Tafseer-e-Madani - Al-Anfaal : 75
وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْۢ بَعْدُ وَ هَاجَرُوْا وَ جٰهَدُوْا مَعَكُمْ فَاُولٰٓئِكَ مِنْكُمْ١ؕ وَ اُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُهُمْ اَوْلٰى بِبَعْضٍ فِیْ كِتٰبِ اللّٰهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ۠   ۧ
وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے مِنْۢ بَعْدُ : اس کے بعد وَهَاجَرُوْا : اور انہوں نے ہجرت کی وَجٰهَدُوْا : اور انہوں نے جہاد کیا مَعَكُمْ : تمہارے ساتھ فَاُولٰٓئِكَ : پس وہی لوگ مِنْكُمْ : تم میں سے وَاُولُوا الْاَرْحَامِ : اور قرابت دار بَعْضُهُمْ : ان کے بعض اَوْلٰى : قریب (زیادہ حقدار) بِبَعْضٍ : بعض (دوسرے) کے فِيْ : میں (رو سے) كِتٰبِ اللّٰهِ : اللہ کا حکم اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ بِكُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز عَلِيْمٌ : جاننے والا
اور جو لوگ ایمان لائے اس کے بعد، اور انہوں نے ہجرت بھی کی اور جہاد بھی کیا، تمہارے ساتھ شامل ہو کر تو ایسے لوگ بھی تم ہی میں سے ہیں، اور رشتہ دار ایک دوسرے کے زیادہ حقدار ہیں اللہ کے حکم کے مطابق، بیشک اللہ ہر چیز کو پوری طرح جانتا ہے۔1
156 بعد میں ایمان لانے والوں کے لیے بھی خوشخبری : سو ارشاد فرمایا گیا کہ جو لوگ ایمان لائے اس کے بعد۔ یعنی صلح حدیبیہ کے بعد یا پہلی ہجرت کے بعد۔ یا اس آیت کریمہ کے نزول کے بعد یا معرکہ بدر کے بعد۔ مختلف احتمال و اَقوال ہیں۔ اور یہ سب ہی صحیح اور درست ہیں اور من بعد کا عموم ان سب ہی کو شامل ہے۔ (محاسن التاویل، مدارک التنزیل، صفوۃ التفاسیر وغیرہ) ۔ بہرکیف اس ارشاد سے واضح فرما دیا گیا کہ جو لوگ اس کے بعد ایمان لائے ان کا بھی بڑا مرتبہ ومقام ہے جیسا کہ اس کے بعد بیان ہو رہا ہے کہ یہ لوگ بھی تم ہی میں سے ہیں۔ سو جب وہ ایمان لے آئے اگرچہ وہ ایمان بعد ہی میں لائے وہ بھی تم ہی میں سے ہیں۔ ایمان کے رشتے نے تم سب کو ایک لڑی میں پرو دیا۔ سو اصل چیز ہے ایمان اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنا ۔ وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقِ ۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اور ہر حال میں ایمان کے نور مقدس سے منور و معمور رکھے ۔ آمین ثم آمین۔ 157 سو ایسے لوگ تم ہی میں سے ہیں : کہ یہ بھی ایمان، ہجرت اور جہاد کی انہی عظیم الشان صفات سے موصوف ہیں جن سے تم اس سے پہلے سرفراز ہوچکے ہو۔ اس لئے سابقیت اور افضلیت کا شرف اگرچہ تم ہی کو حاصل ہے مگر نفس فضلیت میں وہ بھی تمہارے ساتھ شریک ہیں۔ قَالَ تَعَالٰی { لا یَسْتَوِیْ مِنْکُمْ مَّنْ اَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ ، اَولٰٓئِکَ اَعْظَمُ دَرَجَۃً مِّنَ الَّذِیْنَ اَنْفَقُوْا مِنْ بَعْدُ وَقَاتَلُوْا، وَکُلًّا وَّعَدَ اللّٰہُ الْحُسْنٰی } ۔ (الحدید : 10) بہرکیف اس ارشاد میں ہجرت کی ترغیب و تشویق بھی ہے کہ تمہارے لئے بھی اسلامی معاشرے کا حصہ بننے کے لئے دروازہ کھلا ہوا ہے۔ تم بھی اس کی طرف سبقت کر کے اس میں اپنا مقام حاصل کرسکتے ہو۔ اور دوسری طرف اس میں دارالاسلام کے مسلمانوں کو اس امر کی تاکید بھی ہے کہ تم بھی بعد میں ایمان لانے والے اور ہجرت کرنے والے مسلمانوں کے لئے اپنے دلوں کے دروازے کھلے رکھو کہ وہ بھی تمہارے ہی بھائی بند اور تمہارے ہی ملی وجود کے اجزاء اور حصے ہیں۔ ان کے بارے میں نہ تمہارے دلوں میں کوئی تنگی پیدا ہونے پائے اور نہ کوئی احساس برتری۔ بلکہ ایمان و عقیدہ کے اشتراک کے باعث اور اس کے نتیجے میں تم سب لوگ ایک برابر ہو۔ سو اصل مدارو انحصار انسان کے ایمان و یقین اور اس کے عمل و کردار پر ہے۔ 158 رشتہ دار ایک دوسرے کے زیادہ حقدار ہیں : باہمی تعاون و تناصر اور توارث و تآلف میں۔ دوسرے انصار و مہاجرین کے اعتبار سے۔ سو قدیم مہاجرین کا جو کوئی رشتہ دار بعد میں مسلمان ہوا یا بعد میں ہجرت کرکے آیا تو وہ بنسبت غیر رشتہ داروں کے اس قدیم مہاجر کی میراث کا زیادہ حقدار ہے اگرچہ وہ غیر رشتہ دار فضیلت و مرتبہ میں اس سے زیادہ ہو۔ میراث کے حکم میں مہاجرین اولین اور مہاجرین متاخرین سب برابر ہیں۔ سو اس آیت کریمہ سے وہ میراث جو صرف اور صرف اخوت اسلامی کی بناء پر قائم تھی منسوخ ہوگئی۔ اب میراث کا دار و مدار رشتہ و قرابت ہی پر رہ گیا ہے۔ مگر ایمان اور اسلام بہرحال شرط ہے مسلمان اور کافر میں باہم میراث جاری نہیں ہوسکتی۔ (معارف للکاندھلوی وغیرہ) ۔ 159 اللہ تعالیٰ کے کمال علم کا حوالہ و ذکر : سو ارشاد فرمایا گیا اور حرف تاکید کے ساتھ ارشاد فرمایا گیا کہ بیشک اللہ ہر چیز کو پوری طرح جانتا ہے۔ سو وہ ہر چیز کو پوری طرح جانتا ہے، ظاہر و باطن اور حال و مآل ہر اعتبار سے۔ اور اس کا ہر حکم نہایت علم و حکمت پر مبنی ہوتا ہے۔ یہ شان صرف اسی وحدہ لاشریک کی ہے اور بس۔ اس لئے اس کا ہر حکم ہر اعتبار سے کامل اور مکمل ہوتا ہے۔ اس میں نہ کسی نقص و قصور کا کوئی احتمال ہوسکتا ہے اور نہ ہی اس کا کوئی متبادل ممکن ہوسکتا ہے۔ پس حقیقی کامیابی اور فوز و فلاح صرف اسی میں مضمر ہے کہ اس کے جملہ احکام و اَوامر کو دل و جان سے قبول کر کے ان کو برضا ورغبت بجا لایا جائے ۔ فَاِیَّاکَ نَسْأَلُ اللّٰہُمَّ السَّدَادَ وَالتَّوْفِیْقَ لِمَا تُحِبُّ وَتَرْضٰی ۔ یَا مَنْ بِیَدِہٖ مَلَکُوْتُ کَلِّ شَیْْئٍ وَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ ۔ سو اس سورة کریمہ کے آخر میں { علیم } کی صفت کے ذکر سے یہ امر واضح فرما دیا گیا کہ اس کے کسی بھی حکم کا کوئی متبادل ممکن نہیں ہوسکتا کہ وہ ہر چیز کو پوری طرح اور ہر اعتبار سے جاننا ہے اور اس کا ہر حکم و ارشاد کامل اور بےخطاء علم پر مبنی ہے۔ اور یہ شان اس وحدہ لاشریک کے سوا اور کسی کے لئے ممکن ہی نہیں۔ سو اس کا ہر حکم وارشاد کامل علم وحکمت اور رحمت و عنایت پر مبنی ہے اور اس پر ایمان و یقین اور اس کی تعمیل و پابندی میں بندے کے لیے دارین کی سعادت و سرخروئی کا سامان ہے ۔ وباللہ التوفیق سبحانہ و تعالیٰ ۔ اور یہ شان چونکہ اسی وحدہ لا شریک کی ہے اس لیے اس کے ہر حکم وارشاد کی اطاعت مطلقا اور بلاچون وچرا واجب ہے۔
Top