Fi-Zilal-al-Quran - Al-Haaqqa : 37
لَّا یَاْكُلُهٗۤ اِلَّا الْخَاطِئُوْنَ۠   ۧ
لَّا يَاْكُلُهٗٓ : نہیں خھائیں گے اس کو اِلَّا : مگر الْخَاطِئُوْنَ : خطا کار
جسے خطاکاروں کے سوا کوئی نہیں کھاتا “۔
لا یا ................ الخاطﺅن (96 : 73) ” جسے خطاکاروں کے سوا اور کوئی نہیں کھاتا “۔ گنہگار ، جن کی فطرت میں یہ گناہ رچے بسے ہوں۔ یہ ہیں وہ وجوہات جن کی وجہ سے یہ شخص پکڑے جانے ، طوق پہنائے جانے ، آگ میں جلائے جانے کا مستحق ہو اور اسے اس قدر طویل بیڑیاں پہنائی گئیں۔ جہنم اور اس کے اندر بیڑیاں ، یہ جہنم کے عذاب کے درجات میں سے شدید درجہ ہے۔ یہ تو اس شخص کی حالت ہے جو مساکین کے طعام پر لوگوں کو ابھارتا نہیں ، لیکن اس ” شخص “ کا عذاب تم خود سوچو جو بچوں ، عورتوں اور بوڑھوں کو زندہ رکھتا ہے اور ان کے سر پرستوں کو ناحق سرکشوں اور جباروں کی طرح پکڑتا ہے اور جو ان کے ہاتھ سے لقمے اور کپڑے بھی چھین لیتا ہے اور وہ سخت سردیوں کے اندر ننگے آسمان کے نیچے ہوتے ہیں۔ ایسے ” ڈکٹیٹر “ کہاں جائیں گے جبکہ وہ زمین میں جگہ جگہ پائے جاتے ہیں۔ ذرا سوچ لو ، کہ ان کے لئے اللہ نے کیا تیار کیا ہوگا جبکہ صرف مسکینوں کے کھانے پر لوگوں کو نہ ابھارنے پر یہ شخت سزا رکھی گئی ہے۔ یہ سخت ، اور پرتاثیر منظر اس شدید سورت میں اس لئے لایا گیا کہ یہ ابتدائی ایام کی سورت ہے اور اس وقت عرب سوسائٹی نہایت اجذ اور سخت تھی۔ اور ان کو اسی طرح کے سخت مناظر دکھانے کی ضرورت تھی تاکہ اس سے ذرا خائف ہوجائیں اور اپنی روش میں قدرے نرمی اختیار کریں اور اس شرمندگی سے اپنے آپ کو بچانے کی سعی کریں اور جب بھی انسانیت اس قسم کے مختلف النوع معاشرتی سطح پر ہوتی ہے ، جس میں ایک طرف اس قسم کے سخت اور اجذ لوگ ہوتے ہیں دوسری طرف ایسے لوگوں کے مقابلے میں نرم خو اور اثر لینے والے بھی موجود ہوتے ہیں۔ یعنی جن میں لوگوں کی نفسیاتی حالت مختلف درجات پر ہوتی ہے اس لئے قرآن مجید کے انداز خطاب میں یہ سب لوگ پیش نظر ہوتے ہیں اور دعوت کو اس طرح پیش کیا جاتا ہے کہ اس سے مختلف سطح کے لوگ فائدہ اٹھاسکیں ۔ آج بھی بعض علاقوں میں سنگدل لوگ رہتے ہیں۔ ایسے مزاج کے لوگ بھی ہیں جو نہایت ہی سخت اور ان پر ایسے ہی الفاظ اثر انداز ہوسکتی ہے جو شعلہ بار ہوں ، جس طرح اس سورت میں ہیں۔ وہ ایسے ہی مناظر سے ڈرسکتے ہیں جو اس سورت میں بیان ہوئے ہیں۔ اس قسم کے سخت الفاظ اور سخت مناظر کے زیر سایہ ، جو اس سورت میں مسلسل چلے آرہے ہیں جن میں وہ مناظر بھی ہیں کہ لوگوں کو اس دنیا میں عذاب الٰہی میں گرفتار بتایا گیا ہے اور وہ مناظر بھی ہیں جن میں یہ پوری کائنات اڑتی دکھائی گئی ہے۔ پھر قیامت کے مناظر جہاں تمام انسانوں کو ننگا دکھایا گیا ہے اور وہ مناظر جن میں لوگ خوشی کے مارے اڑتے بھی دکھائے گئے ہیں۔ ان تمام مناظر کے بعد اب ایک نہایت ہی سنجیدہ ، فیصہ کن اور دو ٹوک بات آتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ جو بات کررہے ہیں ، اس کی حقیقت کیا ہے۔ جبکہ یہ لوگ اس میں شک کرتے ہیں۔ اس کا مذاق اڑاتے ہیں اور تکذیب کرتے ہیں۔
Top