Tafseer-e-Haqqani - Al-Ankaboot : 69
وَ الَّذِیْنَ جَاهَدُوْا فِیْنَا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَا١ؕ وَ اِنَّ اللّٰهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِیْنَ۠   ۧ
وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوْا : اور جن لوگوں نے کوشش کی فِيْنَا : ہماری (راہ) میں لَنَهْدِيَنَّهُمْ : ہم ضرور انہیں ہدایت دیں گے سُبُلَنَا ۭ : اپنے راستے (جمع) وَاِنَّ : اور بیشک اللّٰهَ : اللہ لَمَعَ الْمُحْسِنِيْنَ : البتہ ساتھ ہے نیکوکاروں کے
اور جنہوں نے ہمارے معاملہ میں محنت کی البتہ ان کو ہم اپنے رستے بتادیں گے اور البتہ اللہ نیکوں کے ساتھ ہے۔
ترکیب : والذین موصول جاھدوا فینا جملہ صلہ مجموعہ مبتدا لنہدینہم ھم مفعول اول نھدی کا سبلنا مفعول ثانی جملہ خبر مع مضاف المحسنین مضاف الیہ خبران۔ تفسیر : پہلے فرمایا تھا۔ الیس فی جہنم مثوًی للکفرین کہ کیا جہنم میں کافروں کا مقام نہیں ؟ یعنی جس رستہ پر یہ چلے جارہے ہیں، یہی رستہ جہنم کا ہے، کیونکہ جب رستہ تمام ہوجاتا ہے تو وہی مقام ملتا ہے کہ جس کا یہ رستہ ہے۔ اب اس کے مقابلہ میں ایک دوسری سیدھی سڑک کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ جو خاص اس کی بارگاہ کبریائی تک پہنچی ہے۔ فقال والذین جاھدوا فینا لنہدینہم سبلنا کہ وہ جو ہمارے لیے کوشش کرتے ہیں، ہم ان کو اپنے پاس پہنچنے کے رستہ بتلادیں گے اور جب وہ ان رستوں پر چل پڑیں گے تو پھر کچھ غم کسی رستہ میں پیش آنے والی مصیبت کا نہیں کیونکہ وان اللہ لمع المحسنین اللہ نیک بختوں کے ساتھ ہے، پھر جب ہم ساتھ ہیں تو کیا غم ہے نعم الطریق و نعم الرفیق۔ فوائد : (1) جاھدوا فینا اے فی حقنا ومن اجل رضاء نا خالصاً یعنی ہمارے دربار فیض آثار کا دربند نہیں جو کوئی قصد کرے اور قصد بھی جھوٹا قصد نہ ہو بلکہ جہاد یعنی پوری کوشش اور خوب جدوجہد ہو تو خود ہم ہی اس کو رستوں پر چراغ لے کر آملتے ہیں، وہ جو پہلے فرمایا تھا۔ وان الدار الاخرۃ لھی الحیوان اب اس دار خلد کا آپ ہادی بن گیا۔ مطلب یہ کہ بندہ کا کام صرف کوشش کرنا ہے، پھر منزل مقصود تک تو ہم آپ پہنچادیتے ہیں۔ (2) یہ ایک ایسا کثیر المعنی جملہ ہے کہ جس کی تفسیر کے لیے ایک اتنی ہی بڑی اور تفسیر لکھی جاوے تو بس نہ ہو، اس میں ادنیٰ سے لے کر اعلیٰ سے اعلیٰ مقاصد کی طرف اشارہ ہے۔ اگر کوئی نیک کام کرنا چاہے کہ ہم مدرسہ یا مسجد بنادیں یا مسافروں، یتیموں کے لیے کوئی آرام گاہ تیار کریں یا کوئی دینی تصنیف کریں یا گمراہوں کو وعظ و پند سناکر راستی پر لاویں یا دنیا میں شریر اور سرکشوں کو زیر کرکے راست بازوں کے لیے امن قائم کریں جیسا کہ جہاد میں ہوتا ہے تو سب کاموں میں جو یہ کوشش ہوگی تو اللہ ہی کے لیے ہوگی، ان سب کاموں میں اللہ اس کی مدد کرکے اس کو کامیاب کرے گا اور یہ سب نیک رستے اس کے پاس پہنچنے کی سڑکیں ہیں، ان میں سے ہر ایک رستہ کی وہی رہنمائی کرکے اپنے دربار تک پہنچادے گا، جو دارالخلد ہے۔ اسی لیے ان سب طریقوں کے لحاظ سے سبلنا جمع کا صیغہ آیا، کیونکہ سبیل کی جمع سبل ہے اور اسی لیے پھر سبل کو نا کی طرف مضاف کرکے سب کو اپنا رستہ کہہ دیا۔ اسی طرح جو کوئی معرفت و حقیقت کے لیے کوشش کرے گا، ذکر و فکر و مراقبہ وغیرہ رستوں سے اللہ اس کو اپنے تک پہنچادے گا۔ بندہ کوشش تو کرے پھر تو اس کے لیے دروازے کھلے ہوئے ہیں۔ اس میں جہاد اصغر اور جہاد اکبر دونوں کی طرف اشارہ ہے۔ بندے کی کوشش کی دیر ہے فیض تو ہر وقت کھلا ہوا ہے، جہاں اس نے ادھر کے لیے کوشش کی فوراً مبدائِ فیاض سے اس پر تجلی پڑی۔ ہائے رے غفلت یار خود بلا رہا ہے راستہ دکھا رہا ہے، ہم ہیں کہ دنیا کے مال و اسباب جمع کرنے میں محو ہورہے ہیں، جن کو تھوڑی دیر کے بعد چھوڑ دینا پڑے گا۔ الٰہی اس کوشش کی بھی تو ہی توفیق عطا کر۔ آمین۔ (3) سورة کے خاتمہ میں تین فرقوں کی طرف اشارہ فرماتا ہے، فرقہ ناقصین کی طرف و من اظلم میں کہ یہ بدبخت اپنی استعداد کو نکمی باتوں میں صرف کرکے جہاں کہیں جانا ہے، وہاں جانا چاہتے ہیں، یعنی جہنم میں۔ فرقہ متوسطین کی طرف والذین جاھدوا فینا میں یہ لوگ سیدھے رستے کے لیے محنت کرتے ہیں، ان کی جدوجہد پر توفیقِ الٰہی ان کی رہنما ہوتی ہے اور فرقہ کاملین کی طرف و ان اللہ لمع المحسنین میں کہ یہ لوگ طبقہ علیا کے ہیں پیدا ہوتے ہی اللہ کے ساتھ ہوتے ہیں۔ اول فرقہ کے لوگ کفار و بت پرست جن کو اصحاب الشمال کہتے ہیں اور دوسرے فرقہ کے صالحین و مومنین جن کو اصحاب الیمین کہتے ہیں، تیسرے فرقہ کے اولیائِ کرام و انبیاء جن کو السابقون الاولون کہتے ہیں۔
Top