بیشک سختی کے بعد آسانی ہے ، تنگی کے بعد فراخی ہے ، اور اس کے اسباب یہ ہیں ، ان پر عمل کیجئے کہ جب آپ لوگوں کے ساتھ اپنی مشغولیات سے فارغ ہوجائیں اور دنیا کے امور سے فارغ ہوجائیں اور زندگی کی سرگرمیوں قدرے رک جائیں ، جب آپ ان امور سے فارغ ہوجائیں تو پھر اس میدان میں اتر جائیں جس میں آپ کو محنت اور جدوجہد کی ضرورت ہے یعنی اللہ کی عبادت ، اللہ کی طرف توجہ۔
والی ربک فارغب (8:94) ” اپنے رب کی طرف راغب ہوجاﺅ“۔ تو پھر آپ صرف رب کی طرف راغب ہوجائیں ، تمام دنیاوی امور چھوڑدیں ، یہاں تک کہ دعوت اسلامی کی سرگرمیاں بھی چھوڑدیں ، یہ ہے زادراہ۔ ہر سفر کے لئے کوئی نہ کوئی سازوسامان ہوتا ہے اور یہ ہے سازو سامان اس سفر کا۔ جہاڈ کے لئے تیاری کی ضرورت ہے اور یہ ہے تیاری اور اس کے نتیجے میں تنگی کی بجائے فراخی آجائے گی۔ مشکل میں کشادگی آجائے گی اور یہی ہے صحیح طریقہ کار۔
اس سورت کا خاتمہ بھی الضحیٰ کی طرح ہوتا ہے ۔ اختتام پر دل میں دو قسم کے احساسات جاگزیں ہوتے ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ کو حضور اکرم کے ساتھ نہایت ہی عظیم محبت ہے اور عالم بالا سے اس محبت کے تازہ بہ تازہ جھونکے دم بدم رہے ہیں ، دوسری یہ بات کہ محبت کے ساتھ ساتھ ذات باری کو حضور اکرم کے ساتھ بےحد شفقت اور ہمدردی ہے۔ اور دونوں سورتوں سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس وقت حضور نہایت مشکل دور سے گزر رہے تھے ۔ لہٰذا عالم بالا کی طرف سے اس محبت اور شفقت کے اظہار کی ضرورت تھی ۔ یہ حق کی دعوت کی بھاری ذمہ داری ہے۔ کمر توڑ دینے والا ہے لیکن جو لوگ یہ کام کرتے ہیں ان پر اللہ کا نور اور رحمت ہر وقت چوکس رہتی ہے۔