Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Fi-Zilal-al-Quran - Aal-i-Imraan : 16
اَلَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَاۤ اِنَّنَاۤ اٰمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوْبَنَا وَ قِنَا عَذَابَ النَّارِۚ
اَلَّذِيْنَ
: جو لوگ
يَقُوْلُوْنَ
: کہتے ہیں
رَبَّنَآ
: اے ہمارے رب
اِنَّنَآ
: بیشک ہم
اٰمَنَّا
: ایمان لائے
فَاغْفِرْ
: سو بخشدے
لَنَا
: ہمیں
ذُنُوْبَنَا
: ہمارے گناہ
وَقِنَا
: اور ہمیں بچا
عَذَابَ
: عذاب
النَّارِ
: دوزخ
یہ وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں مالک ! ہم ایمان لائے ہماری خطاؤں سے درگزر فرما اور ہمیں آتش دوزخ سے بچا۔
یہاں اب اللہ تعالیٰ ‘ اپنے خاص بندوں کی صفات گنواتے ہیں ‘ یہ کہ اب آپ کے ساتھ ان کا تعلق کیسا ہوتا ہے۔ اور وہ کیا اعمال ہوتے ہیں جن کی بناء بندے جنتوں کے انعامات کے مستحق ہوجاتے ہیں ۔ ان کی دعاؤں میں ان کے منہ سے جو بات نکلتی ہے وہ ان کے تقویٰ اور اللہ خوفی کا نتیجہ ہوتی ہے وہ اللہ سے ڈر کر پہلے ایمان کا اعلان کرتے ہیں ۔ پھر ایمان کو عنداللہ اپنا شفیع بناتے ہیں اور مغفرت طلب کرتے ہیں اور اپنے آپ کو آگ سے بچاتے ہیں ۔ ان کی تمام صفات میں سے ‘ انسانی زندگی کی اقدار میں سے ایک اعلیٰ قدر کا ذکر ہے ۔ خصوصاً جماعت مسلمہ کے لئے ان اقدار کی بہت اہمیت ہے ۔ وہ صبر کرنے والے ہیں ‘ صبر میں انسان ہر رنج والم کو برداشت کرتا ہے ۔ اور دعوت اسلامی کی راہ میں جو بھی مشکلادرپیش ہوں ان پر ثابت قدم رہتا ہے۔ دعوت اسلامی کی راہ میں اپنے فرائض سر انجام دیتا ہے ۔ وہ اللہ کے سامنے تسلیم ورضا کا پیکر بن جاتا ہے اور حالات اس پر مصائب کے جو پہاڑ بھی توڑیں وہ اللہ کے حکم پر راضی برضا ہوتا ہے۔ وہ سچے ہیں ۔ اس لئے کہ سچائی اس کائنات کی بنیاد ہے ۔ سچائی کا دامن تھام کر وہ عام لوگوں سے اونچے ہوجاتے ہیں ۔ جھوٹ کا خلاصہ یہ ہوتا ہے کہ انسان کسی فائدے کے لئے یا کسی ضرر سے بچنے کے لئے سچائی چھوڑ دیتا ہے۔ اور فرمان بردار ہیں ‘ یوں حق الوہیت ادا کرتے ہیں اور اپنی جانب سے واجبات بندگی پر کاربند ہوتے ہیں ۔ اور صرف اللہ کی بندگی کرتے ہیں جس کے سوا اور کسی کی بندگی ان کے تصور حیات میں نہیں ہے ۔ انفاق فی سبیل اللہ کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ انسان دولت کے ہاتھوں ذلیل نہیں ہوتا ۔ اور اسے بخل سے نجات ملتی ہے ۔ اور انفاق کرکے ایک شخص عملاً انسانی اخوت کو ذاتی خواہش اور لذت پر ترجیح دیتا ہے اور وہ ایسے اجتماعی تحفظ کی فضا پیدا کرتا ہے جو سب انسانوں کے لئے خوشگوار ہو۔ اور رات کے آخری پہر میں استغفار تو ایک ایسا مقام ہے ‘ جہاں گھنی اور خوشگوار چھاؤں ‘ جس کی فضا تروتازہ ہے اور لفظ ” اسْحَارِ “ تو اس خاص وقت یعنی طلوع فجر سے قدرے پہلے ایسی خوشگوار اور پرسکون تصویر کشی کرتا ہے جو اپنی جگہ لاجواب ہے۔ یہ ایک ایسا وقت ہوتا ہے جب کائنات نہایت ہی پرسکون ہوتی ‘ فضا صاف ہوتی ہے ‘ اس وقت نفس انسانی کے روحانی تصورات جاگ اٹھتے ہیں ۔ اچھے خیالات کا ذہن وقلب پر القاء ہوتا ہے ۔ اس پرکیف فضا میں جب انسان کی جانب سے بارگاہ الٰہی میں استغفار ہورہا ہو ‘ تو پھر اس کا پرتو بھی نفس انسانی پر نہایت ہی روحانی اثرات ڈالتا ہے ۔ اس وقت انسان کی روح اور اس کائنات کی روح رب کائنات اور خالق انسان کے سامنے ہم سبق اور ہم سمت ہوجاتی ہیں۔ ایسے صابروں ‘ ایسے صداقت شعاروں ‘ ایسے ہی اطاعت گزاروں ‘ ایسے ہی دولت نثاروں اور ایسے بخشش کے طلبگاروں کا یہ حق ہوتا ہے کہ اللہ کی رضامندی ان کا استقبال کرے اس لئے کہ وہ اس کے مستحق ہوتے ہیں ۔ اس لئے کہ اللہ کی رحمت کی چھاؤں گھنی ہوتی ہے ۔ اور اس کا پھل تروتازہ ہوتا ہے۔ اور وہ ہر لذت اور ہر شہوت سے اپنے اندر زیادہ مٹھاس رکھتی ہے ۔ اگر ذوق سلیم ہو۔ یوں قرآن کریم ‘ اس زمین کے اوپر سے اسے مخلوق ارضی سمجھتے ہوئے ‘ نفس انسانی کی راہنمائی شروع کرتا ہے۔ آہستہ آہستہ اسے بلند کرتا ہے اور اسے ایک بلند افق پر ملاء اعلیٰ کی روشنیوں تک لے جاتا ہے ‘ اور یہ عمل بڑے آرام سے ‘ بڑی تسلی سے ‘ بڑی نرمی اور شفقت سے وقوع پذیر ہوتا ہے ۔ اس روحانی ترقی میں انسان کی فطرت اور اس کے فطری میلانات کو پوری طرح مدنظر رکھا جاتا ہے۔ اس میں اس کی جسمانی کمزوریوں اور ناتوانیوں کا بھی خیال رکھا جاتا ہے ۔ اس محبت اور اس کے شوق کو بھی جوش دلایا جاتا ہے۔ اور اس میں کسی فطری جذبے کی بیخٰ کنی نہیں کی جاتی اور نہ ہی اسے کسی کام پر مجبور کیا جاتا ہے ۔ اس مہم کے دوران عام زندگی رواں دواں رہتی ہے۔ اس میں تعطل نہیں پیدا کیا جاتا۔ یہ ہے فطرت اللہ ‘ یہ ہے اللہ کا نظام حیات ‘ اس فطرت کے لئے اور اللہ اپنے بندوں کے حال سے اچھی طرح خبردار ہے وَاللَّهُ بَصِيرٌ بِالْعِبَادِ ! ٭………٭………٭………٭………٭ یہاں تک تو اس سورت کا ہدف یہ تھا کہ عقیدہ توحید کو نکھار کر رکھ دیاجائے۔ یوں کہ اللہ ایک ہے ۔ وہی اس کائنات کو تھامے ہوئے ہے ۔ دنیا میں آنے والے رسول بھی ایک ہیں اور ان کی رسالت بھی ایک ہی اکائی ہے ۔ اور یہ بتایا گیا تھا کہ آیات الٰہی اور افکار الٰہیہ کے بارے میں اصل اہل ایمان کا رویہ کیا ہوتا ہے اور جن لوگوں کے دلوں میں ٹیڑھ ہوتی ہے وہ ان افکار وآیات کتاب کے ساتھ کیا رویہ اختیار کرتے ہیں ۔ انحراف کرنیوالوں کو اپنے انجام بد سے ڈرایا گیا اور اس سلسلے میں ان کی توجہ ماضی اور حال کے منحرفین کے انجام بد کو بطور مثال پیش کیا گیا ۔ اس کے بعد یہ بتایا گیا کہ عقیدہ توحید اور اسلامی نظریہ حیات ایک عام فطری نظام ہے اور اس میں فطری میلانات کا بھی خیال رکھا جاتا ہے ۔ لیکن متقین کی نظر ان سے بلند ہوتی ہے اور وہ ہر وقت اپنے رب کے سامنے گڑگڑاتے ہیں ۔ لیکن اب یہاں سے لیکر اس سبق کے اختتام تک ایک دوسری حقیقت سے ہمیں روشناس کرایا جاتا ہے ۔ اور یہ دوسری حقیقت عقیدہ توحید اور اسلامی نظریہ ٔ حیات کا ایک لازمی نتیجہ ہے ۔ اگر پہلی حقیقت ہے تو دوسری کو بھی موجود ہونا چاہئے ۔ وہ یہ کہ حقیقت توحید کا مصداق اور مظہر ہماری زندگیوں میں ہونا چاہئے ۔ یہ تمام باتیں اس سبق کے آنے والے حصے میں بیان کی گئی ہیں ۔ پہلے حصہ اول کے خلاصے کو پھر ذہن نشین اور مستحضر کیا جاتا ہے تاکہ اس کے نتائج دوسری حقیقت کے ذریعہ مرتب ہوں ‘ اس حصے کا آغاز اس شہادت سے کیا جاتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے ۔ اس عقیدہ کی شہادت فرشتے بھی دیتے آئے ہیں اور اصحاب العلم بھی اس کی تصدیق کرتے آئے ہیں ۔ الٰہ ہونے کے ساتھ ساتھ اللہ قوام بھی ہے یعنی اس کائنات کا نگہبان ‘ اور اس کی قیومیت کا یہ مفہوم ہے کہ وہ اس کائنات اور اس کے اندر انسان دونوں کو عدل کے مطابق چلاتا ہے۔ اور جب یہ بات مسلم ہے کہ اللہ ہی الٰہ اور قیوم ہے تو پھر دوسری بات خود بخود مستلزم ہوجاتی ہے کہ یہ اللہ کی بندگی کا اقرار کریں ۔ یہ بندگی صرف اس کی ہو ‘ اس کا حکم تمام انسانوں کی زندگی میں نازل ہو۔ اس کے مطابق فیصلے ہوں ‘ تمام بندے اللہ کے سامنے سرتسلیم خم کریں۔ اس کے سامنے جھکیں ‘ اس ہستی کی اطاعت کریں جو قیوم ہے ۔ اس کی نازل کردہ کتاب اور اس کے رسول کی سنت پر عمل پیر اہوں۔ اور دوسری حقیقت کا اظہار یوں کیا گیا إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الإسْلام …………… ” اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے ۔ “ اس لئے اللہ اسلام کے سوا کوئی دین قبول نہیں فرماتے ‘ اور اسلام کیا ہے۔ وہ سر تسلیم خم کرنا ‘ اطاعت کرنا ‘ اور ہر معاملے میں اتباع کرنا۔ اس لئے اللہ کے ہاں مقبول دین صرف عقلی تصور نہیں ہے۔ نہ صرف تصدیق بالقلب دین ‘ دین یہ ہے کہ اس تصور حیات اور اس تصدیق ویقین کے تقاضے بھی پورے کئے جائیں اور تقاضے یہ ہیں کہ لوگ اپنے تمام امور میں شریعت کے مطابق فیصلے کریں ۔ اور پھر شریعت جو فیصلہ کرے اسے بطیب خاطر قبول کریں اور اس نظام میں رسول خدا کی اطاعت کریں ۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم بڑے تعجب خیز انداز میں اہل کتاب کے بارے میں اس حقیقت کا اظہار کرتا ہے کہ وہ دعویٰ تو یہ کرتے ہیں کہ وہ اللہ کے دین پر ہیں لیکن ان کارویہ یہ ہے کہ جب انہیں اللہ کی کتاب کی طرف بلایا جاتا ہے کہ آؤ اس کے مطابق فیصلہ کریں تو ان میں سے ایک گروہ رو گردانی کرتا ہے جس سے ان کے دعوائے دین کی قلعی کھل جاتی ہے اور وہ باطل ہوجاتا ہے اللہ کے نزدیک مقبول دین صرف اسلام ہے ‘ اور اسلام بغیر سر تسلیم خم کرنے کے نہیں ہے ۔ اسلام یہ ہے کہ رسول خدا کی اطاعت ہو اور امور زندگی میں فیصلے کتاب اللہ کے مطابق ہوں۔ یہاں کتاب اللہ سے اعراض اور روگردانی کی علت کا ذکر بھی کردیا گیا ہے ‘ اور اس کی ایسی حسی اور واقعی تعبیر کی گئی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ سرے سے دین پر ایمان ہی نہیں رکھتے ۔ اس لئے کہ وہ یوم الحساب کے عدل و انصاف کے تصور پر پوری طرح یقین نہیں رکھتے ۔ وہ اس لئے کہ ان کا خیال تھا ” کہ انہیں دوزخ کی آگ میں صرف چند دن رہنا ہوگا۔ اس لئے کہ وہ اہل کتاب ہیں اور ان کے دین کے معاملے میں انہیں ان عقیدوں نے فریب میں ڈال دیا تھا جو انہوں نے جھوٹے طور گھڑے ہوئے تھے ۔ “ اور یہ ان کے لئے عجیب دھوکہ تھا ‘ غرض اس وقت وہ نہ اہل کتاب ہیں اور نہ اہل دین ہیں ۔ نہ مومن ہیں ‘ کیوں ؟ اس لئے کہ جب انہیں بلایا جاتا ہے کہ آؤ تمہاری کتاب کے مطابق کسی قضئیے کا فیصلہ کریں تو وہ منہ موڑ کر بھاگتے ہیں۔ غرض قرآن کریم اس قطعیت اور جزم کے ساتھ دین کا مفہوم اور دین کی حقیقت یہاں بیان کرتا ہے ۔ اس لئے تمام لوگوں کی جانب سے اب اللہ کے ہاں مقبول دین صرف دین اسلام ہے جو واضح صاف اور قطعی ہے ۔ یعنی دین اسلام اور اسلام کا معنی ہے کتاب اللہ کے مطابق عدالتوں میں فیصلہ کرنا اور اس کے بعد اسے تسلیم کرنا اور اس پر عمل کرنا ۔ اگر کوئی ایسا نہیں کرتا تو وہ دین دار نہیں ہے ۔ وہ مسلم نہیں ہے ۔ اگرچہ وہ دعوائے دین کرے اور دعوائے اسلام کرے ۔ اللہ تعالیٰ دین کی جو حد بیان فرماتے ہیں ‘ جو تعریف کرتے ہیں ‘ جس کی تائید کرتے ہیں وہ وہی ہے جو اوپر ہم نے بیان کیا اور اللہ دین کی تعریف بیان کرنے میں کسی انسان کی خواہش کے تابع نہیں ‘ وہ جس طرح جانتا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ جو شخص کفار کو دوست بناتا ہے ۔ (اور سیاق کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ کفار وہ ہیں جو عدالتوں کے اندر کتاب اللہ کے مطابق فیصلے نہیں کرتے ۔ ) تو اس کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ کوئی تعلق نہ ہوگا۔ “ کسی معاملے میں بھی اللہ سے متعلق نہ ہوگا۔ اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی رابطہ نہ رہا ۔ یعنی صرف اس لئے کہ اس شخص نے کافروں سے دوستی کی ‘ یا کافروں کی نصرت کی یا کافروں سے نصرت طلب کی ۔ اور کافر وہ جو اللہ کی کتاب پر اپنی عدالتوں میں فیصلے نہیں کرتے ۔ اگرچہ زبانی طور پر وہ دعویٰ کریں کہ وہ دین اللہ پر ہیں۔ کفار کی دوستی سے اس قدر سختی سے منع کیا جاتا ہے کہ اگر تم باز نہ آئے تو اس سے تمہارا دین اپنی اساس سے ختم ہوجائے گا اور قرآن کریم اس تنبیہ اور ڈراوے کے ساتھ ساتھ انہیں اچھی طرح سمجھاتا بھی ہے۔ مسلمانوں کو یہ بصیرت دی جاتی ہے کہ وہ اللہ ہی اس پوری کائنات میں اصل متصرف الامور ہے ۔ وہ سردار ہے ۔ اور اسی کے تصرف میں تمام امور ہیں ۔ وہی مالک الملک ہے ۔ وہ جسے چاہتا ہے ملک عطا کرتا ہے جس سے چاہتا ہے ملک لے لیتا ہے ۔ جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے جس سے چاہتا ہے عزت واپس لے لیتا ہے ۔ اور لوگوں کی زندگی کے امور میں اس کا یہ تصرف بھی اس تکوینی تصرف کا ایک حصہ ہے ‘ جو وہ اس کا ئنات کو چلانے کے لئے کرتا ہے ۔ دیکھئے ‘ وہ رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے ۔ وہ مردہ چیزوں سے زندہ چیزوں کو نکالتا ہے اور زندہ چیزوں سے مردہ چیزیں نکالتا ہے ۔ اور یہی اس کا قیام بالعدل ہے ۔ جس کے ساتھ وہ انسانوں کو تھامے ہوئے ہے ۔ اور کائنات کو بھی تھامے ہوئے ہے۔ اس لئے اہل ایمان کو کیا ضرورت ہے کہ وہ اللہ کو چھوڑ کر کفار کے ساتھ دوستیاں قائم کریں ۔ چاہے اہل کفار کی قوت بہت زیادہ ہو ‘ ان کا مال بہت زیادہ ہو اور اولاد بہت زیادہ ہو ۔ اس مکرر اور موکد ڈراوے اور تنبیہ سے اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ اس وقت نوخیز جماعت مسلمہ پر اس نکتے کی اچھی طرح وضاحت نہ ہوئی تھی ۔ اور اس وقت اہل اسلام میں سے بعض لوگوں نے اپنے سابقہ خاندانی ‘ قومی اور اقتصادی روابط بحال رکھے ہوئے تھے ۔ یہ روبط مشرکین مکہ اور یہودیان مدینہ کے ساتھ بیک وقت تھے ، اس لئے دین اسلام کی یہ تفسیر کی گئی اور انہیں اہل کفر کے ساتھ دوستانہ روابط نہ رکھنے کا حکم دیا گیا ۔ نیز اس آیت سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے ‘ دنیا میں انسان کی ظاہری قوتوں کی طرف میلان رکھتا ہے ‘ ان سے متاثر ہوتا ہے ‘ اس لئے انہیں بتایا جاتا ہے کہ اصلی قوت کون ہے ‘ اصلی حقیقت ان لوگوں کی کیا ہے ‘ اور یہ کہ اسلامی نظریہ ٔ حیات کیا ہے ۔ اور اس کے تقاضے کیا ہیں یعنی عملی زندگی میں۔ اور اس سبق کا خاتمہ اس قطعی فیصلے پر ہوتا ہے کہ اسلام اللہ اور رسول کی اطاعت کا نام ہے اور یہ کہ اللہ کی جانب چلنے کا واحد راستہ یہ ہے رسول اللہ کی اطاعت کی جائے ۔ صرف یہ کافی نہیں ہے کہ کلمہ شہادت پر دل سے مجرد یقین کرلیاجائے اور زبان سے اس کا اقرار کرلیا جائے ۔ فرماتے ہیں ” کہہ دیجئے ‘ اگر تم اللہ کو محبوب رکھتے ہو تو میری اطاعت کرو اللہ تمہیں محبوب رکھے گا۔ “ …………… ” کہہ دو ‘ اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو ‘ اگر وہ اس سے منہ پھیریں ‘ تو جان لو کہ اللہ کافروں کے ساتھ محبت نہیں رکھتا۔ “ ……………پس یا تو اتباع ہوگا اور مکمل تابعداری کروگے تو اللہ بھی اسے پسند کرے گا یا پھر کفر ہوگا جسے اللہ نہایت ہی ناپسند کرتا ہے ۔ یہ ہے وہ مقام جس سے ایک مسلمان اور ایک کافر کے راستے جدا ہوتے ہیں ۔ اس سبق کے اس دوسرے حصے پر اب تفصیل سے غور ہوگا۔
Top