Ruh-ul-Quran - An-Naml : 5
اُولٰٓئِكَ الَّذِیْنَ لَهُمْ سُوْٓءُ الْعَذَابِ وَ هُمْ فِی الْاٰخِرَةِ هُمُ الْاَخْسَرُوْنَ
اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو لَهُمْ : ان کے لیے سُوْٓءُ : برا الْعَذَابِ : عذاب وَهُمْ : اور وہ فِي الْاٰخِرَةِ : آخرت میں هُمُ : وہ الْاَخْسَرُوْنَ : سب سے بڑھ کر خسارہ اٹھانے والے
یہ وہ لوگ ہیں جن کے لیے بری سزا ہے اور آخرت میں یہی سب سے زیادہ خسارے میں رہنے والے ہیں
اُوْلٰٓئِکَ الَّذِیْنَ لَھُمْ سُؤٓئُ الْعَذَابِ وَھُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ ھُمُ الْاَخْسَرُوْنَ ۔ (النمل : 5) (یہ وہ لوگ ہیں جن کے لیے بری سزا ہے اور آخرت میں یہی سب سے زیادہ خسارے میں رہنے والے ہیں۔ ) سُؤٓئُ الْعَذَابِ سے مراد ؟ اس آیت میں چونکہ آخرت کے عذاب کا مستقلاً ذکر ہے اس وجہ سے قرینہ دلیل ہے کہ سُؤٓئُ الْعَذَاب کا تعلق دنیا سے ہے۔ جہاں تک آخرت کے عذاب کا تعلق ہے وہ تو سب جانتے ہیں کہ اس سے مراد جہنم کا عذاب ہے۔ لیکن جہاں تک سُؤٓئُ الْعَذَاب کا سوال ہے اس کی کوئی تفصیل بیان نہیں فرمائی گئی۔ کیونکہ جو لوگ آخرت سے لاتعلق ہو کر صرف دنیا کو بنانے سنوارنے میں لگے رہتے ہیں ان سب کا دنیا کے بارے میں نقطہ نگاہ یکساں نہیں ہوتا۔ اور ساتھ ہی ساتھ یہ بات بھی کہ دنیا کی محبت میں ڈوب کر وہ جو طرزعمل اختیار کرتے ہیں ان میں بھی یکرنگی نہیں ہوتی۔ لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ایک فرد سے لے کر ایک قوم کی اجتماعی زندگی تک دنیا طلبی، حُبِ دنیا اور دنیوی مفادات کو ہی حاصل زندگی سمجھنے کا نتیجہ کسی نہ کسی صورت میں سب کو بھگتنا پڑتا ہے۔ کبھی ایک فرد دولت کی محبت میں قرابت کے رشتوں اور احباب کی محبت سے محروم ہو کر تنہائی کا شکار ہوجاتا ہے۔ ایسے لوگ عموماً خودکشی کی موت مرتے ہیں۔ اور جس معاشرے میں اس طرز عمل کی حکمرانی ہوجاتی ہے اس معاشرے میں سب سے پہلے گھروں کی دنیا اجڑتی ہے، رشتوں کا احترام ختم ہوتا ہے، معاملات میں ابتری کے باعث خانہ جنگی کے حالات پیدا ہوتے ہیں، اجتماعی زندگی طبقات کا شکار ہوجاتی ہے، اخلاقی قدریں دم توڑ جاتی ہیں، محبت و الفت، ہمدردی و خیرخواہی اور ایثار و قربانی کے الفاظ اپنا مفہوم کھو دیتے ہیں۔ اس حال میں افراد اور قوم ایسی تباہ کن صورتحال سے دوچار ہوتے ہیں جسے قرآن کریم نے یہاں سُؤٓئُ الْعَذَاب سے تعبیر کیا ہے۔
Top