Tafseer-al-Kitaab - Al-Anfaal : 75
وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْۢ بَعْدُ وَ هَاجَرُوْا وَ جٰهَدُوْا مَعَكُمْ فَاُولٰٓئِكَ مِنْكُمْ١ؕ وَ اُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُهُمْ اَوْلٰى بِبَعْضٍ فِیْ كِتٰبِ اللّٰهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ۠   ۧ
وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے مِنْۢ بَعْدُ : اس کے بعد وَهَاجَرُوْا : اور انہوں نے ہجرت کی وَجٰهَدُوْا : اور انہوں نے جہاد کیا مَعَكُمْ : تمہارے ساتھ فَاُولٰٓئِكَ : پس وہی لوگ مِنْكُمْ : تم میں سے وَاُولُوا الْاَرْحَامِ : اور قرابت دار بَعْضُهُمْ : ان کے بعض اَوْلٰى : قریب (زیادہ حقدار) بِبَعْضٍ : بعض (دوسرے) کے فِيْ : میں (رو سے) كِتٰبِ اللّٰهِ : اللہ کا حکم اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ بِكُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز عَلِيْمٌ : جاننے والا
اور جو لوگ بعد میں ایمان لائے اور ہجرت کی تمہارے ساتھ ہو کر جہاد بھی کیا تو وہ بھی تم ہی میں داخل ہیں۔ (باقی رہے) قرابت دار تو وہ اللہ کے حکم کے مطابق ایک دوسرے (کی میراث) کے زیادہ حقدار ہیں۔ یقینا اللہ ہر شے کا علم رکھتا ہے۔
[29] یعنی وراثت اسلامی بھائی چارے کی بنیاد پر نہیں بلکہ رشتہ داری کی بنیاد پر تقسیم ہوگی۔ یہ اس لئے فرمایا گیا کہ ہجرت کے بعد نبی اکرم ﷺ نے مہاجرین اور انصار کے درمیان جو مواخاۃ کرائی تھی اس نے مسلمانوں میں ایسا ولولہ پیدا کردیا تھا کہ لوگ دینی بھائیوں کو خون کے رشتہ داروں سے زیادہ اپنا سمجھنے لگے تھے۔ اس لئے بعض لوگوں کو یہ خیال ہوا کہ یہ دینی بھائی ایک دوسرے کے وارث بھی ہوں گے۔ تشریح غزوہ بدر 17۔ رمضان المبارک کو بدر ( بدر مدینے سے تقریباً 80 میل دور مکہ کی طرف واقع ہے۔ ) کے مقام پر فریقین کا مقابلہ ہوا۔ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کرام کی تعداد تین سو سے کسی قدر زیادہ تھی۔ یہ تعداد مختلف روایتوں میں 305 سے 319 تک بتائی گئی ہے۔ ان میں سے مہاجرین 74 یا 76 تھے باقی سب انصار تھے۔ ان کے ساتھ دو گھوڑے اور ستر اونٹ تھے۔ ہر اونٹ کی سواری میں تین تین افراد شریک تھے اور باری باری سوار ہوتے تھے۔ قریش کے لشکر کی تعداد کم از کم 590 تھی اور ان کے ساتھ ایک سو گھوڑے تھے۔ لشکر کا سپہ سالار عقبہ بن ربیعہ تھا۔ اونٹوں کی کثرت کا اندازہ اسی سے ہوسکتا ہے کہ ہر منزل پر وہ نو یا دس اونٹ ذبح کرتے چلے آئے تھے۔ زرہیں اور باقی سازو سامان جنگ بھی بہت زیادہ تھا۔ سعد بن معاذؓ نے رسول اللہ ﷺ کے لئے ایک ٹیلے پر سائبان سا بنادیا تھا۔ ابوبکر ؓ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے اور سعد بن معاذ ؓ دروازے پر پہرہ دے رہے تھے۔ آپ نے رات دعاؤں میں گزاردی مولانا شبلی مرحوم نے لکھا ہے : یہ عجیب منظر تھا۔ اتنی بڑی وسیع دنیا میں توحید کی قسمت صرف چند جانوں پر منحصر تھی۔ رسول اللہ ﷺ پر سخت مصنوع کی حالت طاری تھی۔ دونوں ہاتھ پھیلا کر فرماتے تھے :" اے اللہ تو نے مجھ سے جو وعدہ کیا ہے اسے آج پورا کر " محویت اور بےخودی کے عالم میں چادر کندھے سے گر گر پڑتی تھی اور آپ کو خبر تک نہ ہوتی تھی کبھی سجدے میں گرتے تھے اور فرماتے تھے کہ اے اللہ اگر یہ چند نفوس آج مٹ گئے تو پھر قیامت تک توُ پو جا نہ جائے گا۔ اس معرکہ کار زار میں سب سے زیادہ سخت امتحان مہاجرین مکہ کا تھا جن کے اپنے بھائی سا منے صف آراء تھے۔ کسی کا باپ، کسی کا بیٹا، کسی کا چچا، کسی کا ما موں، کسی کا بھائی اس کی اپنی تلوار کی زد میں آرہا تھا اور اپنے ہاتھوں اپنے جگر کے ٹکڑے کا ٹنے پڑ رہے تھے۔ اس کڑی آزمائش سے صرف وہی لوگ گزر سکتے تھے جنہوں نے پوری سنجیدگی کے ساتھ حق سے رشتہ جوڑا ہو اور جو باطل کے ساتھ سارے رشتے قطع کر ڈالنے پر تل گئے ہوں۔ انصار کا امتحان بھی کچھ کم سخت نہ تھا۔ اب تک تو انہوں نے عرب کے طاقتور ترین قبیلے قریش اور اس کے حلیف قبائل کی دشمنی صرف اسی حد تک مول لی تھی کہ ان کے علی الرغم مسلمانوں کو اپنے ہاں پناہ دے دی تھی۔ لیکن اب تو وہ اسلام کی حمایت میں ان کے خلاف لڑنے بھی جا رہے تھے جس کے معنی یہ تھے کہ ایک چھوٹی سی بستی جس کی آبادی چند ہزار نفوس سے زیادہ نہیں تھی سارے ملک عرب سے لڑائی مول لے رہی تھی۔ یہ جسارت صرف وہی لوگ کرسکتے تھے جو کسی طاقت پر ایسا ایمان لے آئے ہوں کہ اس کی خاطر اپنے ذاتی مفاد کی انہیں ذرّہ برابر پرواہ نہ رہی ہو۔ آخر کار ان لوگوں کی صداقت ایمان اللہ کی طرف سے نصرت کا انعام حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی اور قریش اپنے سارے غرور طاقت کے باوجود ان بےسرو سامان فدائیوں کے ہاتھوں شکست کھا گئے۔ ان کے سترّ آدمی مارے گئے اور سترّ قید ہوگئے اور ان کا سامان غنیمت بھی مسلمانوں کے ہاتھ آیا۔ قریش کے بڑے بڑے سردار جو اسلام کی مخالف تحریک کے روح رواں تھے اس معرکے میں ختم ہوگئے اور اس فیصلہ کن فتح نے عرب میں اسلام کو ایک قابل لحاظ طاقت بنادیا۔ جیسا کہ ایک مغربی محقق نے لکھا ہے۔ " بدر سے پہلے اسلام محض ایک مذہب اور ریاست تھا مگر بدر کے بعد وہ مذہب ریاست بلکہ خود ریاست بن گیا "۔ شہدائے بدر صحابہ کرام میں سے چودہ شہید ہوئے، ان میں سے چھ مہاجرین میں سے اور آٹھ انصار میں سے تھے۔
Top