Fi-Zilal-al-Quran - An-Naml : 32
قَالَتْ یٰۤاَیُّهَا الْمَلَؤُا اَفْتُوْنِیْ فِیْۤ اَمْرِیْ١ۚ مَا كُنْتُ قَاطِعَةً اَمْرًا حَتّٰى تَشْهَدُوْنِ
قَالَتْ : وہ بولی يٰٓاَيُّهَا الْمَلَؤُا : اے سردارو ! اَفْتُوْنِيْ : مجھے رائے دو فِيْٓ اَمْرِيْ : میرے معاملے میں مَا كُنْتُ : میں نہیں ہوں قَاطِعَةً : فیصلہ کرنے والی اَمْرًا : کسی معاملہ میں حَتّٰى : جب تک تَشْهَدُوْنِ : تم موجود ہو
”(خط سنا کر) ملکہ نے کہا ” اے سرداران قوم ، میرے اس معاملے میں مجھ یمشورہ دو ، میں کسی معاملہ کا فیصلہ تمہارے بغیر نہیں کرتی ہوں۔ “
قالت ……تشھدون (23) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ملکہ سبا کس قدر ہوشیار عورت ہے اس نے اس خط کو لیا جبکہ اس کے پھینکنے والے کا کوئی پتہ نہیں ہے۔ خط سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دو ٹوک ہے اور جس نے لکھا ہے وہ کوئی سپرطاقت ہے۔ یہ تاثر اس نے اپنے اہل حل و عقد کے ذہنوں میں یوں منتقل کیا کہ اس نے اسے ایک اہم کھلا اور کتاب کریم کہا۔ اس سے معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ مکلہ مقابلہ کرنا نہیں چاہتی لیکن وہ بصراحت اس کا اظہار بھی نہیں کرتی۔ بطور تمہید کہہ دیتی ہے۔ پھر رائے طلب کرتی ہے اور حاشیہ نشینوں کا جواب آتا ہے۔ وہ حسب عادت یہی کہتے ہیں کہ حکم کیجیے ہم تیار ہیں۔ طاقتور ہیں لیکن بہرحال فیصلہ بدست حضور ہے !
Top