Tafseer-e-Madani - An-Naml : 28
كَیْفَ تَكْفُرُوْنَ بِاللّٰهِ وَ كُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَاَحْیَاكُمْ١ۚ ثُمَّ یُمِیْتُكُمْ ثُمَّ یُحْیِیْكُمْ ثُمَّ اِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ
کَيْفَ : کس طرح تَكْفُرُوْنَ : تم کفر کرتے ہو بِاللہِ : اللہ کا وَكُنْتُمْ : اور تم تھے اَمْوَاتًا : بےجان فَاَحْيَاكُمْ : سو اس نے تمہیں زندگی بخشی ثُمَّ يُمِیْتُكُمْ : پھر وہ تمہیں مارے گا ثُمَّ : پھر يُحْيِیْكُمْ : تمہیں جلائے گا ثُمَّ : پھر اِلَيْهِ : اس کی طرف تُرْجَعُوْنَ : لوٹائے جاؤگے
تم کیسے کفر کرتے ہو اللہ کے ساتھ (اے منکرو ! ) حالانکہ تم بےجان تھے تو اس نے تمہیں زندگی (کی یہ عظیم الشان نعمت) بخشی پھر وہی تمہیں موت دیتا ہے (اور دے گا) اور وہی تمہیں زندگی بخشتا ہے (اور بخشے گا)4 پھر اسی کی طرف تم لوٹائے جاتے ہو (اور لوٹائے جاؤ گے)
89 انسان کا وجود عنایت خداوندی کا ایک عظیم الشّان مظہر : کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو کتم عدم سے نکال کر خلعت وجود سے نوازنے کا عظیم الشان اور بےمثل انعام و احسان اس پر فرمایا، سو تم لوگ سوچو کہ اس دنیا میں آنے سے پہلے تم لوگ مختلف اجزاء و ذرات کی شکل میں پھیلے بکھرے تھے، جو کہیں پانی اور ہوا میں پرا گندہ و منتشر تھے، اور کہیں مٹی اور دوسرے مختلف غذائی اجناس واقسام میں پھیلے ہوئے، اور مختلف درجات و طبقات میں اور مختلف حالات میں تھے، اور اس قدر پراگندہ و منتشر اور پر دئہ عدم میں مخفی و مستور، کہ اس حضرت انسان کا کہیں کوئی نام و نشان اور ذکر تک موجود نہ تھا، جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا گیا : { ہَلْ اَتٰی عَلَی الاِنْسَان حِیْنٌ مِّنَ الدَّہْر لَمْ یَکُنْ شَیْئًا مَّذْکُوْرًا }، " بیشک انسان پر ایک ایسا دور بھی اس لمبے زمانے میں گزرا ہے جس میں یہ کوئی ایسی شیَ نہ تھا جس کا ذکر کیا جائے " (الدھر : 1) ۔ تو اس قادر مطلق ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ نے اپنی قدرت بےنہایت، اور رحمت و عنایت بےغایت سے، انسان کو ان تمام پر پیچ مراحل سے گزار کر، اور اسے کتم عدم سے نکال کر خلعت و جود سے نوازا، اور " اَحْسَن تَقْوِیْم ٍ " (بہترین ساخت) پر پیدا فرما کر اسے اشرف المخلوقات کا تاج پہنایا، تو اب کس قدر ظلم، اور کتنی بےانصافی ہے، کہ یہی انسان اسی وحدہ لا شریک کے ساتھ کفر و انکار کا معاملہ کرے اور کفران نعمت سے کام لے ؟ ۔ وَالْعِیَاذ باللّٰہ الْعظِیْم ۔ 90 زندگی بخشنا اللہ ہی کا کام اور اسی کا اختیار ہے : سو ارشاد فرمایا گیا اور اسی نے تم کو نعمت وجود سے نوازا : اور نعمت وجود وحیات ایسی عظیم الشان نعمت ہے، جو کہ دوسری تمام نعمتوں کی اصل ہے۔ جس سے تم اس دار دنیا میں متمتع و مستفید ہو رہے ہو، اور جو دوسری تمام نعمتوں سے سرفرازی کیلئے اصل اور اساس ہے، اور جو تمہاری پہلی اور دنیوی زندگی ہے، اور آج تمہیں اس دنیا میں حاصل و میسر ہے، اور جس میں اپنے عمل و کردار سے تم لوگ آخرت کی حقیقی اور اَبَدی زندگی میں، وہاں کی نعیم مقیم سے سرفرازی کا سامان کرسکتے ہو، کہ اس کے بعد اس کیلئے کوئی موقع ممکن نہیں ہوگا، سو عدل و انصاف اور عقل و خرد کا تقاضا یہ ہے کہ انسان حیات و وجود کی اس عظیم الشان نعمت کی قدر کرے، اور اس کو اپنے خالق ومالک کا عطیہ و احسان سمجھ کر اس کو اس کی اطاعت و بندگی میں صرف کرکے اپنے لیے دارین کی سعادت و سرخروئی کا سامان کرے ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ بہرکیف اس سے واضح فرما دیا گیا کہ انسان کی زندگی اور اس کا وجود اللہ تعالیٰ ہی کا عطیہ و احسان ہے۔ اگر انسان سر سے پاؤں تک اپنے جسم اور جسم کے مختلف حصوں اور اعضاء وجوارح ہی پر غور و فکر کی نگاہ ڈالے تو اس کی نگاہ روشن ہوجائے۔ اور یہ دل وجان سے اپنے اس خالق ومالک کے حضور جھک کر اپنے اپنے دارین کی سعادت و سرخروئی کا سامان کرلے۔ پھر اسی سے اس بارے غور کیا جائے کہ اپنے اس خالق ومالک سے منہ موڑنا اور اعراض و روگردانی برتنا کتنا بڑا ظلم اور کس قدر بڑی بےانصافی ہے۔ اور اس سے بھی بڑھ کر ظلم اور بےانصافی یہ کہ انسان اپنے اس خالق ومالک کو بھول کر اور اسکے درِاقدس کو چھوڑ کر اوروں کے آگے جھکے۔ نیز یہیں سے انسان یہ بھی دیکھے اور سوچے کہ جب اس کے جسم کے اندر اور باہر کی ان عظیم الشان نعمتوں کی تخلیق و ایجاد اور بخشش و عطا میں کوئی اس وحدہ لا شریک کا شریک نہیں تو پھر اس کے حق عبادت و بندگی میں کوئی اس کا شریک کیسے اور کیونکر ہوسکتا ہے ۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ 91 سلسلہ موت وحیات اللہ ہی کے قبضہ قدرت و اختیار میں ہے : ۔ سو " اِحیاء " و " اِماتت " یعنی " زندگی بخشنا " اور " موت دینا " سب کچھ اللہ وحدہ لا شریک ہی کی صفت اور اسی کی شان ہے ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ سو موت وہی دیتا ہے کہ آج بھی اور ہر لحظہ اور ہر ساعت میں کتنے ہی لوگ مرتے اور پیوند خاک ہوتے جاتے ہیں، اور آئندہ بھی ایسا ہوتا رہے گا، یہاں تک کہ بساط ارض لپیٹ دی جائے گی، اور اس سب ہنستی بستی دنیا کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ ہوجائے گا۔ قیام ساعت کا بگل بج جائے گا، اور دوسرا ابدی اور آخری جہاں نئے قوانین و نوامیس کے تحت وجود میں آجائے گا۔ زندگی بخشنے اور موت دینے کا یہ ایک عام اور معروف مفہوم ہے، لیکن اس احیاء و اِمَاتت کا یہ عمل در اصل انسانی جسم میں لگاتار چلتا رہتا ہے، جس کے مطابق اس کے جسم کے اندر قوت و انرجی ( ENERGY) کے سیل (CELLS) برابر بنتے اور ٹوٹتے رہتے ہیں، یہاں تک کہ سائنسی تحقیق کے مطابق دس سال کے عرصے میں اسی انسانی جسم کے برابر ایک اور جسم بن کر ختم ہوجاتا ہے۔ سو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر ایک انسان کی عمر مثلاً ایک سو سال ہے تو اس مدت میں اس کے جسم کے اندر، اسی کے برابر کے دس جسم اور بن کر ختم ہوگئے ہیں، اور یہ سب کچھ اس باریکی و تسلسل، اور اس قدر حکمت و تنظیم کے ساتھ ہوتا رہتا ہے، کہ خود انسان کو بھی اس کی کوئی خبر یا کسی درجہ میں کوئی احساس تک بھی نہیں ہوتا ۔ فَسُبْحَان اللّٰہ مِنْ قَادِرٍ قَیُّوْمٍ جَلَّ وَعَلاْ ۔ اگر سائنس کا یہ نظریہ و انکشاف درست اور مبنی بر حقیقت ہے تو یہ قرآن حکیم کا ایک زبردست معجزہ ہے کہ اس کتاب مقدس نے جس چیز کی خبر پندرہ سو سال قبل دی تھی، جبکہ اس طرح کے کسی انکشاف کا دور دور تک کوئی تصور بھی نہ تھا، سائنسی ترقی اب کہیں جا کر اس کا ادراک و انکشاف کرسکی ہے، اسی لئے " یُحْیِیْ وَ یُمِیْتُ " کے صیغوں کا ترجمہ ہم نے استمراری الفاظ کے ساتھ کیا ہے، جو کہ فعل مضارع کا اصل مفہوم و مصداق ہے۔ جبکہ عام اردو تراجم میں ایسے نہیں کیا جاتا ۔ وَالْحَمْدُ لِلّٰہ رَبّ الْعٰلَمِیْنَ ۔ بہرکیف اس سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ زندگی بخشنا اور موت سے ہمکنار کرنا، اللہ پاک ہی کی شان اور اسی کی صفت خاصہّ ہے، اس کے سوا اور کسی کیلئے بھی یہ عقیدہ رکھنا کہ وہ کسی زندہ کو مار سکتا ہے، یا کسی مردہ کو زندہ کرسکتا ہے، قطعی طور پر غلط اور اس ارشاد ربانی کے صریح طور پر خلاف ہے۔ پس غلط اور قطعی طور پر غلط اور شرکیہ بات کرتے ہیں وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ فلاں قبر والے نے فلاں شخص کو مار دیا، یا فلاں بزرگ نے برسوں کی ڈوبی ہوئی بیڑی کو زندہ کرکے نکال دیا وغیرہ، یہ سب باتیں غلط اور شرکیہ باتیں ہیں، اور اہل بدعت اس طرح کی باتیں کرکے شرک کا ارتکاب کرتے ہیں ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو اس طرح کی تمام خرافات سے اپنے دامن کو بچا کر رکھنا چاہیے کہ یہ سب شرک کے پلندے ہیں ۔ والعیاذ باللہ ۔ 92 " اِحیاء و امِاتَت " کا عمل مسلسل اور برابر جاری ہے : یعنی آج بھی ایسے ہو رہا ہے اور آئندہ بھی ہوگا، یہاں بھی بعینہ وہی تفصیل و ترتیب ملحوظ رکھی جائے جس کا ذکر ابھی اوپر حاشیہ نمبر 9 1 میں ہوا۔ یہاں سے ایک اور بات یہ بھی ظاہر اور واضح ہوگئی کہ زندگی بخشنا اور موت دینا وغیرہ سب کچھ اللہ تعالیٰ ہی کے قبضہ قدرت اختیار میں اور اسی وحدہ لا شریک کی صفت ہے۔ پس یہ کہنا یا سمجھنا کہ فلاں ہستی زندہ کرسکتی ہے، یا موت دے سکتی ہے، جیسا کہ بعض کلمہ گو مشرک سمجھتے اور کہتے ہیں، اور اسی بناء پر ایسے لوگ طرح طرح کے مشرکانہ نام بھی رکھتے ہیں، سو یہ سب غلط اور شرکیات میں سے ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کے سوا نہ کوئی زندگی بخش سکتا ہے اور نہ ہی موت دے سکتا ہے، یہ سب اسی کی صفت و شان ہے ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ پس جن بدعتی مشرکوں نے بارہ سال کی ڈوبی ہوئی کشتی کو نکالنے، اور اس میں بیٹھی بارات کو زندہ کرنے کا ایک جھوٹا اور من گھڑت افسانہ مشہور کر رکھا ہے، وہ سب جھوٹ، شرک اور نصوص کتاب و سنت کے خلاف ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ 93 سب کا رجوع اللہ ہی کی طرف : ۔ سو سب معاملات اللہ تعالیٰ ہی کی طرف لوٹائے جاتے ہیں اور لوٹائے جائیں گے۔ یعنی آج بھی ایسے ہی ہو رہا ہے کہ تمہارے جملہ امور و معاملات کے اصل حقیقی اور آخری فیصلے اسی وحدہ لا شریک کی بارگہ اقدس و اعلیٰ میں ہوتے ہیں، مگر اس کا کامل اور پورا ظہور کل قیامت کے اس جہاں میں ہوگا جو کہ کشف حقائق اور مشاہدہ و ظہور کا جہاں ہوگا، جہاں اسباب و وسائط کے وہ سب حجاب اٹھ جائینگے جو آج اس دنیا میں حقائق تک رسائی میں آڑ اور رکاوٹ بنے ہوئے ہیں، اور تم سب نے بہرحال لوٹ کر اس کے حضور جانا، اور زندگی بھر کے اپنے کیے کرائے کا حساب دینا اور اس کا پھل پانا ہے۔ تاکہ عدل و انصاف کے تقاضے اپنی آخری اور کامل شکل میں پورے ہوسکیں، سو بندے کو چاہیئے کہ وہ ہمیشہ اور ہر حال میں اپنے اس خالق ومالک کے حضور حاضری کو یاد رکھے اور اس کیلئے تیاری کرے، قبل اس سے کہ حیات دنیا کی یہ فرصت محدود اس کے ہاتھ سے نکل جائے کہ پھر اس کے دوبارہ ملنے کی کوئی صورت ممکن نہیں ۔ وباللہ التوفیق -
Top