Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Fi-Zilal-al-Quran - Al-A'raaf : 72
وَ قَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ اَتَذَرُ مُوْسٰى وَ قَوْمَهٗ لِیُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ وَ یَذَرَكَ وَ اٰلِهَتَكَ١ؕ قَالَ سَنُقَتِّلُ اَبْنَآءَهُمْ وَ نَسْتَحْیٖ نِسَآءَهُمْ١ۚ وَ اِنَّا فَوْقَهُمْ قٰهِرُوْنَ
وَقَالَ
: اور بولے
الْمَلَاُ
: سردار
مِنْ
: سے (کے)
قَوْمِ
: قوم
فِرْعَوْنَ
: فرعون
اَتَذَرُ
: کیا تو چھوڑ رہا ہے
مُوْسٰي
: موسیٰ
وَقَوْمَهٗ
: اور اس کی قوم
لِيُفْسِدُوْا
: تاکہ وہ فساد کریں
فِي
: میں
الْاَرْضِ
: زمین
وَيَذَرَكَ
: اور وہ چھوڑ دے تجھے
وَاٰلِهَتَكَ
: اور تیرے معبود
قَالَ
: اس نے کہا
سَنُقَتِّلُ
: ہم عنقریب قتل کر ڈالیں گے
اَبْنَآءَهُمْ
: ان کے بیٹے
وَنَسْتَحْيٖ
: اور زندہ چھوڑ دینگے
نِسَآءَهُمْ
: ان کی عورتیں (بیٹیاں)
وَاِنَّا
: اور ہم
فَوْقَهُمْ
: ان پر
قٰهِرُوْنَ
: زور آور (جمع)
فرعون سے اس کی قوم کے سرداروں نے کہا " کیا تو موسیٰ اور اس کی قوم کو یوں ہی چھوڑ دے گا کہ ملک میں فساد پھیلائیں اور وہ تیری اور تیرے معبودوں کی بندگی چھوڑ بیٹھیں ؟ " فرعون نے جواب دیا " میں ان کے بیٹوں کو قتل کراؤں گا اور ان کی عورتوں کو جیتا رہنے دوں گا۔ ہمارے اقتدار کی گرفت ان پر مضبوط ہے "
اب اس قصے کا مزید مطالعہ کیجئے۔ پردہ اٹھتا ہے اور ایک جدید اور دوسرا خوبصورت منظر ہماری نگاہوں کے سامنے ہے۔ اس میں کفر کی پارلیمنٹ نظر آتی ہے۔ مشورہ اور نجوہ ہوتا ہے اور کسی سخت اقدام کے لیے ایک دوسرے کو جوش دلایا جاتا ہے۔ پہلے اور کھلے میدان کے معرکے میں کھلی کھلی شکست میں خفت اٹھائے ہوئے اعیان دولت بپھرے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ان کے لیے یہ صورت حالات ناقابل برداشت ہے کہ موسیٰ اور ہارون اس طرح کامیاب و کامران ہوجاء یں۔ اور یہ ایمان لانے والے لوگ بھی مزے مزے سے ان کے ہمرکاب ہوں۔ حالانکہ حضرت موسیٰ پر ایمان لانے والوں میں چند کمزور لوگ شامل تھے اور وہ فرعون سے ہر وقت ڈرتے رہتے تھے کہ کہیں فرعون ان کو فتنے میں نہ ڈال دے۔ جیسا کہ دوسرے مقامات پر قرآن نے تصریح کی ہے۔ یہ پارلیمنٹ سختی کرنے کے بارے میں سوچ رہی ہے۔ یہ لوگ حضرت موسیٰ کے خلاف فرعون کو برانگیختہ کر رہے ہیں اور اسے ڈراتے ہیں کہ اگر اس کے خلاف سخت ایکشن نہ لیا گیا تو نتائج خطرناک ہوں گے۔ حکومت کا رعب جاتا رہے گا۔ جدید خطرناک نظریات پھیل جائیں گے۔ لوگ فرعون کے بجائے اللہ کو رب العالمین سمجھیں گے۔ چناچہ وہ تیار ہوجاتا ہے اور اس کے منہ سے آگ کے شعلے نکل رہے ہیں۔ وہ فیصلہ کردیتا ہے کہ ان لوگوں کے خلاف شدید ایکشن لے اور قوت کا استعمال کرے اور اخلاقی شکست کے بعد پوری مادی قوت استعمال کرے۔ مادی قوت کے مالکان ہمیشہ ایسا ہی کرتے ہیں۔ وَقَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ اَتَذَرُ مُوْسٰي وَقَوْمَهٗ لِيُفْسِدُوْا فِي الْاَرْضِ وَيَذَرَكَ وَاٰلِهَتَكَ ۭقَالَ سَنُقَتِّلُ اَبْنَاۗءَهُمْ وَنَسْتَحْيٖ نِسَاۗءَهُمْ ۚ وَاِنَّا فَوْقَهُمْ قٰهِرُوْنَ ۔ فرعون سے اس کی قوم کے سرداروں نے کہا " کیا تو موسیٰ اور اس کی قوم کو یوں ہی چھوڑ دے گا کہ ملک میں فساد پھیلائیں اور وہ تیری اور تیرے معبودوں کی بندگی چھوڑ بیٹھیں ؟ " فرعون نے جواب دیا " میں ان کے بیٹوں کو قتل کراؤں گا اور ان کی عورتوں کو جیتا رہنے دوں گا۔ ہمارے اقتدار کی گرفت ان پر مضبوط ہے "۔ فرعون کا دعوی یہ نہ تھا کہ وہ اس کائنات کا الہ اور خالق اور اس کائنات کو وہ چلاتا ہے یا یہ کہ اسے اس کائنات کے طبیعی نظام پر قدرت حاصل ہے بلکہ وہ اپنے آپ کو اپنی کمزور پبلک پر الہ اور رب سمجھتا تھا۔ اس معنی میں کہ وہ حاکم اور مقن ہے اور یہ کہ اس کا حکم اور ارادہ قانون ہیں اور ان پر عمل ہوتا ہے اور ہونا چاہیے اور تمام حکام اور بادشاہوں کا بھی یہی دعوی ہوتا ہے کہ ان کا قانون چلتا ہے اور ان کے حکم سے امور طے ہوتے رہیں اور یہی مفہوم ہے ربوبیت کا ازروئے لغت۔ مصر میں لوگ فرعون کی بندگی اس معنی میں نہ کرتے تھے کہ وہ فرعون کی نمازیں پڑھتے تھے یا فرعون کے روزے رکھتے تھے بلکہ ان کے اپنے الہ تھے جس طرح فرعون نے اپنے لیے الہ بنا رکھے تھے اور یہ لوگ ان الہوں کی بندگی بجا لاتے تھے اور اس حقیقت کا اظہار درباریوں کے اس قول سے بھی ہوتا ہے۔ وَيَذَرَكَ وَاٰلِهَتَكَ " تیری اور تیرے معبودوں کی بندگی چھوڑ بیٹھے ہیں " اور یہ حقیقت مصر کی فرعونی تاریخ سے بھی ثابت ہے کہ فرعون کا الہ تھا۔ لہذا فرعون اس معنی میں ان کا رب اور الہ تھا کہ یہ لوگ اس کے اوامرو نواہی کے پابند تھے اور اس کے کسی حکم کی نافرمانی نہ کرسکتے تھے اور نہ اس کے کسی قانون کی خلاف ورزی کرسکتے تھے اور عبادت کا یہی لغوی ، حقیقی اور اصطلاحی مفہوم ہے بلکہ یہی واقعی مفہوم ہے جو شخص کسی انسان کے وضع کردہ قانون کی اطاعت کرے وہ گویا اس کی عبادت کر رہا ہے۔ اور حضور ﷺ نے یہی تشریح فرمائی ہے۔ اتخذوا احبارہم ورھبانہم اربابا من دون اللہ کی تشریح کے بارے میں ایک صحابی عدی ابن حاتم نے حضور ﷺ سے دریافت فرمایا کہ یہ لوگ اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت تو نہ کرتے تھے ؟ تو حضور ﷺ نے فرمایا کہ یہ احبارو رہبان ان کے لیے حلال کو حرام اور حرام کو حلال کرتے تھے اور یہ لوگ اس میں ان کی اطاعت کرتے تھے ، یہی تو ان کی جانب سے ان کی عبادت ہے۔ (ترمذی) رہی یہ بات جو اس نے کہا ما علمت لکم من الہ غیری۔ میرے علم میں تمہارے لیے میرے سوا کوئی الہ نہیں ہے ؟۔ تو اس کی تفسیر خود قرآن نے کردی ہے۔ قرآن نے فرعون کی زبانی یہ بات نقل کردی۔ (الیس لی ملک مصر و ھذہ الانھار تجری من تحتی افلا تبصرون۔ ام انا خیر من ھذا الذی ھو مھین ولا یکاد یبین۔ فلولا القی علیہ اسورۃ من ذھب او جاء معہ الملئکۃ مقترنین) " لوگو کیا مصر کی بادشاہی میری نہیں ہے ؟ اور یہ نہریں میرے نیچے نہیں بہہ رہی ہیں ؟ کیا تم لوگوں کو نظر نہیں آتا کہ میں بہتر ہوں یا یہ شخص جو ذلیل و حقیر ہے اور اپنی بات بھی کھول کر بیان نہیں کرسکتا ؟ کیوں نہ اس پر سونے کے کنگن اتارے گئے یا فرشتوں کا ایک دستہ اس کی (معیت) میں نہ آیا "۔ ظاہر ہے کہ وہ اس میں اپنا اور حضرت موسیٰ کا موازنہ پیش کر رہا تھا۔ اس کے پاس کنگن نہیں ہیں اور میں نے کنگن پہنے ہوئے ہیں یعنی میں بادشاہ ہوں اور زیب وزینت کا مالک ہوں اور موسیٰ کے پاس یہ خوبی نہیں۔ لہذا اس کے اس قول سے مراد یہ ہے کہ میرے سوا تمہارا کوئی حاکم نہیں ہے۔ میں ہی حاکم ہوں اور جس طرح چاہتا ہوں اس مملکت کو چلاتا ہوں اور لوگ میری بات سے سرتابی نہیں کرسکتے اور اس مفہوم میں حاکمیت الوہیت کے مترادف ہے۔ اور فی الحقیقت الوہیت کا مفہوم ہی یہی ہے۔ الہ ہوتا ہی وہ ہے جو لوگوں کے لیے قانون بناتا ہے۔ چاہے وہ الوہیت کا دعوی کرے یا نہ کرے۔ اس تفسیر کے مطابق ہم فرعون کے امراء کے اس قول کو اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں جس میں وہ کہتے ہیں۔ وَقَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ اَتَذَرُ مُوْسٰي وَقَوْمَهٗ لِيُفْسِدُوْا فِي الْاَرْضِ وَيَذَرَكَ وَاٰلِهَتَكَ " فرعون سے اس کی قوم کے سرداروں نے کہا " کیا تو موسیٰ اور اس کی قوم کو یوں ہی چھوڑ دے گا کہ ملک میں فساد پھیلائیں اور وہ تیری اور تیرے معبودوں کی بندگی چھوڑ بیٹھیں۔ ان لوگوں کے نقطہ نظر سے فساد فی الارض یہ ہے کہ انسان اللہ وحدہ کی ربوبیت اور حاکمیت کی طرف لوگوں کو بلائے ، کیونکہ جب کوئی اللہ رب العالمین کو الہ اور حاکم تسلیم کرتا ہے تو اس سے از خود تمام دوسرے نظاموں اور حاکموں کی نفی ہوجاتی ہے۔ کیونکہ فرعونی نظام حاکمیت غیر اللہ کے اصول پر قائم ہوتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ نظام فرعون کی ربوبیت کے اصول پر قائم ہوتا ہے اور یہ شخص اللہ کی ربوبیت کا داعی ہوتا ہے۔ لہذا اب ہر شخص فرعونیوں کی نظروں میں مفسد فی الارض ہوتا ہے۔ وہ باغی اور انقلابی ہوتا ہے اور ملک کے موجودہ قائم حالات کے اندر اکھاڑ پچھاڑ چاہتا ہے۔ اور موجود مستحکم حالات کی جگہ نئے حالات پیدا کرنا چاہتا ہے۔ جن میں ربوبیت اور حاکمیت صرف اللہ کے لیے ہو کسی انسان کو یہ حقوق حاصل نہ ہوں۔ لہذا ان پر یہ الزام عائد کیا گیا کہ یہ مفسدین فی الارض ہیں اور فرعون اور اس کے الہوں کی بندگی کو ترک کرنا چاہتے ہیں۔ دراصل فرعون نے اپنے تمام حقوق اس دین سے اخذ کیے تھے جس کا وہ پیروکار تھا۔ وہ یہ سمجھتا تھا کہ وہ ان الہوں کا محبوب بیٹا ہے اور باپ بیٹے کے جس تعلق کا وہ داعی تھا وہ کوئی حسی اور طبیعی تعلق نہ تھا ، کیونکہ لوگوں کو معلوم تھا کہ فرعون جس ماں باپ سے پیدا ہوا تھا وہ مصری باشندے تھے اور انسان تھے۔ یہ ایک اشاراتی اور رمزی ابنیت تھی جس کے ذریعے وہ اپنے لیھے وہ تمام حقوق حاصل کرتا تھا ، جو اس نے اپنے لیے مخصوص کر رکھے تھے۔ جب موسیٰ اور آپ کی قوم نے رب العالمین کی براہ راست بندگی شروع کردی اور فرعونی الہوں کو ترک کردیا جن کی عبادت مصری لوگ کرتے تھے ، تو اس فعل سے وہ نظریاتی اساس ہی ختم ہوجاتی تھی جس پر فرعون کی مملکت کی تعمیر ہوئی تھی۔ پھر وہ اپنے نظام مملکت میں اپنی قوم کو کچھ حیثیت بھی نہ دیتا تھا اور وہ لوگ بھی اس کی اطاعت کرتے تھے وہ اللہ کے دین سے خارج تھے اور فاسق تھے۔ دوسری جگہ میں ہے (فاستخف قومہ فاطاعوہ۔۔ انہم کانوا قوم فاسقین) " اس نے اپنی قوم کو ہلکا کردیا اور انہوں نے اس کی اطاعت کی۔۔۔ بیشک یہ لوگ فاسق تھے " یہ تاریخ کی صحیح تفسیر ہے۔ اگر فرعون کی قوم ہلکے لوگوں پر مشتمل نہ ہوتی اور فسق و فجور کی عادی نہ ہوتی تو ہر گز فرعون کی اطاعت نہ کرتی۔ اللہ پر جو شخص ایمان لے آتا ہے طاغوت اسے ہلکا نہیں سمجھ سکتا۔ اور نہ کوئی مومن طاغوت کی اطاعت کرسکتا ہے بشرطیکہ مومن یہ جانتا ہو کہ یہ معاملہ شریعت کے خلاف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف سے فرعون اور تمام لوگوں کو رب العالمین کی طرف دعوت دینا ، پھر میدان مبارزت میں جادوگروں کو شکست دینا اور ان کا ایمان لے آنا اور اس کے بعد قوم موسیٰ کی طرف سے رب العالمین پر ایمان لانا اور رب واحد کی عبادت کرنا یہ سب امور ایسے تھے جو فرعون کے نظام حکومت کے لیے نہایت ہی خطرناک تھے اور جہاں بھی کوئی ایسا نظام قائم ہو جس میں انسان انسان کا غلام اور مطیع ہو اور ایسے نظام کے اندر کوئی صرف رب العالمین کی بندگی اور اطاعت کی دعوت شروع کردے تو یہ اس نظام کے لیے چیلنج ہوتا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی شہادت لا الہ الا اللہ کی طرف دعوت دے اور یہ دعوت اس کلمہ کے حقیقی مفہوم کی طرف ہو کہ لوگ پورے پورے اسلام میں داخل ہوجائیں اور یہ مفہوم نہ لیا جائے کہ جزوی طور پر مراسم عبودیت اللہ کے سامنے بجا لائیں تو یہ دعوت کسی بھی موجود نظام کفر کے لیے چیلنج ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فرعون نے اس صورت حالات میں سخت الفاظ میں اس خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے سخت اقدامات کرنے کا اعلان کردیا کیونکہ اس کا پورا نظام مملکت خطرے میں تھا۔ قَالَ سَنُقَتِّلُ اَبْنَاۗءَهُمْ وَنَسْتَحْيٖ نِسَاۗءَهُمْ ۚ وَاِنَّا فَوْقَهُمْ قٰهِرُوْنَ ۔ فرعون نے جواب دیا " میں ان کے بیٹوں کو قتل کراؤں گا اور ان کی عورتوں کو جیتا رہنے دوں گا۔ ہمارے اقتدار کی گرفت ان پر مضبوط ہے " حضرت موسیٰ کی پیدائش کے دور میں بھی بنی اسرائیل کے خلاف نسل کشی کی یہ پالیسی اختیار کی گئی تھی۔ فرعون اور اس کا نظام مملکت ان کے لڑکوں کو قتل کر رہا تھا۔ سورة قصص میں اس کی تفصیلات یوں دی گئی ہیں :۔ ان فرعون علا فی الارض و جعل اھلھا شیعا یستضعف طائفھ منہم یذبح ابناءہم و یستحیی نساءہم انہ کان من المفسدین " واقعہ یہ ہے کہ فرعون نے زمین میں سرکشی کی اور اس کے باشندوں کو گروہوں میں تقسیم کردیا۔ ان میں سے ایک گروہ کو وہ ذلیل کرتا تھا ، اس کے لڑکوں کو قتل کرتا تھا ، اور اس کی لڑکیوں کو جیتا رہنے دیتا تھا۔ فی الواقعہ وہ مفسد لوگوں میں سے تھا "۔ یہ سرکشی ہر دور میں رہتی ہے اور ہر جگہ رہتی ہے۔ آج بھی وہ یہی ذرائع و وسائل اختیار کرتی ہے اور صدیاں پہلے بھی اس کے یہی ذرائع تھے۔
Top