آخری منزل کے لیے جدوجہد: یہ آخری منزل کے لیے جدوجہد کی ہدایت ہے۔ ’نصب ینصب‘ کے معنی جدوجہد اور محنت کرنے کے ہیں۔ فرمایا کہ دعوت کی راہ کے عقبات طے کرتے ہوئے جب وہ مرحلہ آ جائے کہ اللہ کی نصرت بے نقاب ہو جائے، مکہ فتح ہو جائے، دشمن گھٹنے ٹیک دیں اور لوگ فوج در فوج اسلام میں داخل ہونے لگیں تو پھر تم کمر کس کے آخری منزل کی تیاری کے لیے جدوجہد کرو اور کلیۃً اپنے رب کی طرف جھک پڑو۔ گویا بیک وقت ان آیات میں دو باتیں جمع کر دی گئی ہیں۔
ایک تو یہ بشارت کہ آپ تمام مشکلات راہ کو عبور کرتے ہوئے دعوت کی آخری منزل پر کامیابی کے ساتھ پہنچنے اور اپنی عظیم ذمہ داری سے سرخ روئی کے ساتھ فارغ ہونے کا شرف حاصل کریں گے۔
دوسری یہ کہ کامیابی کی آخری منزل پر پہنچ جانے کے بعد بھی آپ کے لیے کمر کھول دینے کا وقت نہیں آئے گا بلکہ لقائے رب کی منزل کے سفر کے لیے آپ کو مزید اہتمام سے کمر کس کے تیاری کرنی پڑے گی۔
اسی آخری ہدایت کی تعمیل کا اہتمام تھا کہ آخر دور حیات میں آپ کا انہماک عبادت الٰہی میں بہت بڑھ گیا تھا۔ بعض لوگوں نے آپ کا یہ حال دیکھ کر سوال کیا کہ حضور آپ کے تو تمام اگلے پچھلے گناہ بخشے جا چکے ہیں تو آپ عبادت میں اتنی مشقت کیوں اٹھاتے ہیں؟ آپ نے جواب میں فرمایا:
’افلا اکون عبدًا شکورا‘
(تو کیا میں اپنے رب کا شکرگزار بندہ نہ بنوں!)
یہاں بات اجمال کے ساتھ فرمائی گئی۔ اس کی پوری تفصیل سورۂ نصر میں آئے گی۔ سورہ یہاں ہم نقل کیے دیتے ہیں:
إِذَا جَآءَ نَصْرُ اللہِ وَالْفَتْحُ ۵ وَرَأَیْْتَ النَّاسَ یَدْخُلُوۡنَ فِیْ دِیْنِ اللہِ أَفْوَاجًا ۵ فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَاسْتَغْفِرْہُ إِنَّہٗ کَانَ تَوَّابًا (النصر ۱۱۰: ۱-۳)
’’جب اللہ کی مدد اور فتح آ جائے اور دیکھو کہ لوگ اللہ کے دین میں فوج در فوج داخل ہو رہے ہیں تو اپنے رب کی تسبیح کرو اس کی حمد کے ساتھ اور اس سے مغفرت مانگو۔ وہ بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا ہے۔‘‘