Fi-Zilal-al-Quran - Al-A'raaf : 26
یٰبَنِیْۤ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَیْكُمْ لِبَاسًا یُّوَارِیْ سَوْاٰتِكُمْ وَ رِیْشًا١ؕ وَ لِبَاسُ التَّقْوٰى١ۙ ذٰلِكَ خَیْرٌ١ؕ ذٰلِكَ مِنْ اٰیٰتِ اللّٰهِ لَعَلَّهُمْ یَذَّكَّرُوْنَ
يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ : اے اولاد آدم قَدْ اَنْزَلْنَا : ہم نے اتارا عَلَيْكُمْ : تم پر لِبَاسًا : لباس يُّوَارِيْ : ڈھانکے سَوْاٰتِكُمْ : تمہارے ستر وَرِيْشًا : اور زینت وَلِبَاسُ : اور لباس التَّقْوٰى : پرہیزگاری ذٰلِكَ : یہ خَيْرٌ : بہتر ذٰلِكَ : یہ مِنْ : سے اٰيٰتِ : نشانیاں اللّٰهِ : اللہ لَعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَذَّكَّرُوْنَ : وہ غور کریں
اے اولاد آدم ‘ ہم نے تم پر لباس نازل کیا ہے کہ تمہارے جسم کے قابل شرم حصوں کو ڈھانکے اور تمہارے لئے جسم کی حفاظت اور زینت کا ذریعہ بھی ہو ‘ اور بہترین لباس تقوی کا لباس ہے ۔ یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے ‘ شاید کہ لوگ اس سے سبق لیں ۔
آیت ” نمبر 26۔ یہ اللہ کی جانب سے انسانوں کے نام ایک درد انگیز پکار ہے اور یہ پکار تخلیق انسانیت کی کہانی کے منظر کے بعد آئی ہے ۔ خصوصا اس کے اس حصے کے بعد جس میں شیطان کی سازش سے حضرت آدم اور حوا کے جسموں سے جنت کا لباس اتار دیا گیا اور جس میں دونوں اس طرح دکھائی دیتے تھے کہ وہ اپنے جسموں کے اوپر جنت کے پتوں کو چسپاں کر رہے تھے ۔ یہ دن انہیں اللہ کی حکم عدولی کرنے کی وجہ سے دیکھنے پڑے تھے کیونکہ انہیں ایک خاص درخت کا پھل کھانے کی صریح ممانعت کی گئی تھی ۔ یہ ایک لغزش تھی اور اس کی نوعیت ایسی نہ تھی جس کی تفصیلات اہل کتاب کی منحرف کتابوں تورات وانجیل کے اندر موجود ہیں اور جن کا پر تو آج مغرب کے تمام علوم وفنون پر صاف صاف نظر آتا ہے ۔ دور جدید میں فرائڈ کے افکار اس پر مستزاد ہیں ۔ ان اساطیر اور فضول قصوں میں یہ کہا گیا ہے کہ شجر ممنوعہ شجر علم تھا اور شجر حیات تھا اور اگر آدم وحوا اس کا پھل کھالیتے تو اللہ کو یہ ڈر تھا کہ وہ بھی خدا کی طرح الہ بن جاتے ۔ نہ یہ ممانعت جنسی ملاپ کی ممانعت تھی جس طرح فرائڈ اور مغربی علوم وفنون اور مغربی ارٹ اس بات کا انعکاس کرتے ہیں اور انہوں نے ان کہانیوں کی اساس پر جنسی بےراہ روای کا فلسفہ فرائڈ کے خیالات کی شکل میں اپنا رکھا ہے ۔ غرض حضرت آدم (علیہ السلام) کی لغزش کے نتیجے میں ان کے لباس کے اتر جانے کے منظر اور پھر دور جاہلیت میں عریانی کی حالت میں طواف کرنے کی صورت حال کے پیش نظریہ پکار آتی ہے کہ اے انسان اللہ نے تم پر کس قدر رحمت اور شفقت کی ہے کہ تمہاری زینت اور شرمگاہوں کو چھپانے کے لئے لباس کا انتظام کیا اور اسے تمہارے ستر کے لئے ایک لازمی قانون کی شکل دی ۔ اگر لباس نہ ہوتا تو تم برہنگی کی حالت میں نہایت ہی مکروہ نظر آتے ۔ (انزلنا) کے لفظ سے معلوم ہوتا ہے کہ لباس بطور قانون لازم ہے ۔ لباس کا اطلاق کبھی تو ستر پر ہوتا ہے یعنی داخل ستر اور ریاش کا اطلاق اس لباس پر ہوتا ہے جو زیب وزینت کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ یعنی ظاہری لباس ۔ لفظ ریاش کے معنی میں عیش و عشرت اور مال و دولت ہے ان سب معانی کا ایک دوسرے سے تعلق ہے اور یہ لازم وملزوم ہیں ۔ آیت ” یَا بَنِیْ آدَمَ قَدْ أَنزَلْنَا عَلَیْْکُمْ لِبَاساً یُوَارِیْ سَوْء َاتِکُمْ وَرِیْشاً “۔ (7 : 26) ” اے اولاد آدم ‘ ہم نے تم پر لباس نازل کیا ہے کہ تمہارے جسم کے قابل شرم حصوں کو ڈھانکے اور تمہارے لئے جسم کی حفاظت اور زینت کا ذریعہ بھی ہو “۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ تقوی کے لباس کا ذکر فرماتے ہیں اور ساتھ یہ اضافہ بھی کردیتے ہیں کہ لباس تقوی کا لباس ہے ۔ یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے ۔ عبدالرحمن ابن اسلم نے یہ کہا ہے کہ ” اللہ تعالیٰ سے ڈرے اور اپنی شرمگاہ کو چھپائے تو یہ لباس تقوی ہے ۔ “ لباس ستر اور لباس تقوی شریعت میں لازم وملزوم ہیں ۔ لباس ستر جسم کو چھپانے اور زینت کے لئے ہے اور لباس تقوی دل کے قابل شرم حالات کو چھپاتا ہے اور قلب کی زیب وزینت بنتا ہے ۔ دونوں لازم وملزوم ہیں اس لئے کہ خدا کے خوف اور خدا سے حیاء کرنے کے شعور کے نتیجے ہی میں انسان جسم کے قابل شرم حصوں کو کھلا رکھنا قبیح سمجھتا ہے اور جو شخص اللہ سے حیا نہیں کرتا اور اس نہیں ڈرتا ‘ اس کے لئے جسمانی عریانی کوئی قابل ملامت بات نہیں ہوتی ۔ چناچہ اسلام کی نظر میں تقوی اور حیا سے عاری ہونا اور لباس کو اتار دینا ایک ہی جیسا قبیح فعل ہے ۔ جسم کا چھپانا فطری حیاء ہے اور اس کا تعلق محض کسی خاندان اور سوسائٹی کے رواج کے ساتھ نہیں ہے ۔ جیسا کہ بعض اور لوگ اس کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں جو اسلامی معاشرے سے حیاء کو ختم کرنا چاہتے ہیں تاکہ ہو امسلمانوں کی انسانیت کو ختم کردیں اور یہ عین اس منصوبے کے مطابق ہے جو صہیونی لیڈروں نے انسانیت کی تباہی کے لئے بنایا تھا ۔ بلکہ یہ ایک فطری داعیہ ہے جس اللہ نے انسان کے اندر ودیعت کر رکھا ہے ۔ پھر یہ ایک شرعی اور قانون تقاضا ہے جو اللہ نے نازل کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو یہ توفیق دی ہے کہ وہ دنیا میں اس قانون کو نافذ کریں کیونکہ یہ زمین اللہ نے انسانوں کے اختیار میں دی ہے اور اسے انکے لئے جائے رزق بنا دیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ انسان کو یاد دلاتے ہیں کہ اس لباس اور ستر پوشی کا قانون دے کر تم پر عظیم رحمت کی گئی ہے ۔ اس طرح اللہ نے ان کی ۔۔۔۔ متاع انسانیت کو اس انجام سے بچایا کہ وہ حیوانات کی سطح تک نیچے چلی جائے ۔ پھر اللہ تعالیٰ انہیں وہ تمام مسائل یاد دلا کر ان سے توقع کرتے ہیں کہ آیت ” لعلھم یذکرون “۔ (7 : 26) ” شاید کہ لوگ اس سے سبق لیں “۔ اس مقام پر آ کر ایک مسلمان اچھی طرح معلوم کرسکتا ہے کہ زیب وزینت ‘ فیشن ‘ ترقی پسندی اور محبت کے نام پر انسانوں کے اخلاق کو بگاڑنے اور انہیں جسمانی طور پر ننگا کرنے کے لئے جو عظیم کوشش ہو رہی ہے وہ اس یہودی سازش کے عین مطابق ہے جو انہوں نے انسانیت کی تباہی کے لئے تیار کر رکھی ہے ۔ یہ سازش یہودیوں نے اس لئے تیار کی ہے کہ مسلمانوں کی قوت جلدی سے تباہ ہوجائے اور انہیں جلدی سے غلام بنایا جاسکے ، نیز دین اسلام کے ساتھ لوگوں کے دلوں کی گہرائیوں میں جو محبت ابھی تک باقی ہے یہ منصوبہ اس کی مکمل بیخ کنی کے لئے بھی بنایا گیا ہے اور اس مقصد کے لئین یہ یہودیوں اور ان کے ایجنٹوں کی قلمیں ‘ فلمیں ‘ تمام تعلیمی ادارے اور میڈیا مسلسل جدوجہد کر رہے ہیں حالانکہ انسان کے لئے زینت عریانی میں نہیں ستر میں پوشیدہ ہے ۔ یہ حیوانات کی زینت ہے کہ وہ ننگے رہیں ‘ لیکن آج کا انسان جاہلیت اور پسماندگی کی طرف لوٹ رہا ہے اور انسان کے بجائے حیوان بنا رہا ہے ۔ کیا انسان اس نعمت کو یاد نہیں کر رہا ہے جو اللہ نے اسے انسان بنانے کے حوالے سے کی ہے ۔
Top