Anwar-ul-Bayan - Al-Haaqqa : 37
لَّا یَاْكُلُهٗۤ اِلَّا الْخَاطِئُوْنَ۠   ۧ
لَّا يَاْكُلُهٗٓ : نہیں خھائیں گے اس کو اِلَّا : مگر الْخَاطِئُوْنَ : خطا کار
جس کو گناہ گاروں کے سوا کوئی نہیں کھائیگا
(69:37) لایاکلہ میں ہ ضمیر مفعول واحد مذکر غائب کا مرجع غسلین ہے۔ لایاکلہ الا الخاطئون استثناء مفرغ ہے (یعنی وہ استثناء جس کا مستثنی منہ مذکور نہ ہو) یعنی خطا کاروں کے سوا اس کو کوئی نہ کھائے گا۔ خاطئون : گنہگار، خطا (باب سمع) مصدر۔ (خ ط ء مادہ) بمعنی چوک جانا۔ گناہ کرنا الخطاء کے معنی صحیح جہت سے عدول کرنے کے ہیں۔ اس کی مختلف صورتیں ہیں :۔ (1) کوئی ایسا کام بالا رادہ کرے جس کا ارادہ بھی مناسب نہ ہو۔ یہ خطاء تام ہے جس پر مؤاخذہ ہوگا۔ اس معنی میں فعل خطی یخطأ خطأ بولا جاتا ہے۔ جیسے قرآن مجید میں ہے :۔ ان قتلہم کان کبیرا۔ (17:31) کچھ شک نہیں کہ ان کا مار ڈالنا بڑا سخت جرم ہے (2) امادہ تو اچھا کام کرنے کا ہو لیکن غلطی سے برا کام سرزد ہوجائے۔ اس صورت میں کہا جائے گا اخطأ یخطی، یخطاء فھو مخطیء (باب افعال) (3) غیر مستحسن فعل کا ارادہ کرے لیکن اتفاق سے مستحسن فعل سرزد ہوجائے۔ اس صورت میں فعل تو درست ہے لیکن ارادہ غلط ہے لہٰذا اس کا قصد و مذموم ہوگا مگر فعل بھی قابل ستائش نہیں ہے۔ خاطئون بالارادہ گناہ کرنے والے کو کہتے ہیں خطا سے اسم فاعل کا صیغہ جمع مذکر بالارادہ گناہ کا ارتکاب کرنے والے (المفردات)
Top