Fi-Zilal-al-Quran - Al-A'raaf : 135
فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْهُمُ الرِّجْزَ اِلٰۤى اَجَلٍ هُمْ بٰلِغُوْهُ اِذَا هُمْ یَنْكُثُوْنَ
فَلَمَّا : پھر جب كَشَفْنَا : ہم نے کھول دیا (اٹھا لیا) عَنْهُمُ : ان سے الرِّجْزَ : عذاب اِلٰٓي اَجَلٍ : ایک مدت تک هُمْ : انہیں بٰلِغُوْهُ : اس تک پہنچنا تھا اِذَا : اس وقت هُمْ : وہ يَنْكُثُوْنَ : (عہد) توڑدیتے
مگر جب ہم ان پر سے اپنا عذاب ایک وقت مقرر تک کے لیے جس کو وہ بہرحال پہنچنے والے تھے ، ہٹا لیتے تھے تو وہ یککت اپنے عہد سے پھر جاتے
سیاق کلام میں ان تمام نشانیوں کو ایک جگہ لایا گیا ، اس طرح کہ گویا بیک وقت ان سب کا ظہور ہوا ، اور ان کے بعد جب اللہ نے ان مشکلات کو رفع فرمایا تو ایک ہی بات فرعونیوں نے بد عہدی کی ، یہ انداز اس لیے اختیار کیا گیا کہ جب بھی کوئی نشانی آئی اور دور ہوئی تو انہوں نے پھر عہد وفا نہ کیا۔ یہ انداز بیان قرآن کے اسالیب میں سے ایک ہے ، چونکہ واقعات ایک ہی جیسے تھے ، اس لیے ایک ہی جگہ ان کے آغاز کی طرف اشارہ کردیا گیا گویا ایک ہی دل کے ساتھ یہ تمام تجربات پیش آئے اور وہ دل اس قدر سخت ہوچکا تھا کہ کسی تجربے نے بھی اس کے اندر راہ نہ پایا۔ اور کسی نے عبرت نہ حاصل کی۔ یہ تمام نشانیاں جن تفصیلات کے ساتھ آتی رہتی ہیں ، قرآن کریم نے ان کا ذکر نہیں کیا۔ احادیث مرفوع میں بھی ان کا تذکرہ نہیں آیا۔ ہم بھی فی ظلال القرآن میں اختیار کیے ہوئے اسلوب کے مطابق ان کو یونہی مجمل چھوڑتے ہیں اس لیے کہ قرآن کی تشریح یا قرآن سے ہوگی یا سنت ثابتہ سے۔ یہ اسلوب ہم نے اسرائیلیت سے بچنے کے لیے اپنایا ہے کیونکہ اسرائیلی روایات بےاصل روایات ہوتی ہیں۔ اس قسم کی اسرائیلی روایات تمام سابقہ تفاسیر کا حصہ بن گئی ہیں۔ کوئی ایسی تفسیر نہیں ہے جو ان سے خالی ہو۔ امام طبری کی تفسیر باوجود اس کے کہ وہ ایک نفیس تفسیر ہے اور نہایت ہی قیمتی تفسیر ہے ، ابن کثیر کی تفسیر باوجود اس کے کہ وہ قابل قدر کی تفسیر ہے ، دونوں اسرائیلیت سے خالی نہیں ہیں۔ اس بارے میں حضرت ابن عباس بہت سے بھی روایات منقول ہیں۔ ابن جریر طبری نے اپنی تاریخ اور تفسیر دونوں میں ذکر کی ہیں اور ان میں سے ایک روایت یہ ہے۔ سعید بن جبیر سے روایت ہے کہ جب موسیٰ فرعون کے دربار میں آئے تو انہوں نے اس سے یہ مطالبہ کیا کہ میرے ساتھ بنی اسرائیل کو بھیج دو ۔ اس نے انکار کردیا۔ تو اللہ نے ان پر طوفان بھیجا ، یعنی سخت بارش ہوئی۔ جب یہ بارش طویل عرصے تک برستی رہی تو یہ لوگ ڈر گئے کہ شاید یہ کوئی عذاب نہ ہو ، اہل فرعون نے حضرت موسیٰ سے عرض کی کہ آپ اپنے خدا کے سامنے سوال کریں کہ وہ اس بارش کو بند کردے۔ اگر یہ بند ہوجائے تو ہم تم پر ایمان لائیں گے اور تمہارے ساتھ بنی اسرائیل کو بھیج دیں گے۔ آپ نے رب تعالیٰ سے دعا کی لیکن وہ ایمان نہ لائے اور نہ ہی بنی اسرائیل کو آپ کے ساتھ بھیجا۔ تو اس سال ان کے ہاں فصلیں ، پھل اور چارہ اس قدر ہوا کہ اس سے قبل نہ ہوا تھا۔ انہوں نے کہا کہ یہی تو ہماری تمنا تھی۔ تو اللہ نے ان پر ٹڈی دل بھیج دیے۔ ٹڈی دلوں نے گھاس کو صاف کردیا۔ جب انہوں نے دیکھا کہ ٹڈی دل نے گھاس کو چاٹ لیا ہے تو اب ظاہر ہے کہ یہ فصل کو بھی نہ چھوڑے گی۔ اب پھر انہوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے درخواست کی کہ آپ رب تعالیٰ سے دست بدعا ہوں کہ ہمیں اس بلا سے نجات ملے۔ اگر نجات مل گئی تو ہم ایمان بھی لائیں گے اور بنی اسرائیل کو تیرے ساتھ بھیج دیں گے۔ اللہ نے ٹڈی دل کو بھی ختم کردیا اور یہ لوگ پھر بھی ایمان نہ لائے اور نہ ہی بنی اسرائیل کو آپ کے ساتھ بھیجا۔ انہوں نے فصل کاتی اور گھروں میں ڈال دی اور کہا اب تو ہم نے فصل گھروں تک پہنچا دی ہے۔ اس پر اللہ نے ان پر سرسریاں پھیلا دیں۔ چناچہ ان میں سے ایک شخص دس پیمانے دانے لے کر پن چکی پر جاتا اور جب آتا واپس ہوتا تو وہ صرف تین پیمانے ہوتا۔ اب پھر انہوں نے حضرت موسیٰ سے درخواست کی کہ اے موسیٰ اللہ سے سوال کریں کہ اگر وہ سرسریوں کو دفع کردیں تو ہم ایمان لائیں گے اور بنی اسرائیل کو تیرے ساتھ بھیج دیں گے۔ حضرت نے دعا کی اور ان سے یہ عذاب بھی دور ہوگیا۔ اب بھی وہ لوگ ایمان نہ لائے اور انہوں نے آپ کے ساتھ بنی اسرائیل کو بھیجنے سے انکار کردیا۔ یوں ہوا کہ حضرت موسیٰ فرعون کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ انہوں نے مینڈک کی آواز سنی۔ حضرت موسیٰ نے فرعون سے کہا " تم اور تمہاری قوم کو اس سے تکلیف پہنچنے والی ہے "۔ فرعون نے کہا کہ یہ مینڈک کیا سازش کرسکتے ہیں ؟ شام ہونے سے پہلے اس قدر مینڈک امنڈ آئے کہ جب کوئی بات کرتا تو منہ میں مینڈک سے گر جاتا ہے۔ اب پھر انہوں نے حضرت موسیٰ سے عرض کی کہ آپ دعا کریں کہ اللہ ہم سے اس عذاب کو دور کرے۔ ہم ایمان لائیں گے اور بنی اسرائیل کو تمہارے ساتھ بھیج دیں گے۔ اللہ نے یہ عذاب بھی دور کردیا۔ لیکن اہل فرعون نہ ایمان لائے اور نہ بنی اسرائیل کو بھیجا۔ اب اللہ نے ان پر خون بھیج دیا۔ اب ان کی نہروں میں ، کنوؤں میں ، برتنوں میں تازہ بہ تازہ خون تھا۔ لوگوں نے فرعون کے پاس شکایت کی کہ اب تو آزمائش کی حد ہوگئی ہے ، ہمارے پینے کے لیے بھی پانی نہیں رہا تو فرعون نے کہا کہ درحقیقت موسیٰ نے جادو کردیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم پر سحر کہاں سے ہوا ، ہمارے برتنوں میں جو پانی تھا وہ بھی تازہ خون ہے۔ اب پھر وہ حضرت موسیٰ کے پاس آئے کہا اے موسیٰ اپنے رب کو پکارو ، اگر یہ عذاب ہم سے دور ہوجائے تو ہم ضرورت تم پر ایمان لائیں گے۔ آپ نے رب تعالیٰ کو پکارا ، اللہ تعالیٰ نے یہ عذاب بھی دور کردیا۔ انہوں نے پھر بھی یہی کیا کہ نہ ایمان لائے اور نہ بنی اسرائیل کو بھیجا "۔ اللہ ہی جانتا ہے کہ کیا واقعات ہوئے ، بہرحال اس حدیث میں جو واقعات ذکر ہوئے وہ قرآن سے متضاد نہیں ہیں۔ یہ عذاب اللہ نے بیشک ان پر نازل کیے تاکہ ان کو آزمائے اور جھٹلانے والوں کے ساتھ اللہ کی روش ایسی ہی ہوتی ہے بار بار آزماتا ہے تاکہ وہ مان جائیں۔ فرعون کی قوم ، اپنی بت پرستی اور جاہلیت کے باوجود اور فرعون کی جانب سے ان پر ظلم و تشدد اور ان کی ذلت و خواری کے باوجود ، حضرت موسیٰ کے دامن میں پناہ لیتی تھی کہ وہ اپنے رب سے سوال کرے ، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کے ساتھ یہ عہد کیا ہوا تھا کہ وہ دعا قبول کرے گا اور آپ یہ دعا کریں کہ ان سے یہ مصیبت دور ہو۔ اگرچہ ، مصر کے حکام وعدہ خلافی کرتے اور ایمان نہ لاتے کیونکہ اس وقت کا نظام حکومت اس نظریہ پہ قائم تھا کہ فرعون ان کا رب اور حاکم ہے۔ یہ لوگ فرعون کی جگہ اللہ کی ربوبیت اور حاکمیت کے قیام سے خوف کھاتے تھے۔ اس لیے کہ وہ سمجھتے تھے کہ موسیٰ پر ایمان لانے کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ فرعون کا نظام حکومت ختم ہوجائے اور ملک کے اندر صرف اللہ کی حاکمیت قائم ہوجائے۔ رہے وہ لوگ جو جاہلیت جدیدہ کے داعی ہیں تو اللہ تعالیٰ بار بار ان کے رزق پر آفات و بلیات نازل کرتا ہے لیکن وہ اپنی روش سے باز نہیں آتے۔ اور جب زمیندار اور اہل دیہات اس بات کو محسوس کریں اور اللہ کے سامنے دس بدعا ہوں جس طرح کافروں کے تحت الشعور میں بھی اللہ کی جانب رجوع کا داعیہ ہوتا ہے تو آج کل کے جاہلیت زدہ اور اپنے آپ کو سائنٹیفک کہنے والے لوگ کہتے ہیں کہ یہ خرافات میں یقین رکھنا ہے اور جہالت ہے اور یہ کام اہل جاہلیت جدیدہ لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے کرتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں ان لوگوں کی یہ حرکت قدیم بت پرستوں سے زیادہ بری ہے۔
Top