Tafseer-e-Haqqani - Adh-Dhaariyat : 20
وَ فِی الْاَرْضِ اٰیٰتٌ لِّلْمُوْقِنِیْنَۙ
وَفِي الْاَرْضِ : اور زمین میں اٰيٰتٌ : نشانیاں لِّلْمُوْقِنِيْنَ : یقین کرنے والوں کیلئے
اور زمین میں یقین کرنے والوں کے لیے قدرت کی نشانیاں ہیں
ترکیب : مثل یقرء بالرفع علی انہ لغت لحق او خبرثان او علی انھما خبر واحد وما زائدۃ و یقرء بالفتح انہ حال من النکرۃ ومن الضمیر فیھا اوعلی اضماراعنی وما زائدۃ و قیل معرب و قیل مبنی علی انہ رکب مع ما کخمسۃ عشر۔ انکم موضعھاجر بالاضافۃ اذا جعلت ما زائدۃ اور فع علی تقدیر ھو۔ اذ ظرف الحدیث او لضیف والضیف مصدر یطلق علی الواحد والکثیر۔ سلام مبتدء علیکم خبرہ محذوف۔ تفسیر : یہ تتمہ ہے بیان سابق کا یعنی اہل جنت کی عبادت کا تو یہ حال ہے اور ان کے افکار و خیالات ایسے پاکیزہ ہیں کہ زمین میں ہر شے ان کے نزدیک اس کی قدرت کا نمونہ ہے اور خود انہی کے اندر سینکڑوں نمونے ہیں یا کہو یہ بیان سابق کا بقیہ ہے، یعنی حشر کے امکان پر اور چند دلائل بیان فرماتا ہے کہ زمین کے اندر اس کے اشیائِ رنگا رنگ میں اور خود لوگوں کے اندر ہماری قدرت کی سینکڑوں نشانیاں ہیں۔ انسان اپنی پیدائش اور قویٰ اور اعضاء و صحت و مرض و تبدلات و تغیرات و جذبات باطنیہ میں غور کرے تو فوراً باور کرلے کہ وہ اس کی بےانتہا قدرتوں کا خزانہ ہے، اس لیے کہا گیا ہے کہ من عرف نفسہ عرف ربہ جس نے ان پر آپ کو جان لیا، اس نے خدا کو پہچان لیا، اس لیے فرماتا ہے۔ افلا تبصرون۔ پھر تم کیوں نہیں ان نشانات قدرت کو دیکھتے ؟ اور آسمان میں تمہاری روزی ہے، آسمان سے مراد بارش جو آسمان سے یعنی اوپر سے اترتی ہے، بارش سے انسان بلکہ حیوان کی روزی پیدا ہوتی ہے اور اسی طرح جن چیزوں کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے جنت و دوزخ ‘ خیر و شر سب اوپر سے ہے، یعنی تمہاری کوششوں سے اور تدابیر سے یہ سامان پیدا نہیں ہوتے بلکہ یہ سب کچھ آسمانی اسباب سے ہے۔ آسمان سے مراد اوپر کی جہت جس سے مقصود تقدیر ومشیتِ الٰہی، تقدیری باتوں اور مشیتی اسباب کو آسمانی کہا کرتے ہیں۔ شرف و فوقیت کے لحاظ سے پھر کہتا ہے کہ آسمانوں اور زمین کے رب کی قسم یعنی روز جزا کا آنا ایسا ہی برحق ہے۔ جیسا کہ تمہارا باہم باتیں کرنا اس میں تم کو کوئی شبہ نہیں ہوتا۔ ان دلائلِ حشر اور وہاں کی جزاء و سزا بیان کرنے کے بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا تذکرہ کرتا ہے جس سے یہ باتیں بتانی مقصود ہیں۔ (1) یہ کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی طرح مہمان نوازی کا طریقہ اختیار کرنا چاہیے۔ (2) دنیا میں کسی مراد کے دیر ملنے سے ناامید نہ ہونا چاہیے۔ خدا کا وعدہ برحق ہے، اس نے اخیر عمر میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی بیوی کو اولاد دی اسی پر اس کی سزائوں کو بھی خیال کرنا چاہیے کہ اگر دیر ہوجائے تو مغرور و غافل نہ ہوجائے کہ میرے اعمال بد کا برا ثمرہ مجھے نہ ملے گا۔ (3) چونکہ قوم لوط مدت سے اس بدکاری کی عادی تھی، پیغمبر ہرچند منع کرنا تھا، پر نہیں مانتے تھے۔ آخر ایک روز ایسا ہوا کہ ان کی بدکاری کا برا دن ان کے سامنے آیا۔ وہ بستیاں غارت ہوئیں، اے قریش مکہ ! تم بھی دلیر نہ ہوجائو۔
Top