Tafseer-e-Haqqani - At-Tawba : 1
بَرَآءَةٌ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖۤ اِلَى الَّذِیْنَ عٰهَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِكِیْنَؕ
بَرَآءَةٌ : بیزاری (قطعِ تعلق) مِّنَ : سے اللّٰهِ : اللہ وَرَسُوْلِهٖٓ : اور اس کا رسول اِلَى : طرف الَّذِيْنَ : وہ لوگ جنہوں نے عٰهَدْتُّمْ : تم سے عہد کیا مِّنَ : سے الْمُشْرِكِيْنَ : مشرکین
جن مشرکوں سے تم نے عہد و (پیمان) کرلیا تھا اب اللہ اور رسول کی طرف سے ان کو صاف جواب ہے۔
ترکیب : برأۃ خبر ہے مبتداء محذوف کی ورسولہ عطف ہے اللہ پر ‘ الی متعلق ہے براۃ سے۔ من المشرکین بیان ہے الذین کا اربعہ اشہر ظرف ہے فسیحوا کا وان اللّٰہ معطوف ہے انکم پر مفعول ہے واعلموا کا۔ و اذان معطوف ہے برأۃ پر فاذا شرط فاقتلوا الخ جواب ‘ فان تابوا شرط فخلوا الخ جواب ‘ وان شرط احد فاعل استجارک محذوف کا جس کی تفسیر استجارک ثانی ہے۔ فاجرہ جواب حتی غایۃ ہے اجرہ کی ذلک مبتدا بانہم خبر۔ تفسیر : چونکہ اخیر انفال میں اہل عہد پر چڑھائی کرنے کی ممانعت تھی اور اس سورة میں تمام عہدوں کو ختم کردیا ہے اور نیز ان دونوں کے مطالب بھی ملتے جلتے ہیں اس لئے دونوں سورتوں میں فصل کے لئے لوح محفوظ میں بسم اللہ نہیں۔ گویا دونوں ایک ہی سورة ہیں۔ گو نازل ہونے میں دونوں میں کئی برس کا فاصلہ ہے کس لئے کہ انفال دوسرے سال ہجری میں نازل ہوئی اور برأۃ کی بابت ابو الشیخ نے ابن عباس ؓ سے نقل کیا ہے کہ یہ سورة مدینہ میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئی ہے جو آٹھواں سال تھا۔ اس سورة کے تیرہ نام ہیں فاضحہ حامزہ مخزیہ وغیرہا مگر دو نام زیادہ مشہور ہیں۔ توبہ اور برأۃ اس سورة کی ابتداء میں بسم اللہ نہ لکھنے کی چند وجہ علماء نے بیان کی ہیں (1) وہ جو ترمذی نے ابن عباس سے نقل کیا کہ ہم نے پوچھا بسم اللہ اس پر کیوں نہیں لکھی ؟ جواب دیا کہ حضرت پر جب کوئی آیت نازل ہوئی تھی تو کاتبوں سے اس کے موقع پر لکھوا دیتے تھے۔ چونکہ ان دونوں کا مضمون یکساں تھا تو ہم نے دونوں کو ایک سورة سمجھ لیا مگر حضرت ﷺ نے فرمایا تھا کہ یہ دونوں ایک سورة ہیں (2) صحابہ کا دونوں سورتوں کے ایک ہونے میں اختلاف تھا۔ بعض دونوں کو ایک بعض دو کہتے تھے۔ اس لئے بسم اللہ نہ لکھی گئی مگر فصل کے لئے خالی جگہ چھوڑ دی گئی (3) حاکم نے مستدرک میں ابن عباس ؓ سے روایت کی ہے کہ میں نے حضرت علی ﷺ سے اس امر میں پوچھا فرمایا کہ بسم اللہ امان کے لئے ہوتی ہے چونکہ اس سورة میں کفار کے لئے امن نہیں ٗ اس لئے بسم اللہ نہ لکھی گئی تاکہ آثار غضب الٰہی ظاہر ہوں (4) امام قشیری کہتے ہیں صحیح یہی ہے کہ جبرئیل اس سورة کے ساتھ بسم اللہ نہ لائے اسی طرح لکھی گئی زیادتی نہ کی گئی۔ (تیسیرا القاری شرح صحیح البخاری) اور یہ جو مشہور ہے کہ اس سورة کا اول منسوخ التلاوہ ہوگیا اس کے ساتھ بسم اللہ بھی ساقط ہوئی اس کو صاحب تیسیر وغیرہ نے ناپسند کیا ہے۔ براۃ من اللّٰہ الخ اس کے نازل ہونے کا یہ سبب ہے کہ آٹھویں سال مکہ فتح ہوا تو بہت سی قومیں اسلام لائیں اور بہت نے آنحضرت ﷺ سے عہد و پیمان کرلیا کہ ہم آپ سے اور آپ کے حلیفوں 1 ؎ سے جنگ نہ کریں گے۔ مدد کے موقع پر مدد بھی دیں گے۔ اسی طرح آنحضرت ﷺ نے بھی ان سے عہد کرلیا تھا، جب نویں سال ہجری میں آنحضرت ﷺ شام کی طرف غزوہ تبوک 2 ؎ کو تشریف لے گئے تو پیچھے بہت سی قوموں نے بدعہدی کی۔ منافقوں نے بہت افواہیں اڑائیں وہاں سے لوٹنے کے بعد یہ سورة نازل ہوئی جس میں ان بدعہدوں کی اور غزوہ تبوک میں شامل نہ ہونے والوں اور غلط باتیں اڑانے والوں کی سرزنش ہے۔ آنحضرت ﷺ نے اس سال حاجیوں کا قافلہ سالار ابوبکر کو کیا اور بعد میں علی کو اپنے ناقہ پر سوار کرکے بھیجا کہ وہاں مجمع عام میں یہ آیات لوگوں کو سنا دیں کہ آیندہ سے ہم سے کسی مشرک کا کوئی عہد باقی نہیں رہا۔ پس ابوبکر ؓ نے احکام حج تعلیم کئے۔ علی ؓ نے یوم النحر کو جمرۃ العقبیٰ کے پاس کھڑے ہو کر لوگوں کو اس سورة کی تیس یا چالیس و بقول مجاہد تیرہ آیات سنا دیں اور کہہ دیا کہ سال آیندہ میں خانہ کعبہ میں کوئی مشرک نہ آوے نہ کوئی برہنہ ہو کر طواف کرے جیسا کہ جاہلیت کا دستور تھا اور ہر ایک عہد والے کا عہد تمام ہوگیا۔ لوگوں نے کہا اے علی ؓ اپنے بھائی سے کہہ دیجئو کہ ہم نے خود عہد کو پس پشت ڈال دیا ٗ اب تلوار ہے یا تیر۔ ان آیات میں اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے مشرکین متعاہدین سے بیزاری اور براءت کی گئی ہے کہ اب ہمارا تمہارا کچھ عہد باقی نہیں رہا اور یہ کہ خواہ ان کا عہد زیادہ مدت کے لئے ہو خواہ کم کے لئے سب کو چار مہینے کے لئے مہلت دی گئی۔ ان چار مہینوں کو اشہر حرم فرمایا یعنی وہ مہینے کہ جن میں جنگ حرام ہے۔ علماء میں اختلاف ہے کہ اس جگہ اشہر حرم سے کونسے چارمہینے مراد ہیں۔ بعض نے کہا ہے وہی چار مہینے مشہور ہیں کہ جن میں جنگ کرنی عرب میں ممنوع تھی۔ یعنی ذیقعدہ ٗ ذی الحج ٗ محرم ٗ رجب۔ پس جن کے لئے عہد معین نہ تھا ان کے لئے حج اکبر کے دن سے لے کر محرم تک مہلت تھی اور جن کی مدت چار مہینے یا زیادہ ہے۔ ان کے لئے پورے چارمہینے حج اکبر کے روز سے لے دسویں ربیع الثانی تک مہلت قرار پائی تھی۔ حج اکبر کی تفسیر میں علماء کے چند قول ہیں عمر اور ابن الزبیر و ابن عباس ؓ و عطا و طائوس و مجاہد کہتے ہیں عرفہ کا دن کیونکہ بڑے ارکان اسی روز ادا ہوتے ہیں اور بعض کہتے ہیں نحر کا دن۔ پس اس کے بعد کسی کا عہد باقی نہیں بجز ان کے کہ جنہوں نے آپ سے عہد شکنی نہ کی تھی وہ بنو حمزو کنانہ کا ایک قبیلہ تھا۔ پھر اس کے بعد جو کوئی کہیں مل جائے قتل کیا جائے یا غلام بنایا جائے۔ ان کا محاصرہ کیا جاوے۔ ان کے راستے روکے جاویں۔ اگر توبہ کریں چھوڑ دیے جائیں مگر ان میں سے جو کوئی کلام الٰہی سننے کے لئے آوے وہ قتل نہ کیا جاوے بلکہ اس کی جگہ میں پہنچا دیا جاوے جبکہ وہ کلام الٰہی سن چکے۔ یہ خلاصہ احکامات ہے۔ 2 ؎ تبوک عراق عرب میں ایک چشمہ ہے لوگوں نے مشہور کیا تھا کہ ہرقل شاہ روم کی طرف سے مدینہ پر حملہ کرنے کے لئے لشکر جرار آتا ہے۔ اس کے مقابلہ کے لئے آنحضرت ﷺ بیس ہزار آدمی لے کر وہاں تک گئے وہاں کچھ نہ پایا۔ یہ چڑھائی گرمی کے دنوں میں تھی اور صحابہ میں افلاس بہت تھا۔ اس لئے اس کو جیش العسرۃ بھی کہتے ہیں۔ اسی مقام کے قریب خالد بن ولید نے دومۃ الجندل کا محاصرہ کرکے وہاں کے نصرانی کو گرفتار کیا تھا۔ 12 منہ
Top