Tafseer-e-Haqqani - Az-Zumar : 43
اَمِ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ شُفَعَآءَ١ؕ قُلْ اَوَ لَوْ كَانُوْا لَا یَمْلِكُوْنَ شَیْئًا وَّ لَا یَعْقِلُوْنَ
اَمِ : کیا اتَّخَذُوْا : انہوں نے بنا لیا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ : اللہ کے سوا شُفَعَآءَ ۭ : شفاعت کرنے والے قُلْ : فرمادیں اَوَلَوْ : یا اگر كَانُوْا لَا يَمْلِكُوْنَ : وہ نہ اختیار رکھتے ہوں شَيْئًا : کچھ وَّلَا يَعْقِلُوْنَ : اور نہ وہ سمجھ رکھتے ہوں
کیا انہوں نے اللہ کے سوا اور حمایتی بنا رکھے ہیں۔ کہو اگر وہ کچھ بھی اختیار نہ رکھتے ہوں اور کچھ بھی عقل نہ رکھتے ہوں تو بھی (حمایتی بناؤ گے)
ترکیب : ام منقطعۃ بمعنی بل۔ اولو کان الھمزۃ للانکار والوا وللعطف علی محذوف مقدرای یشفعون ولو کانوا الخ و جواب لو محذوف ای وان کانوا بھذہ الصفۃ تتخذونھم۔ جمیعًا حال من الشفاعۃ مصدر یطلق علی الواحد والکثیر ولھذا اصح وقوع الحال بجمیع منہ وحدہ انتصابہ علی الحال عند یونس و علی المصدر عند الخلیل و سیبویہ۔ اشماء زت الاشمز از النفور والانقباض۔ فاطر السمٰوٰت منصوب علی النداء عالم الغیب بدل منہ اوصفۃ للذین خبران ما فی الارضاسمھا جمیعًا حال منہ و مثلہ معطوف علی ماولذا الا نتصب لافتدوا جواب لو۔ تفسیر : بیان سابق کے بعد مشرکین یہ کہتے تھے کہ ہم ان بتوں کو یا وہ کہ جن کے نام کے بت ہیں، خدا اور خالق ومالک سمجھ کر نہیں پوجتے بلکہ ان کو شفیع اور کارکن جان کر اور اکثر مشرکوں کا مخلوق پرستی کے لیے یہی حیلہ ہوا کرتا ہے، اس کے جواب میں فرماتا ہے۔ ام اتخذوا من دون اللہ شفعًا الخ کہ کیا ان کو شفیع سمجھ لیا ہے کہ اگر وہ ذی روح ہیں تو لایملکون شیئًا ان کے بس میں کچھ بھی نہیں، اس کی اجازت بغیر کوئی کچھ بول بھی نہیں سکتا اور اگر وہ بت ہیں تو لایعقلون وہ بےحس و حرکت و بےعقل ہیں اور ہر قسم کی شفاعت اللہ کے اختیار میں ہے اور حمایت بھی اسی کے بس میں ہے، اسی کے بس میں اور قبضہ اور ملک میں آسمان و زمین ہے اور سب کو اسی کے پاس جانا ہے، پھر اسی کو پکارو پوجو۔ واذا ذکر اللہ وحدہ یہ مشرکوں کی بدعادت اور بےانصافی کا بیان ہے کہ جب صرف اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو آخرت کے منکر نفرت کرتے ہیں اور رکتے ہیں اور جب اوروں کا یعنی ان کے معبودوں کا ذکر کیا جاتا ہے تو اسی وقت خوش ہوجاتے ہیں، ان کے اس اصرار و جہل پر آنحضرت ﷺ کو یہ معاملہ خدا کے سپرد کرنے کا حکم دیا۔ دعا اور اس کے اوصاف حمیدہ کے پیرایہ میں فقال قل اللہم فاطر السمٰوٰت کہ کہہ دے اے اللہ تو آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا، چھپی اور کھلی چیزوں کا جاننے والا ہے۔ دلوں کے رازتجھ پر آشکارا ہیں۔ آج جس بات میں تیرے بندے جھگڑتے ہیں ان کا تو فیصلہ کردے گا کہ موحد برحق ہے یا مشرک۔ اس میں بھی مخالف کے دل پر اپنے وثوق جتلانے کے ذریعہ سے بڑا اثر ہوتا ہے۔ آخرت کے فیصلہ کا حوالہ دینے کے بعد وہاں جو کچھ ان پر پیش آوے گا اس کا ذکر کرتا ہے۔ ولو ان للذین الخ کہ ظالموں کے پاس اگر تمام دنیا کی نعمتیں ہوں اور ان کے ساتھ اسی قدر اور بھی ہوں تو ان سب کو دے کر عذاب قیامت سے چھٹنا غنیمت جانیں گے۔ وبدالہم اور اللہ کی طرف سے ان کے لیے وہ مصیبت ظاہر ہوگی کہ جس کا ان کو گمان بھی نہ تھا۔ و بدالہم سیئات اور ان کے حرکات ناشائستہ کی برائی ان کے پیش آوے گی اور جس عذاب جہنم اور آخرت کے معاملات پر وہ ہنسی کیا کرتے تھے وہ ان پر نازل ہوگا۔
Top