Tafseer-Ibne-Abbas - Hud : 106
فَاَمَّا الَّذِیْنَ شَقُوْا فَفِی النَّارِ لَهُمْ فِیْهَا زَفِیْرٌ وَّ شَهِیْقٌۙ
فَاَمَّا : پس الَّذِيْنَ : جو لوگ شَقُوْا : بدبخت فَفِي : سو۔ میں النَّارِ : دوزخ لَهُمْ : ان کے لیے فِيْهَا : اس میں زَفِيْرٌ : چیخنا وَّشَهِيْقٌ : اور دھاڑنا
تو جو بدبخت ہوں گے وہ دوزخ میں (ڈال دیئے جائیں گے) اس میں انکو چلانا اور دھاڑنا ہوگا۔
(106۔ 107) اور پھر اس دن بعض لوگ تو شقی ہوں گے کہ ان کے لیے شقاوت لکھ دی ہوگی اور بعض سعید کہ ان کے لیے سعادت لکھی ہوئی ہوگی، سو جو لوگ شقی ہیں وہ دوزخ میں ایسے حال سے ہوں گے کہ اس میں ان کی چیخ و پکار پڑے گی، نعوذ باللہ جیسا کہ گدھا پہلی مرتبہ اپنے سینے سے آواز نکال کرچیختا ہے اور آخر میں چیختا ہے اور وہ ہمیشہ ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے، جیسا کہ آسمان و زمین پیدایش کے وقت سے لے کر فنا تک موجود ہیں اور آپ کے پروردگار کی مشیت ان کے جہنم میں رہنے کے بارے میں ہے، یا یہ کہ اہل شقاوت ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے جیسا کہ دوزخ کا آسمان اور دوزخ کی زمین موجود ہے، یا پھر یہ کہ آپ کا پروردگار ان لوگوں میں سے اس توحید والے کو نکال لے جس کی شقاوت کسی گناہ کی وجہ سے ہو کفر کے سبب سے نہ ہو، پھر اس کو اس کے ایمان خالص کی وجہ سے جنت میں داخل کردے آپ کا رب جو کچھ چاہے اس کو پورے طور سے کرسکتا ہے۔
Top