Ruh-ul-Quran - Az-Zumar : 43
اَمِ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ شُفَعَآءَ١ؕ قُلْ اَوَ لَوْ كَانُوْا لَا یَمْلِكُوْنَ شَیْئًا وَّ لَا یَعْقِلُوْنَ
اَمِ : کیا اتَّخَذُوْا : انہوں نے بنا لیا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ : اللہ کے سوا شُفَعَآءَ ۭ : شفاعت کرنے والے قُلْ : فرمادیں اَوَلَوْ : یا اگر كَانُوْا لَا يَمْلِكُوْنَ : وہ نہ اختیار رکھتے ہوں شَيْئًا : کچھ وَّلَا يَعْقِلُوْنَ : اور نہ وہ سمجھ رکھتے ہوں
کیا ان لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کو سفارشی بنا رکھا ہے، ان سے کہئے اگرچہ نہ یہ کچھ اختیار رکھتے ہوں اور نہ کچھ سمجھتے ہوں
اَمِ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ شَُفَعَآئَ ط قُلْ اَوَلَوْ کَانُوْا لاَ یَمْلِکُوْنَ شَیْئًاوَّلاَ یَعْقِلُوْنَ ۔ (الزمر : 43) (کیا ان لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کو سفارشی بنا رکھا ہے، ان سے کہئے اگرچہ نہ یہ کچھ اختیار رکھتے ہوں اور نہ کچھ سمجھتے ہوں۔ ) مشرکین کی بیوقوفی پر تعجب اس سوال میں تعجب کا اظہار بھی ہے اور تنبیہ کا انداز بھی، کہ جب یہ بات ہر شخص پر روشن ہے کہ زندگی اور موت اللہ تعالیٰ کے قبضے میں ہے۔ جس طرح اس نے کائنات کو پیدا کیا اور پھر اپنی حکمت و مشیت کے مطابق کائنات کا نظام چلا رہا ہے اور جس طرح کائنات کے ذرے ذرے پر اس کی گرفت ہے، اس کے بعد اس تصور کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی کہ کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں کسی کو اپنا سفارشی بنا لے کہ اگر کسی بات پر اللہ تعالیٰ نے مجھ پر گرفت فرمائی تو میرے یہ سفارشی مجھے اللہ تعالیٰ کی گرفت اور اس کی ناراضگی سے بچا لیں گے۔ اس لیے کہ اس تصور کو قبول کرنے کے نتیجے میں چند باتیں تسلیم کرنا ضروری ہوجاتی ہیں۔ پہلی یہ بات کہ یہ سمجھ لیا جائے کہ اللہ تعالیٰ کی گرفت کبھی کسی شخص پر ناحق یعنی خلاف عدل بھی ہوسکتی ہے۔ اور وہ بغیر کسی سبب کے بھی کسی شخص کو اپنے عتاب کا نشانہ بنا سکتا ہے۔ یہ تصور اسی کے ذہن میں آسکتا ہے جو اللہ تعالیٰ کو ایک عادل ذات سمجھنے کی بجائے محض ایک دنیوی حکمران سمجھتا ہو۔ بادشاہ بعض دفعہ کسی ناحق بات پر خوش ہوتے ہیں اور حق بات پر بگڑ جاتے ہیں۔ اگر اللہ کریم کے بارے میں ایسے تصورات باندھ لیے جائیں تو پھر اس پر ایمان لانا یا نہ لانا دونوں برابر ہیں۔ دوسری بات جو اس سلسلے میں تسلیم کرنا پڑے گی وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کسی پر عتاب اس لیے بھی ہوسکتا ہے کہ وہ معاملے کی حقیقت کو پوری طرح نہیں جانتا۔ جس بات پر اس نے کسی کی گرفت فرمائی ہے وہ براہ راست اس بات کے حقائق سے واقف نہیں۔ جیسے کچھ حقائق اسے بتائے گئے اس نے ان پر یقین کرکے کارروائی کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسا تصور کرنے والا اللہ تعالیٰ کو عالم الغیب والشہادۃ نہیں سمجھتا، اور یہ سراسر کفر ہے۔ جن کو کسی شخص نے اپنا سفارشی بنا رکھا ہے اور وہ یقین رکھتا ہے کہ معاملہ اچھا ہو یا برا وہ ہر معاملے پر میری سفارش کریں گے۔ اور اللہ تعالیٰ ان کی سفارش ماننے پر مجبور ہے۔ دوسرے لفظوں میں اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ یہ سمجھتا ہے کہ کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے یہاں اتنا زور آور بھی ہے کہ وہ جب چاہے سفارش کے لیے اللہ تعالیٰ کے پاس جاسکتا ہے۔ اور وہ معاملات کی اتنی سمجھ بوجھ رکھتا ہے کہ اپنی سمجھ بوجھ کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کو اپنا فیصلہ بدلنے پر مجبور کرسکتا ہے۔ ظاہر ہے یہ دونوں باتیں اللہ تعالیٰ کے حضور کفر سے بھی بدتر ہیں۔
Top