Ahsan-ut-Tafaseer - Az-Zumar : 43
اَمِ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ شُفَعَآءَ١ؕ قُلْ اَوَ لَوْ كَانُوْا لَا یَمْلِكُوْنَ شَیْئًا وَّ لَا یَعْقِلُوْنَ
اَمِ : کیا اتَّخَذُوْا : انہوں نے بنا لیا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ : اللہ کے سوا شُفَعَآءَ ۭ : شفاعت کرنے والے قُلْ : فرمادیں اَوَلَوْ : یا اگر كَانُوْا لَا يَمْلِكُوْنَ : وہ نہ اختیار رکھتے ہوں شَيْئًا : کچھ وَّلَا يَعْقِلُوْنَ : اور نہ وہ سمجھ رکھتے ہوں
کیا انہوں نے خدا کے سوا اور سفارشی بنا لئے ہیں ؟ کہو کہ خواہ کسی چیز کا اختیار بھی نہ رکھتے ہوں اور نہ کچھ سمجھتے ہی ہوں
43۔ 44۔ صحیح بخاری 1 ؎ کے حوالہ سے حضرت عبد اللہ بن عباس کی روایت اوپر گزر چکی ہے کہ قوم نوح میں بعضے نیک لوگ جب مرگئے اور ان کے مرجانے کا قوم کے لوگوں کو رنج ہوا تو پہلے پہل شیطان نے قوم کے لوگوں کے دل میں یہ وسوسہ ڈالا کہ ان نیک لوگوں کی صورتوں کے بت بنا کر آنکھوں کے سامنے رکھ لئے جائیں تو ان نیک لوگوں کے آنکھوں کے سامنے سے اٹھ جانے کا رنج کچھ کم ہوجائے گا پھر ان لوگوں کی نسل میں رفتہ رفتہ اس وسوسہ شیطانی نے ان بتوں کی پوجا اس وسوسہ سے پھیلا دی کہ جو کوئی نیک لوگوں کی مورتوں کو پوجے گا تو یہ نیک لوگ بارگاہ الٰہی میں اس کی شفاعت کریں گے غرض اس وسوسہ شیطانی کا جو اثر قدیم سے بت پرستوں میں چلا آتا تھا اسی کے موافق قریش بھی یہ کہتے تھے کہ جن بتوں کی ہم پوجا کرتے ہیں یہ نیک لوگوں کی مورتیں ہیں اور ہمارا اعتقاد یہ ہے کہ جو کوئی ان نیک لوگوں کی مورتوں کو پوجے گا تو یہ نیک لوگ بار گاہ الٰہی میں اس کی شفاعت کریں گے۔ ان مشرکوں کی اس بات کا ایک جواب تو اللہ تعالیٰ نے سورة یونس میں دیا تھا کہ نیک لوگوں کی شفاعت تو درکنار قیامت کے دن وہ نیک لوگ اللہ کو گواہ قرار دے کر اس پوجا سے اپنی بیزاری اور برأت ظاہر کریں گے یہاں جو مشرکوں کی اس بات کا جواب دیا ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ مورتوں کی اصل صورتوں والے تو اس شفاعت سے بیزار اور یہ پتھر کی مورتیں بےجان ناسمجھ بالکل بےبس ہیں اس لئے یہ فقط ایک شیطانی وسوسہ ہے جس نے ان لوگوں کو اس بےٹھکانے شفاعت کے دھوکے میں ڈال رکھا ہے صحیح بخاری 2 ؎ میں ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ قیامت کے دن ابراہیم (علیہ السلام) اپنے باپ آزر کی نجات کے لئے اللہ تعالیٰ کی جناب میں سفارش کریں گے مگر بارگاہ الٰہی میں ان کی سفارش منظور نہ ہوگی۔ اس حدیث کو آخر کی آیۃ کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ قیامت کے دن جب سب مخلوقات اللہ تعالیٰ کے رو برو حاضر ہوگی تو شفاعت کا منظور کرنا اللہ تعالیٰ کی مرضی پر منحصر ہوگا یہاں تک کہ برخلاف مرضی الٰہی کے ابراہیم (علیہ السلام) آزر کی نجات کی شفاعت کریں گے جو منظور نہ ہوگی۔ (1 ؎ صحیح بخاری تفسیر سورة نوح ص 732 ج 2۔ ) (2 ؎ صحیح بخاری باب واتخذ اللہ ابراھیم خلیلا ص 473 ج 1۔ )
Top