Ruh-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 16
اَلَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَاۤ اِنَّنَاۤ اٰمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوْبَنَا وَ قِنَا عَذَابَ النَّارِۚ
اَلَّذِيْنَ : جو لوگ يَقُوْلُوْنَ : کہتے ہیں رَبَّنَآ : اے ہمارے رب اِنَّنَآ : بیشک ہم اٰمَنَّا : ایمان لائے فَاغْفِرْ : سو بخشدے لَنَا : ہمیں ذُنُوْبَنَا : ہمارے گناہ وَقِنَا : اور ہمیں بچا عَذَابَ : عذاب النَّارِ : دوزخ
جو دعا کرتے ہیں اے ہمارے پروردگار ! ہم ایمان لائے پس ہمارے گناہوں کو بخش دے اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا
اَلَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اِنَّنَآ اٰمَنَّا فَاغْفِرْلَنَا ذُنُوْبَنَا وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ ۔ ج اَلصَّابِرِیْنَ وَالصَّادِقِیْنَ وَالْقَانِتِیْنَ وَالْمُنْفِقِیْنَ وَالْمُسْتَغْفِرِیْنَ بِالْاَسْحَارِ ۔ (جو دعا کرتے ہیں اے ہمارے پروردگار ! ہم ایمان لائے پس ہمارے گناہوں کو بخش دے اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا۔ جو صبر کرنے والے ‘ راست باز ‘ فرمانبردار ‘ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے اور اوقاتِ سحر میں مغفرت چاہنے والے ہیں) ( 16 تا 17) اَلَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ ‘ لِلَّذِیْنَ اتَّقَوْا سے بدل ہے۔ گزشتہ آیت کریمہ میں ان لوگوں کو جنت کی نعمتوں کی بشارت دی گئی تھی جو اپنے اندر تقویٰ پیدا کرتے ہیں۔ یعنی وہ دنیا کی بجائے آخرت کو اپنی منزل قرار دیتے ہیں۔ دنیا کو ضرورت سمجھتے اور آخرت کو مقصد قرار دیتے ہیں۔ وہ دنیا کی ایک ایک نعمت سے اس طرح کا تعلق رکھتے ہیں جس سے آخرت کے تعلق کو قوت اور استواری نصیب ہو۔ وہ دنیا کے ہر کام میں اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لیے دخل دیتے ہیں ‘ لیکن وہ کسی کام سے اس طرح جی نہیں لگاتے جو انھیں آخرت سے غافل کر دے۔ وہ اپنے اور دنیوی نعمتوں کے بارے میں وہ تصورات رکھتے ہیں جو تقویٰ پیدا کرنے کا پیش خیمہ ثابت ہوتے ہیں۔ یہ متقی لوگ ہیں جن کے لیے دنیوی نعمتیں بھی ہیں اور آخرت کی نعمتیں بھی۔ لیکن ان کی نگاہ آخرت کی نعمتوں پر ہے۔ دنیا کی نعمتیں ملتی ہیں تو اس پر اللہ کا شکر بجا لاتے ہیں اور بجائے انھیں روک رکھنے کے دوسروں پر دل کھول کر خرچ کرتے ہیں۔ اس تقویٰ کی دعوت کو قبول کرلینے سے جو ان کے اندر بنیادی احساسات جنم لیتے ہیں اور جن کا اظہار ان کی زبانوں سے بار بار ہوتا ہے اور جو احساسات ان کی دعائوں کی صورت اختیار کر جاتے ہیں اس آیت کریمہ میں ان کا ذکر فرمایا گیا ہے کہ متقی لوگ وہ ہیں جب وہ اللہ کے سامنے ہاتھ پھیلاتے ہیں تو سب سے پہلے اس بات کا اقرار اور اظہار کرتے ہیں کہ تقویٰ کی زندگی کے لیے اللہ کے رسول اور اللہ کی کتاب نے جس طرز زندگی کو اختیار کرنے کی دعوت دی تھی ہم اس پر ایمان لے آئے ہیں۔ ہمارے اندر یقین پیدا ہوگیا ہے کہ دنیوی اور اخروی کامیابیوں کے لیے اس دعوت کو قبول کیے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ ہم اللہ کے رسول ﷺ پر ایمان لائے ‘ اس پر نازل ہونے والی کتاب کی حقانیت پر یقین کیا اور اب ہم اپنی زندگی کو اس طریقے پر گزارنا چاہتے ہیں جس کی دعوت اللہ کے رسول ﷺ اور اس کی کتاب نے دی ہے۔ ہماری زندگی کا کوئی فیصلہ اپنی مرضی سے نہیں ‘ بلکہ اللہ کی شریعت کے مطابق ہوگا۔ ہم اسی کے مطابق جییں گے اور اسی کی سر بلندی اور توانائی کے لیے جان دینی پڑی تو دینے سے گریز نہیں کریں گے۔ ہم اس حقیقت کو پا گئے ہیں کہ زندگی اللہ کی نعمت اور اس کی امانت ہے۔ اس کے ایک ایک لمحے اور ایک ایک عمل کے بارے میں آخرت میں جوابدہی کرنا پڑے گی۔ اس لیے ہم اپنی زندگی کو عیش و عشرت میں نہیں بلکہ آخرت کی تیاری کے لیے گزارنا چاہتے ہیں۔ اور یہ بھی ہمیں معلوم ہے کہ زندگی کی اس شاہراہ پر آدمی ہزار احتیاط سے چلے کہیں نہ کہیں ٹھوکر کھا جاتا ہے۔ کہیں دماغ کے فیصلے غلطی کر جاتے ہیں ‘ کہیں دل کے احساسات میں گناہ کی آلودگی شامل ہوجاتی ہے اور کہیں آدمی تعلقات کی دنیا میں ہوس اور حرص کا شکار ہوجاتا ہے۔ محبت اور نفرت کے جذبات ہماری طبیعت میں گندھے ہوئے ہیں۔ کہیں کہیں ان کی گرفت راہ اعتدال سے ہٹا دیتی ہے۔ بنابریں ہر وقت اس بات کا امکان ہے کہ ہم کسی لغزش کا شکار ہوں ‘ ہم سے کسی گناہ کا صدور ہوجائے ‘ اس لیے ہم ہزار احتیاط کے ساتھ ساتھ اللہ کے سامنے اپنے گناہوں کا اقرار کرتے ہیں اور اس سے گناہوں کی بخشش کے طلب گار ہوتے ہیں اور اس سے دعا کرتے ہیں کہ یا اللہ ! ہمارے وہ گناہ جنھیں ہم نے دانستہ کیا اور وہ گناہ جو نادانستگی میں ہم سے ہوگئے ‘ سب کی مغفرت فرما۔ ہم اگر کسی نیکی کا موقع پالیتے ہیں تو اسے ہم اپنی ہمت کا نتیجہ قرار نہیں دیتے بلکہ یہ سمجھتے ہیں کہ کوئی سی نیکی بھی اس کی توفیق کے بغیر ممکن نہیں ہوتی۔ گناہوں سے بچائو بھی اسی کی توفیق سے ہوتا ہے اور نیکی کا صدور بھی اسی کی توفیق سے ہوتا ہے۔ ہمیں یہ بھی احساس ہے کہ بعض دفعہ نیکی کا پندار انسان کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ بن جاتا ہے۔ اس لیے ہم اس سے بھی اللہ سے مغفرت چاہتے ہیں کہ ہمارے اندر نیکی کا پندار پیدا ہوجائے۔ یہ متقی لوگ جنھیں اللہ نے جنت کی نعمتوں کا سزاوار ٹھہرایا ہے ایمان اور استغفار کی دولت کے باوجود کبھی اس بات سے بیخبر نہیں ہوتے کہ آدمی ہزار نیکیاں کرے ‘ اللہ سے ہزار استغفار کرے ‘ لیکن اسے کبھی یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ میرے اعمالِ صالحہ اللہ کے یہاں بخشش کے لیے کافی ہوں گے۔ یہ صحیح ہے کہ ایمان و عمل کے بغیر بخشش کا کوئی اور ذریعہ نہیں ‘ اس لیے ہر بندہ خدا کے لیے ایمان وعمل کے راستے میں زیادہ سے زیادہ جان مارنا اور محنت کرنا ضروری ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایک مومن کے تمام تر اخلاص کے باوجود یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس کا عمل اللہ کی بارگاہ میں قبولیت کا سزاوار ٹھہرا ہے۔ وہ بار گاہ اتنی عظیم ہے اور اس کے تقاضے اس قدر نازک ہیں کہ انھیں دیکھتے ہوئے کوئی سا انسانی عمل بھی حتمی قبولیت کا دعویٰ نہیں کرسکتا۔ اس لیے وہ متقی لوگ اپنی اس کمزوری کو جانتے ہوئے ہمیشہ اللہ کے سامنے ہاتھ پھیلائے رکھتے ہیں کہ یا اللہ ! جو ہم سے بن پڑا وہ ہم نے کیا ‘ لیکن ہم ارادوں کی لغزشوں ‘ نیتوں کے فساد اور عمل کی نارسائیوں سے محفوظ نہیں ہیں۔ اس لیے ہمیں اپنے ایمان و عمل پر ہرگز بھروسہ نہیں۔ بھروسہ اگر ہے تو تیرے فضل و کرم پر ہے۔ اس لیے تیرے فضل و کرم کے حوالے سے درخواست گزار ہیں کہ ہمیں جہنم کے عذاب سے محفوظ رکھنا۔ اس آیت میں بیان کردہ یہ تین باتیں ایک متقی کی زندگی کا اصل اثاثہ ہیں۔ یہی وہ بنیاد ہیں جس کے نتیجے میں وہ اوصاف اور خصائص پیدا ہوتے ہیں جس کا ذکر دوسری آیت کریمہ میں فرمایا گیا ہے۔ اس لیے ان تین باتوں کو ہر وقت مستحضر رکھنا ایک مومن کے لیے ضروری ہے۔ وہ ہر وقت اپنے ایمان کا جائزہ لیتا رہے کہ دین کی بنیادی باتوں اور رسول اللہ ﷺ کی بنیادی دعوت کے بارے میں اس کے ایمان میں کوئی کمزوری تو نہیں۔ وہ کہیں شک و ارتیاب کا مریض تو نہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ اپنی دینی ذمہ داریوں کو ادا کرتے ہوئے اسے یقین کی قوت سے محرومی کا احساس ہو اور دوسری یہ بات کہ وہ اللہ کی شریعت پر عمل کرتے ہوئے کہیں اس بات کو کافی تو نہیں سمجھتا کہ بس فرض کی ادائیگی کسی طرح بھی ہوجائے وہ میرے لیے کافی ہے۔ اگر ایسا ہے تو اسے سمجھ لینا چاہیے کہ وہ تقویٰ کی زندگی سے بہت دور ہے۔ تقویٰ حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ایمان کی پختگی کے ساتھ ساتھ عمل کی آمادگی بھی پیدا ہو اور عمل کی ادائیگی اس جذبہ کے ساتھ ہو کہ کسی نہایت پر پہنچ کر بھی اسے کبھی قرار نہ آئے۔ وہ ہمیشہ خوب سے خوب تر کی تلاش میں رہے اور اپنی ساری کوششوں کو صرف کرنے کے بعد بھی اس خوش فہمی میں کبھی مبتلا نہ ہو کہ میں ہر طرح کے گناہ سے بچ نکلا ہوں بلکہ اسے ہمیشہ اللہ سے اپنے گناہوں کی مغفرت مانگتے رہنا چاہیے اور تیسری یہ بات کہ وہ جیسے جیسے نیکی اور تقویٰ میں آگے بڑھتا جائے ویسے ویسے اس کے اندر یہ تصور اترتا چلا جائے کہ یہ نیکی کا عمل میری ہمت کا نتیجہ نہیں بلکہ یہ سراسر اللہ کی دین اور اس کی توفیق ہے۔ میرا دل و دماغ اسی کے قبضے میں ہے۔ میرے عمل کی کاوشیں بھی اسی کی عطا ہیں۔ وہ اگر نہ چاہے تو میں کوئی سی نیکی نہیں کرسکتا۔ وہ نیکی کرنے سے پہلے اس سے توفیق مانگے اور نیکی کرنے کے بعد اس پر شکر ادا کرے اور اس کی قبولیت کے لیے ہاتھ پھیلا دے۔ ہر وقت اس کا احساس اس طرح رہنا چاہیے ؎ کیا فائدہ فکرِ بیش و کم سے ہوگا ہم کیا ہیں جو کوئی کام ہم سے ہوگا جو ہوا ہوا کرم سے تیرے جو ہوگا ترے کرم سے ہوگا اسی احساس کی شدت کے باعث وہ اللہ سے جہنم سے محفوظ رکھنے کی دعائیں کرتا ہے کیونکہ اصل کامیابی جہنم کی آگ سے بچنا ہے۔ دنیا کی مختصر زندگی جیسے کیسے حالات میں گزر جاتی ہے ‘ لیکن آخرت کی ابدی زندگی میں اس کے لیے دو ہی راستے ہیں ایک جنت کا راستہ جو کامیابی کی صورت میں ملے گا اور دوسرا جہنم کا راستہ جو ناکامی کی صورت میں مقدر ہوجائے گا۔ اس لیے جو شخص جہنم کا سزاوار ٹھہرا اس سے زیادہ بدنصیب اور ناکام کوئی شخص نہیں اور جسے اللہ نے جنت سے نوازا اس کی کامیابی کے کیا کہنے۔ اس لیے قرآن کریم میں دوسری جگہ ارشاد فرمایا گیا ہے : فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَ اُدْخِلَ الْجَنَّۃَ فَقَدْ فَازَ (جو جہنم سے بچا لیا گیا اور جنت میں داخل کردیا گیا وہ کامیاب ٹھہرا) ان بنیادی تصورات سے جو سیرت و کردار وجود میں آتا ہے دوسری آیت کریمہ میں اس کے پانچ بنیادی اوصاف بیان فرمائے گئے ہیں۔ کیونکہ یہی پانچ بنیادی صفات ہیں جن سے باقی صفات وجود میں آتی ہیں۔ یہ پانچ بنیادی صفات حسب ذیل ہیں : صبر… صدق … قنوت … انفاق …استغفار صبر صبر کا معنی رک جانا ‘ اڑ جانا ‘ جم جانا اور ثابت قدم رہنا ہے۔ اسلامی اصطلاح کے طور پر اس کا اطلاق تین باتوں پر ہوتا ہے۔ 1 … صبر علی الطاعاۃ اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن و سنت نے جن باتوں پر ایمان لانے کا حکم دیا ہے انھیں دل کے یقین کے ساتھ اس طرح ماننا کہ کوئی لالچ یا کوئی خوف اس سے ہٹنے پر مجبور نہ کرسکے۔ اسی سے حق پر جزم اور استقامت صبر کے مفہوم میں شامل ہوا ہے۔ توحید کا تصور ہر طرح کے شرک کو ختم کردیتا ہے اور آنحضرت ﷺ پر ایمان ہر طرح کی شخصیت پرستی کی بنیاد اکھاڑ دیتا ہے۔ جبکہ دنیا میں نہ جانے کتنے آستانے ہیں جن پر انسان کو جھکنے پر مجبور کیا جاتا ہے اور کتنی شخصیتیں ہیں جن کی پیروی انسان کو لازماً کرنا پڑتی ہے۔ جو شخص اللہ کی توحید پر ایمان لاتا ہے اور رسول اللہ ﷺ کی رسالت کو مانتا ہے وہ گویا پوری دنیا کو چیلنج کرتا ہے کہ میں اللہ کی کبریائی کے سوا کسی بڑائی کو تسلیم نہیں کرتا اور رسول ﷺ کے سوا نہ کسی کو آئیڈیل سمجھتا ہوں اور نہ کسی کو اس قابل جانتا ہوں کہ اس کی زندگی ہر طرح کی زندگیوں کے لیے نمونہ اور اسوہ بن سکے اور نہ میں کسی ایسے شخص کو تسلیم کرتا ہوں جو اپنی عصمت کا دعویٰ کرے۔ ان دو باتوں کو سامنے رکھتے ہوئے ذہن پر زور ڈالیے کہ بظاہر تو یہ دونوں باتیں بڑی سادہ سی ہیں ‘ لیکن درحقیقت پوری دنیا سے لڑائی مول لینے کے مترادف ہیں۔ جو شخص بھی یہ راستہ اختیار کرے گا اسے قدم قدم پر ہر بڑائی کے دعویدار سے تصادم کی نوبت آئے گی۔ ہر آستانہ اسے جھکنے کے لیے پکارے گا ‘ ہر تخت اس کے سر کو کچل دینا چاہے گا ‘ ہر قانون اس سے اپنی اطاعت کروانے کی کوشش کرے گا۔ اسی طرح کتنے سیاسی لیڈر ‘ کتنے مشیخیت کے دعویدار ‘ کتنے برادریوں کے چودھری اور و ڈیرے اسے اپنے رسم و رواج اور طریقوں پر چلانے کی کوشش کریں گے۔ یہ اگر ان کی بات ماننے سے انکار کرے گا تو یا تو اسے توڑ دیا جائے گا اور یا اسے کاٹ کر پھینک دیا جائے گا۔ صبر علی الطاعاۃ میں دوسری چیز اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت ہے۔ جو شخص ان دونوں اطاعتوں کے سوا ہر اطاعت سے انکار کرتا ہے ‘ اسے کوئی بھی متمدن ملک جس کا اپنا ایک وضعی قانون ہے برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ ایسے شخص پر یا تو بغاوت کا مقدمہ چلے گا اور یا اسے ملک چھوڑ کر پہاڑوں کی راہ لینی پڑے گی۔ یہ ایک جانگسل مرحلہ ہے ‘ جس سے گزرنا اور ثابت قدمی کا ثبوت دینا سب سے بڑا صبر ہے۔ 2 … صبر عن المعصیات صبر کا اطلاق صبر عن المعصیات پر بھی ہوتا ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ ہر شخص میں اللہ تعالیٰ نے ایک نفس امارہ رکھا ہے جو اسے قدم قدم پر گناہوں کی ترغیب دیتا ہے۔ مزید اس کے اندر خواہشات اور آرزوئیں رکھی ہیں جو ہر وقت اس کے سامنے نئے نئے جال بچھاتی رہتی ہیں۔ کبھی اسے شکم پروری کی دعوت دیتی ہیں ‘ کبھی اسے جنسی مریض بنا دیتی ہیں ‘ کبھی شہرت و نمود کی خاطر اس سے دکھاوے کے کام کرواتی ہیں ‘ کبھی اپنے سر پر کلغی سجانے کے لیے ظلم کے راستے کھولتی ہیں۔ جو شخص اللہ پر ایمان لایا اور آنحضرت ﷺ کو رسول مان چکا ہے اس کی خواہشات قدم قدم پر اسے شریعت کی پابندی سے ہٹاتی اور گناہوں پر اکساتی ہیں۔ اس طرح کے تمام بہلاو وں اور اکساو وں کے مقابلے میں اللہ کا فرمانبردار بندہ بن کر زندگی گزارنا اور کسی خواہش کو خاطر میں نہ لانا ‘ یہ وہ صبر ہے جسے صبر عن المعصیات کہا جاتا ہے۔ 3 … صبر علی المصائب جو شخص بھی ایمان کے تقاضوں اور شریعت کے احکام کے مطابق زندگی گزارنے کی کوشش کرے گا یہ ناممکن ہے کہ اسے مصائب کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ کبھی اسے غربت سے واسطہ پڑے گا ‘ کبھی بیماری سے ‘ کبھی مخالفت کی چند در چند صورتیں اسے ہراساں کرنے کے لیے آگے بڑھیں گی ‘ معاشرے کا ہر فرد اسے نگل جانا چاہے گا ‘ حالات اس کے لیے ناقابل برداشت ہوتے جائیں گے۔ ایسی صورت حال میں امکان کی حد تک موقف حق پر جمے رہنا ‘ دل کو مایوسی اور گھبراہٹ سے، زبان کو شکوہ تقدیر سے اور اپنی گردن کو کسی باطل کے آگے جھکنے سے بچائے رکھنا ‘ یہ وہ صبر ہے جو ایک مومن مصیبتوں کے مقابلے میں کرتا ہے۔ اسی سے اس کے اندر وہ مضبوط کردار جنم لیتا ہے جسے کسی صورت بھی جھکایا نہیں جاسکتا اور یہی ایک مومن کے لیے ہر طرح کے حالات میں سب سے بڑا ہتھیار ہے اور اسی کے نتیجے میں اللہ کی تائید و نصرت مومن کو نصیب ہوتی ہے۔ صدق ان پانچ صفات میں سے دوسری صفت صدق ہے۔ اس کا معنی تو کسی شے کا مطابقِ واقعہ ہونا ہے۔ اگر ایک شخص ایک ایسی بات کہے جو واقعہ کے خلاف ہو تو ہر شخص کہے گا کہ اس نے جھوٹ بولا ہے۔ لیکن اگر اس کی بات واقعہ کے مطابق ہو تو اسے صدق قرار دیا جائے گا لیکن شریعت کی زبان میں صرف یہی بات کافی نہیں۔ یقینا یہ بات تو ضروری ہے کہ ایک مومن کبھی خلاف واقعہ بات نہ کہے۔ غلط فہمی اور بات ہے ‘ جان بوجھ کر ایسا کہنا دروغ گوئی ہے۔ لیکن بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص جو بات کہتا ہے وہ واقعہ کے مطابق تو ہے لیکن اس کے دل کے مطابق نہیں۔ دل میں کچھ اور ہے اور زبان پر کچھ اور۔ جس طرح قرآن کریم میں سورة المنافقون میں فرمایا گیا : ( اے پیغمبر ! جب منافق آپ کے پاس آتے ہیں تو وہ آپ سے کہتے ہیں کہ ہم گواہی دیتے ہیں آپ یقینا اللہ کے رسول ہیں اور اللہ جانتا ہے کہ آپ اس کے رسول ہیں ‘ لیکن اللہ گواہی دیتا ہے کہ منافق جھوٹے ہیں) (المنافقون : 1 ) غور فرمایئے ! منافقین نے آنحضرت ﷺ کو اللہ کا رسول قرار دیا۔ یہ ایک ایسی خبر ہے جو واقعہ کے مطابق ہے اور اللہ نے بھی اس کی تصدیق فرمائی۔ لیکن اس سچی خبر کے باوجود اللہ تعالیٰ نے انھیں اس لیے جھوٹا قرار دیا کہ وہ جو بات کہتے ہیں وہ سچ ہونے کے باوجود ان کے دل کے خیالات کے مطابق نہیں۔ یہ دل میں آپ ﷺ کو اللہ کا رسول نہیں سمجھتے ‘ لیکن زبان سے محض منافقانہ اظہار کر رہے ہیں۔ اس لیے وہ سچ بول کر بھی جھوٹے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ سچ کے لیے جس طرح خبر کا مطابقِ واقعہ ہونا ضروری ہے اسی طرح زبان اور دل کا ہم آہنگ ہونا بھی ضروری ہے۔ قول اور عمل میں مطابقت بھی لازمی ہے۔ اس میں ظاہر اور باطن کو ہم رنگ ہونا چاہیے۔ کسی بھی نظریے یا حقیقت کے قبول کرلینے کے بعد جو چیزمضبوط سیرت و کردار کو جنم دیتی ہے وہ قول و فعل اور زبان اور دل کی ہم آہنگی ہے۔ اگر ایک شخص زبان سے کچھ اور کہتا ہے اور دل میں کچھ اور ہے تو اس کے اندر منافقانہ کردار پیدا ہوگا۔ لیکن جو شخص دل اور زبان کو ہم رنگ اور ہم آہنگ رکھتا ہے اس کے اندر ایک ایسا کردار پیدا ہوگا جس میں پختگی، صلابت ‘ استقامت ‘ یک رنگی ‘ یکسانی اور شخصیت کی وحدت ہوگی اور یہی وہ کردار ہے جو کسی بھی نظریے کی عظمت کا محافظ ہوسکتا ہے اور اسی سے انسان کے اندر مصائب کا سامنا کرنے کی جرأت پیدا ہوتی ہے۔ قنوت قنوت کا معنی عموماً اطاعت کیا جاتا ہے۔ لیکن حقیقت میں اس کی اصل روح اللہ جل شانہ کے لیے تواضع اور تذلل ہے۔ جیسے جیسے دل میں اللہ کی کبریائی ‘ اس کی ہیبت اور عظمت اترتی جاتی ہے اور اس کی نعمتوں کا شعور دل میں جگہ بناتا جاتا ہے ویسے ویسے ایک بندہ مومن کا دل اپنے اللہ کے سامنے عاجز ہوتا جاتا ہے۔ وہ سرتاپا عجز و انکسار کی تصویر بن کر اس کی عبادت اور اطاعت کرتا ہے پھر اسی کا عکس اس کی چال ڈھال ‘ گفتار و کردار ‘ غرضیکہ ہر چیز میں نمایاں ہوتا ہے۔ اس کے اندر کبھی غرور اور گھمنڈ پیدا نہیں ہوتا کیونکہ غرور ہمیشہ بڑائی کے احساس سے پیدا ہوتا ہے اور جس دل میں اللہ کی بڑائی اتر جاتی ہے وہاں کسی اور بڑائی کا دخل نہیں ہوتا۔ ایسا شخص جس طرح اللہ کا عاجز بندہ بن جاتا ہے اسی طرح وہ انسانی معاشرے میں بھی اپنی عاجزی اور فروتنی کے باعث لوگوں کے لیے سایہ رحمت بن جاتا ہے۔ چھوٹے سے چھوٹا آدمی بھی اسے اپنا بھائی سمجھ کر اسے اپنے لیے سرمایہ سمجھتا ہے اور ایسے ہی افراد پر مشتمل معاشرہ اسلامی معاشرہ کہلانے کا مستحق ہوتا ہے۔ انفاق اس کا معنی اللہ کے راستے میں خرچ کرنا ہے۔ خرچ کرنے کو تو کافر معاشرے کے لوگ بھی خرچ کرتے ہیں ‘ لیکن ایک مومن کے خرچ کرنے اور ان کے خرچ کرنے میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ وہ لوگ شہرت کو حاصل کرنے ‘ اپنے نفس کو موٹا کرنے اور اپنی بڑائی کا صور پھونکنے کے لیے خرچ کرتے ہیں اور خرچ کرتے ہوئے بھی ان کے ذہنوں میں ایک منصوبہ بندی ہوتی ہے کہ اس سے ہم نے کیا کیا فوائد حاصل کرنے ہیں۔ آج کے مسلمان معاشرے میں بھی یہ ساری خرابیاں پیدا ہوچکی ہیں۔ لیکن ایک حقیقی مومن جب خرچ کرتا ہے تو وہ فی سبیل النفس نہیں کرتا بلکہ فی سبیل اللہ کرتا ہے۔ اس کے خرچ کے جذبہ میں چند جذبات گندھے ہوتے ہیں۔ ایک تو یہ جذبہ کہ میں جو مال خرچ کر رہا ہوں ‘ یہ میرا نہیں اللہ کی دین ہے، وہی اس کا حقیقی مالک ہے، میں تو اس مال کا امین ہوں، میں اسے حقداروں تک پہنچا کر دراصل اس امانت کا حق ادا کر رہا ہوں۔ ایسا شخص مال خرچ کرتے ہوئے اس کے سوا اپنے ذہن میں کوئی تصور نہیں رکھتا کہ میں اس کے ذریعے اپنے اللہ کو راضی کرنا چاہتا ہوں۔ وہ جب مجھ سے پوچھے گا کہ میں نے تمہیں مال دیا تھا تم نے اسے کیا کیا ؟ تو میں اسی انفاق کو جوابدہی کے لیے بطور دلیل پیش کروں گا۔ دوسرا جذبہ جو اس کے اندر کارفرما ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ اس کی نگاہوں میں حقیقی قدروقیمت ان دنیوی حزف ریزوں کی نہیں ہوتی ‘ بلکہ آخرت کی ابدی زندگی اور اس کی لازوال نعمتوں کی ہوتی ہے۔ اس کا خرچ کرنا بجائے خود اس بات کی دلیل ہے کہ اگر میری نگاہوں میں ان کی حقیقی قدروقیمت ہوتی تو میں انھیں بچا کے رکھتا۔ میں نے انھیں خرچ کر ڈالا ہے اور اس کے ذریعے اس چیز کو حاصل کرلیا ہے جس کی حقیقی قدروقیمت میرے دل میں ہے۔ تیسرا جذبہ اس کے اندر یہ کارفرما ہوتا ہے کہ میں جو اللہ کے راستے میں خرچ کر رہا ہوں تو اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ میں اپنا نقصان کر رہا ہوں کہ میں یہ سوچنے بیٹھ جاؤں کہ آج اگر میں نے اسے خرچ کر ڈالا تو کل جب مجھے ضرورت پڑے گی تو میں اپنی ضرورت کہاں سے پوری کروں گا۔ اسے اس بات کا یقین ہوتا ہے کہ یہ مال میری سعی و کاوش کا نتیجہ نہیں بلکہ اللہ کا فضل ہے۔ اگر میری محنت اور کوشش اس میں شامل ہے تو اس کی ہمت اور توفیق بھی اللہ نے ہی عطا کی ہے اور مزید یہ بات بھی کہ اگر محنت اور کوشش سے ہی مال مل سکتا تو دنیا میں ہر مزدور اور محنت کش سب سے زیادہ مالدار ہوتا۔ وہ اسے خرچ کرتا ہوا برابر یہ بات ذہن میں رکھتا ہے کہ پہلے بھی یہ مال اللہ نے دیا اور پھر بھی وہی عطا کرے گا۔ اس کے ذہن میں آنحضرت ﷺ کا یہ ارشاد مبارک گونجتا رہتا ہے ” بلال خرچ کر اور عرش والے سے تنگی کا شکوہ نہ کر “۔ استغفار استغفار ‘ غفر سے ہے جس کا معنی ” ڈھانپنا “ ہوتا ہے۔ استغفار سے مراد یہ ہے کہ بندہ اپنے رب سے الحاح وزاری اور آہ و بکا سے درخواست کرتا ہے کہ وہ اس کی لغزشوں اور گناہوں پر پردہ ڈالے۔ یہ احساس دراصل اس حیا کا نتیجہ ہے جو ایک مومن کے دل میں اللہ کی بےپایاں نعمتوں کے احساس سے پیدا ہوتا ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ میں از سر تاپا جس کی رحمتوں میں ڈوبا ہوا ہوں ‘ میرا وجود جس کا مرہونِ منت ہے ‘ میری زندگی کے امکانات جس کے عطا کردہ ہیں ‘ میرے وجود کی بقا جس کی رحمت کا نتیجہ ہے ‘ میری غذائیں جس کی ربوبیت کا ثمر ہیں ‘ میرے دل و دماغ کی رعنائیاں جس کی بخشش ہیں کیا میں اسی کے سامنے نافرمانیوں اور گناہوں کی سوغات لے کر جاؤں گا۔ میں کس طرح اس کا سامنا کروں گا اور پھر میں یہ بھی جانتا ہوں کہ وہ ذات عادل ہے۔ اس کے عدل کا تقاضا یہ ہے کہ وہ مجھے گناہوں پر سزا دے۔ کیا میں اس کی سزا کا متحمل ہو سکوں گا ؟ جیسے جیسے یہ احساس پختہ ہوتا جاتا ہے ویسے ویسے اس کی آنکھوں سے آنسوئوں کی برکھا برسنے لگتی ہے۔ خوف سے اس کا دل پگھلنے لگتا ہے۔ تو وہ بےتابانہ اللہ کے دربار میں استغفار کے لیے جھک جاتا ہے۔ اس آیت میں اللہ نے دو مزید کرم فرمائے ہیں۔ ایک تو یہ کہ استغفار کو آخر میں لا کر یہ اشارہ فرمایا ہے کہ تم اللہ سے صبر ‘ صدق ‘ قنوت ‘ اور انفاق کی توفیق مانگو اور اگر اللہ یہ توفیق ارزانی فرما دے تو دیکھنا اس پر قناعت کر کے نہ بیٹھ جانا۔ تم ہزار حسن عمل کا سرمایہ پیدا کرلو یہ کبھی نہ سمجھ لینا کہ تمہارا ہر عمل لغزشوں سے مبرا ہے۔ تمہیں نہیں معلوم کہ خود نیکی کرتے ہوئے تمہارے خیالات میں کہاں کہاں جھول آیا ہے۔ اس لیے ہرحال میں استغفار ہی تمہارا اصل سرمایہ ہے۔ حسن عمل کی پونجی تمہاری اصل دولت ہے لیکن اسے قبولیت کی سند صرف استغفار سے نصیب ہوتی ہے۔ دوسرا کرم یہ فرمایا کہ یہ بھی اشارہ فرما دیا کہ استغفار اور دعائوں کی قبولیت کا وقت کونسا ہے۔ اسحار کا لفظ لاکر اس حقیقت کی طرف رہنمائی فرمائی گئی ہے کہ صبح کا وقت جسے تہجد کا وقت کہا جاتا ہے۔ یہ اللہ کے سامنے گڑگڑانے کا سب سے موزوں وقت ہے۔ یہی وقت ریا جیسی آفت سے محفوظ کہا جاسکتا ہے ‘ اسی وقت میں دلجمعی نصیب ہوتی ہے۔ یہی وقت نفس کو کچلنے کا سب سے اچھا موقع ہے اور یہی وہ وقت ہے جس میں آیات الٰہی میں تفکر و تدبر کی دولت نصیب ہوتی ہے۔ اس لیے جس خوش نصیب کو اس وقت میں استغفار کی دولت نصیب ہوجائے ‘ اسے ہی اصل خوش نصیب کہا جاسکتا ہے۔ ایک اللہ والے نے نہ جانے کس بانکپن میں یہ بات کہی ؎ دولتیں مل گئی ہیں آہوں کی ایسی تیسی میرے گناہوں کی
Top