالانکہ یہ اپنی جگہ حیرت انگیز نظام ہے۔ محض انسان کی اس پچیدہ تخلیق پر غور و فکر ہی انسان کی ہدایت کے لیے کافی ہے جس کی تمام خصوصیات ، تمام خدوخال ، اس چھوٹے نکتے کے اندر موجود ہوتے ہیں جو اس قدر چھو ٹا ہوتا ہے کہ انسان خوردبین کے بغیرا سے دیکھ نہیں سکتا ۔ یہ تمام خصوصیات اور تمام خدو خال آہستہ آہستہ بڑھتے ہیں اور اپنے مختلف مراحل طے کرتے ہوئے پھر ہماری نظروں میں آجاتے ہیں ۔ جب انسان بچے کی صورت میں ہوتا ہے تو انسان کے انسانی خصائص نمودار ہونا شروع ہوجاتے ہیں ۔ پھر ہر بچہ عام انسانی خصائص کے ساتھ ساتھ اپنے والدین کی مخصوص خصوصیات کو بھی وراثت میں پاتا ہے اور یہ دونوں قسم کی خصوصیات اس چھوٹے سے نکتے کے اندر مرکوز ہوتی ہیں۔ غرض یہ عمل جو رات اور دن ہمارے درمیان اور ہمارے سامنے قدرت دہراتی ہے ، انسان کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے اور انسانی غورو فکر کے لیے اس میں عظیم مواد موجود ہے۔ اب سیاق کلام ایک قدم اور آگے بڑھتا ہے تاکہ زندگی کے اس سفر کو انتہا تک پہنچا دے ۔ اب زندگی کے ایک نئے مرحلے کا ذکر ہوتا ہے ۔ کیونکہ یہ زندگی جس کی تخلیق اس متی سے کی گئی ہے اس دنیا ہی میں ختم نہیں ہوجاتی کیونکہ یہ صرف مٹنی نہیں ہے بلکہ اس میں روح کا آمیزہ کیا گیا ہے ، لہذا اس کو اس سے بھی آگے بڑھنا ہے۔ اس زندگی میں چونکہ عالم بالا کی طرف سے روح پھونکی گئی ہے اس لیے اس کا آخری منزل یہی جسمانی منزل نہیں ہے ۔ خون اور گوشت کی اس قریبی منزل سے آگے اور جہان بھی ہیں ۔ چناچہ زندگی کا آخری مرحلہ سامنے آتا ہے۔
Top