پس جب بھی آپ ﷺ کو فراغت ملے تو مزید کوشش میں لگا جائو
7 ؎ یہ دنیائے دوں ایک ایسی جگہ ہے کہ اس میں کسی شخص کے لیے ہمیشگی نہیں ہے خواہ وہ کون ہے ، کہاں ہے اور کیسا ہے ؟ اس لیے جو کام ہم نے آپ ﷺ کے ذمہ لگایا ہے اس کو دلجمعی سے کرتے رہو اور مخالفین کے پروپیگنڈے کا خیال نہ کرو کہ وہ کیا کرتے ہیں اور کیا نہیں کرتے اس سلسلہ میں ہماری ہدایت پر کان لگائو اور ہماری بات کو خوب اچھی طرح سن لو کہ جب نبوت و رسالت کی تبلیغ سے تھک جائو اور ہار جائو تو آخرت کی تیاری میں لگ جائو ۔ اس سے فطرت انسانی کے کتنے باب کھل جاتے ہیں غور کرو گے تو معلوم ہوجائے گا ہم صرف اشارہ کرسکتے ہیں اور وہ کرتے آ رہے ہیں۔ اس میں فطرت انسانی کا جو مسئلہ بیان ہوا ہے وہ یہ ہے کہ ایک مضمون کا یا ایک کام کرنے کے بعد جب انسان تھک جائے اور آج کل کی زبان کے مطابق بور (Bore) ہوجائے تو اس کو چاہیے کہ وہ دوسرا کام شروع کر دے ۔ گویا صرف مصروفیت میں مصروفیت کا پہلو بدلنے سے بھی بہت فرق پڑجاتا ہے اور ذہنی ریفرش منٹ (Mental Refreshemnt) اس سے بھی ہوجاتی ہے اور آدمی بیکار کھیل تماشے سے بھی بچ جاتا ہے۔ زندگی کی مسلسل جدوجہد بھی جاری رہتی ہے اور یہی اصول زیر نظر آیت نے بتایا ہے کہ بار نبوت و رسالت کی ادائیگی اگر تھکا دے تو خالصتا ً عبادت ِ خداوندی یعنی نماز اور تلاوت قرآن کریم سے دل کو اطمینان دلائو اس طرح اپنی جدوجہد کا ذرا پہلو بدل کر اپنی تھکاوٹ کو بھی دور کرلو اور تمہاری سعی و کوشش بھی مسلسل جاری رہے گی اور یہی وہ طریقہ ہے جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ ایک پنتھ دو کاج۔ (فرغت) واحد مذکر حاضر معروف ۔ جب تم فارغ ہو جائو لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے پیغامات پہنچانے سے (فانصب) پس تو محنت کر نصب جس کے معنی جدوجہد کرنے کے ہیں ۔ امر کا صیغہ واحد مذکر حاضر یہاں عبارت میں جدوجہد کا ذکر ہے یعنی الگ تھلگ ہو کر اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مشغول ہو جائو کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ذکر سے آپ ﷺ کا دل مطمئن ہوگا اور لوگوں کی بےرخیوں کا سارا بوجھ آپ ﷺ کے ذہن سے ایک بار اٹھ جائے گا اور یہ حقیقت ہے کہ دل کے اطمینان پانے سے تھکاوٹ دور ہوتی ہے اور ذہنی بوجھ بھی کافی حد تک ہلکا ہوجاتا ہے ۔ آج اپنی زندگی کی مصروفیات پر غور کرو اور ساتھ ہی ساتھ اس بات کا تجزیہ بھی کر کے دیکھو کہ جو کچھ کر رہے ہو اس میں کتنا ہے جو محض اس دنیاوی زندگی کی رنگ رلیوں کے لیے ہے اور کتنا ہے جو آخرت کی فکر میں کیا گام ہے اور اس طرح یہ بھی اندازہ لگائو کہ دنیوی زندگی کے لیے جو محنت و مشقت کی ہے اس میں امانت ودیانت کا کتناحصہ ہے اور کتنا حصہ وہ ہے جس میں امانت و دیانت کا نام و نشان بھی نہیں پایا جاتا اس طرح یہ بھی کہ جس کو امانت و دیانت پر مبنی سمجھ رہے ہو اس میں مجبوری کتنی ہے اور آزادی کتنی ؟ اس پر غور کرنے کے بعد پھر غور کرو کہ جب آپ زندگی کی اس محنت و مشقت سے تھک گئے تو تم نے قریش (Fresh) ہونے کے لیے کیا کیا کھیل پسند کیے اور پھر اس کھیل سے کتنا اطمینان تم نے حاصل کیا اگر اس نہج پر تم نے غور کیا تو شاید تمہاری اصلاح کی کوئی صورت نکل آئے ورنہ اس وقت اس طرح کا خیال کرنا بھی بیوقوف کہلانا ہے کیونکہ آج کل کام ، کام اور کام کی بجائے کھیل ، کھیل اور کھیل کی اصطلاح چلتی ہے ۔ کام ، کام اور کام والی اصطلاح ہم نے کراچی کے ایک کونے میں مزار قائداعظم میں دفن کر کے اوپر پختہ عمارت بنا دی ہے تاکہ یہ دوبارہ نکل کر ہم کو بیزار نہ کرے اور اس کی جگہ اب نئی اصطلاح جو لائی گئی ہے اس کو کب دفن کرنا ہے اور اس کی بجائے کیا نئی اصطلاح رائج کرنا ہے یہ آنے والا وقت بتا دے گا ۔
بہر حال اسلام ایک سچا دین ہے اس کی اصطلاحوں کو بدلا نہیں جاسکتا ۔ ہاں ! اس پر جو عمل نہیں کرتے ان کی حالت قریش مکہ اور دوسرے مخالفین اور معاندین کی حالت سے خود اندازہ کرلو اور تاریخ کے اوراق کی ورق گردانی کرو تو تم کو یقین آئے گا کہ ان کا حل وہی ہوگا جو اس وقت ہوا اور وہ بالکل وہی ہے جو اس وقت بھی دیکھنے والی آنکھیں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی ہیں اور سمجھنے والے دل اپنے دلوں کے اندر خوب سمجھ چکے ہیں اگرچہ ان کے لبوں پر مہر لگی ہوئی ہے کہ وہ بول نہیں سکتے ۔