Fi-Zilal-al-Quran - Hud : 19
وَ مَنْ یُّوَلِّهِمْ یَوْمَئِذٍ دُبُرَهٗۤ اِلَّا مُتَحَرِّفًا لِّقِتَالٍ اَوْ مُتَحَیِّزًا اِلٰى فِئَةٍ فَقَدْ بَآءَ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ مَاْوٰىهُ جَهَنَّمُ١ؕ وَ بِئْسَ الْمَصِیْرُ
وَمَنْ : اور جو کوئی يُّوَلِّهِمْ : ان سے پھیرے يَوْمَئِذٍ : اس دن دُبُرَهٗٓ : اپنی پیٹھ اِلَّا : سوائے مُتَحَرِّفًا : گھات لگاتا ہوا لِّقِتَالٍ : جنگ کے لیے اَوْ : یا مُتَحَيِّزًا : جا ملنے کو اِلٰي : طرف فِئَةٍ : اپنی جماعت فَقَدْ بَآءَ : پس وہ لوٹا بِغَضَبٍ : غصہ کے ساتھ مِّنَ : سے اللّٰهِ : اللہ وَمَاْوٰىهُ : اور اسکا ٹھکانہ جَهَنَّمُ : جہنم وَبِئْسَ : اور بری الْمَصِيْرُ : پلٹنے کی جگہ (ٹھکانہ)
جس نے ایسے موقع پر پیٹھ پھیری۔ الا یہ کہ نگی چال کے طور پر ایسا کرے یا کسی دوسری فوج سے جا ملنے کے لیے۔ تو وہ اللہ کے غضب میں گھر جائے گا۔ اس کا ٹھکانا جہنم ہوگا اور وہ بہت بری جائے باز گشت ہے
مومن کا دل و دماغ نہایت ہی پختہ ہونا چاہیے ۔ اس طرح کہ وہ زمین کی کسی بھی قوت کے سامنے متزلزل نہ ہو اور اس کا رابطہ ایسی قوت کے ساتھ ہونا چاہیے جسے اپنے امور پر مکمل کنٹرول حاصل ہو اور وہ بندوں کے اوپر مکمل غلبہ رکھتی ہو اور جب کسی مومن کا دل و دماغ خطرات کو دیکھ کر متزلزل ہوگیا تو یہ تزلزل فرار پر منتج نہ ہونا چاہیے۔ کیونکہ موت اللہ کے اختیار میں ہے۔ اس لیے کسی مومن کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ موت کے ڈر سے پیٹھ پھیرے۔ یہ حکم ایسا نہیں ہے کہ کسی کو اس کی طاقت سے زیادہ حکم دیا جا رہا ہے ، کیونکہ مومن بھی انسان ہے اور اس کا دشمن بھی انسان ہے۔ اس لحاظ سے وہ گویا ایک ہی سطح پر کھڑے ہیں۔ پھر مومن کی امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ اس کا ربط ایسی قوت کے ساتھ ہے جس پر کوئی غالب نہیں ہے۔ اگر وہ زندہ ہے تو پھر وہ اللہ کا بندہ ہے اور اسی طرف متوجہ ہے اور اگر مر گیا تو بھی اللہ کی طرف لوتنے والا ہے۔ اگر اس کے لیے شہادت رکھ دی گئی ہے تو بھی وہ اس پوزیشن سے بہت اچھی ہے ، جو اس کے دشمن کی ہے کیونکہ دشمن تو اللہ اور رسول اللہ کے مقابلے میں آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ قطعی حکم دیا جاتا ہے۔ وَمَنْ يُّوَلِّهِمْ يَوْمَىِٕذٍ دُبُرَهٗٓ اِلَّا مُتَحَرِّفًا لِّقِتَالٍ اَوْ مُتَحَيِّزًا اِلٰي فِئَةٍ فَقَدْ بَاۗءَ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَمَاْوٰىهُ جَهَنَّمُ ۭوَبِئْسَ الْمَصِيْرُ ۔ جس نے ایسے موقع پر پیٹھ پھیری۔ الا یہ کہ نگی چال کے طور پر ایسا کرے یا کسی دوسری فوج سے جا ملنے کے لیے۔ تو وہ اللہ کے غضب میں گھر جائے گا۔ اس کا ٹھکانا جہنم ہوگا اور وہ بہت بری جائے باز گشت ہے۔ ۔۔۔ یہاں قرآن کریم نے جو اسلوب گفتگو اپنایا ہے اس میں بہت سے اشارات ہیں۔ فَلَا تُوَلُّوْهُمُ الْاَدْبَارَ ۔ اوروَمَنْ يُّوَلِّهِمْ يَوْمَىِٕذٍ دُبُرَهٗٓ۔ یہ در اصل ہزیمت اور شکست کی حسی تعبیر ہے اور نہایت ہی حقارت آمیز نقشہ دیا گیا ہے بھاگنے والوں کا۔ اور یہ تصور دیا گیا ہے کہ دشمن کو منہ دکھانا چاہیے مقعد نہیں۔ پھر فَقَدْ بَاۗءَ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰهِ گویا شکست کھانے والا در اصل پیٹھ پھیرتا ہے اور اس کے ساتھ غضب الہی ہوتا ہے اور یہ غضب الہی اسے جہنم تک لے جاتا ہے جو برا ٹھکانا ہے۔ وماواہ جہنم وبئس المصیر۔ یوں انداز کلام میں بھی جنگ کے دن پیٹھ پھیرنے کی منظر کشی اس طرح کی گئی ہے جس سے اس فعل کی قباحت اور کراہت بالکل واضح معلوم ہوتی ہے اور کوئی غیرت مند شخص اسے پسند نہیں کرتا۔ جنگ کے دن پیٹھ پھیرنے کی ممانعت کے بعد اب سیاق کلام میں یہ حقیقت بتائی جاتی ہے کہ اس معرکے کے پیچھے در اصل دست قدرت کام کر رہا ہے۔ یہ اللہ ہی ہے جس نے تمہارے دشمنوں کو قتل کیا۔ وہی ہے جو تمہارے تیر کو درست نشانے پر پہنچاتا ہے۔ اور تمہیں جو اجر دیا جاتا ہے وہ تو محض اس لیے ہے کہ اہل ایمان اس آزمائش میں کامیاب رہے اور انہوں نے جدوجہد کی اور اللہ نے ان کو اس ثواب کا مستحق بنایا اور اجر عطا کیا۔
Top