Dure-Mansoor - Hud : 106
فَاَمَّا الَّذِیْنَ شَقُوْا فَفِی النَّارِ لَهُمْ فِیْهَا زَفِیْرٌ وَّ شَهِیْقٌۙ
فَاَمَّا : پس الَّذِيْنَ : جو لوگ شَقُوْا : بدبخت فَفِي : سو۔ میں النَّارِ : دوزخ لَهُمْ : ان کے لیے فِيْهَا : اس میں زَفِيْرٌ : چیخنا وَّشَهِيْقٌ : اور دھاڑنا
سو جو لوگ شقی ہوں گے وہ دوزخ میں ہوں گے اس میں انکی چیخ و پکار ہوگی
1:۔ ابن ابی حاتم وابو الشیخ وان مردویہ رحمہم اللہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ یہ دونوں آیتیں (آیت) ” فمنہم شقی و سعید “ اور یوم یجمع اللہ الرسل فیقول فاذا اجبتم قالوا لاعلم لنا “ (المائدہ آیت 109) پوشیدہ باتوں میں سے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا یہ قول (آیت) ” فمنہم شقی و سعید “ اس سے بڑے گناہوں کا ارتکاب کرنے والے وہ لوگ ہیں جو اس قبلہ والوں میں سے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو آگ کا عذاب دے گا جب تک چاہے گا ان کے گناہوں کے بدلہ میں پھر ان کے بارے میں شفاعت کی اجازت دی جائے گی۔ ایمان والے ان کے لئے شفاعت کریں گے تو ان کو آگ سے نکال کر جنت میں داخل کردیں گے ان کا نام استفیاء رکھا گیا جب ان کو آگ میں عذاب دیا گیا (اسی کو فرمایا) (آیت) ” فاما الذین شقوا ففی النار لہم فیھا زفیروشہیق (106) خلدین فیھا ما دامت السموت والارض الا ما شآء ربک “ جب اللہ تعالیٰ ان کے لئے شفاعت کی جازت دی تو ان کو آگ سے نکال کر جنت میں داخل کیا وہ حالانکہ وہ وہ تھے اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” واما الذین سعدوا “ یعنی جو خوش نصیب ہیں بدبختی کے بعد جس میں وہ تھے (اور فرمایا) (آیت) ” ففی الجنۃ خلدین فیھا ما دامت السموت والارض الا ما شآء ربک “ یعنی وہ لوگ جو آگ میں تھے (اب وہ) ہمیشہ جنت میں رہیں گے۔ 2:۔ ابن جریر وابوالشیخ وابن مردویہ رحمہم اللہ نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے یہ آیت ” فاما الذین شقوا “ تلاوت کی اور کہا کہ ہم کو انس ؓ نے بیان فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ایک قوم آگ سے نکلے گی اور ہم اس طرح نہیں ہوں گے جیسے کہ حروروالوں نے کہا (حروراء ایک جگہ کا نام ہے ) ۔ 3:۔ ابن مردویہ (رح) نے جابر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے یوں پڑھا (آیت) ” فاما الذین شقوا “ سے لے کر (آیت) ” الا ماشآء ربک “ تک رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر اللہ نے چاہا کہ ایسے لوگوں کو جہنم سے نکالے جو بدبخت ہیں پھر ان کو جنت میں داخل کردے تو وہ ایسا کرسکتا ہے۔ 4:۔ ابن جریر وابن ابی حاتم رحمہما اللہ نے خالد بن معدان (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” الا ماشآء ربک “ کے بارے میں فرمایا کہ یہ آیت قبلہ والوں کی توحید کے بارے میں ہے۔ 5:۔ ابوالشیخ (رح) نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” الا ماشآء ربک “ سے مراد ہے مگر جو مستثنہ کئے گئے قبلہ والوں میں سے۔ 6:۔ عبدالرزاق وابن الضریس وابن جریر وابن منذر والطبرانی والبیہقی (رح) نے الاسماء والصفات میں ابو نضرہ سے روایت کیا کہ وہ جابر بن عبداللہ انصاری یا ابو اسعید خدری یا رسول اللہ ﷺ کے اصحاب سے کسی ایک آدمی سے روایت کرتے ہیں (آیت) ” الا ماشآء ربک، ان ربک فعال لما یرید “ یہ آیت فیصلہ کرنے والی ہے سارے قرآن پر جہاں قرآن میں ہے ” خلدین فیھا “ یہ اس پر صادق آتی ہے۔ 7:۔ ابن منذر وابن ابی حاتم وابو الشیخ والبیہقی نے ابو نصرہ (رح) سے روایت کیا کہ سارا قرآن اس آیت ” ان ربک فعال لما یرید “ پر ختم ہوجاتا ہے۔ 8:۔ ابن جبیر (رح) نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے اس آیت ” واما الذین سعدوا “ کے بارے میں فرمایا یہ ان لوگوں کے بارے میں ہے جو آگ سے نکلیں گے اور جنت میں داخل ہوں گے فرماتے ہیں ہمیشہ جنت میں رہیں گے (آیت) ” ما دامت السموت والارض الا ما شآء ربک “ اور فرماتے ہیں مگر جب تک تیرے رب نے چاہا ان کو جہنم میں ٹھہرایا گیا یہاں تک کہ پھر ان کو جنت میں داخل کردیا جائے گا۔ 9:۔ ابو الشیخ نے سنان (رح) سے روایت کیا کہ توحید والوں کے بارے میں استثنی کیا پھر فرمایا (آیت) ” عطآء غیر مجذوذ “ 10:۔ ابن ابی حاتم (رح) نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” ما دامت السموت والارض “ کے بارے میں فرمایا کہ ہر جنت کے لئے ایک آسمان ہے اور زمین ہے۔ 11:۔ ابن ابی حاتم وابوالشیخ نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” ما دامت السموت والارض “ کے بارے میں فرمایا کہ اس سے مراد ہے جنت آسمان اور اس کی زمین ہے (کہ جب تک وہ قائم ہیں) 12:۔ ابن ابی حاتم وابوالشیخ نے حسن ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” مادامت السموت والارض “ کے بارے میں فرمایا آسمان کو تبدیل کردیا جائے گا اس آسمان کے علاوہ اور زمین کو بھی تبدیل کردیا جائے گا اس زمین کے علاوہ اور وہ آسمان اور زمین ہمیشہ رہیں گے۔ قیامت کے دن آسمان و زمین کی صفائی ہوگئی : 13:۔ ابن ابی حاتم نے حسن ؓ سے روایت کیا کہ جب قیامت کا دن ہوگا تو اللہ تعالیٰ ساتویں آسمان اور ساتویں زمینوں کو پکڑلے گا اور ان کو پاک کردے گا ہر گندگی اور میل کچیل سے اور ان زمینوں کو سفید چاندی کی طرح بنادیں گے جس کا نور چمکتا رہے گا۔ اور ان کو جنت کی زمین بنادیں گے۔ اور (یہ) آسمان اور زمین اس دن جنت میں اس طرح ہوں گے جیسے دنیا میں جنت سے اللہ تعالیٰ ان کو جنت کی چوڑائی بنادیں گے اور جنت کو اس پر رکھ دیں گے اور یہ جنت اس دن زعفرانی زمین پر ہوگی عرش کی داہنی طرف سے اور شرک والے ہمیشہ رہیں گے جہنم میں جب تک جنت کے لئے زمین قائم ہے۔ 14:۔ بیہقی نے البعث النشور میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” الا ماشآء ربک “ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ تحقیق رب تیرے نے چاہا کہ یہ لوگ آگ میں ہمیشہ رہیں گے اور وہ لوگ جنت میں ہمیشہ رہیں گے۔ 15:۔ ابوالشیخ نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” فاما الذین شقوا “ کے بارے میں فرمایا اس کے بعد اللہ کی مشیت کا حکم آیا اور اس کو منسوخ کردیا گیا اللہ تعالیٰ نے مدینہ منورہ میں نازل فرمایا (آیت) ” ان الذین کفروا وظلموا لم یکن اللہ لیغفرلہم ولالیھدیہم طریقا “ آیت آخر تک پس اسے دوزخ والوں کے لئے اور ختم ہوگئی کہ وہ اس سے نکلیں گے اور ان کے لئے ہمیشہ ہمیشہ کا جہنم کا داخلہ کو واجب کردیا اور اللہ تعالیٰ کا یہ قول (آیت) ” واما الذین سعدوا “ فرمایا اس کے بعد اللہ کی مشیت کا ذکر ہوا جس نے اسے منسوخ کردیا اللہ تعالیٰ نے مدینہ منورہ میں یہ آیت اتاری (آیت) ” والذین امنوا وعملوالصلحت سندخلہم جنت تجری “ سے لے کر (آیت) ” ظلاظلیلا “ تک اور ان کے لئے ہمیشہ ہمیشہ کا داخل ہونا (جنت میں) واجب کردیا گیا۔ 16:۔ ابن جریر (رح) نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” الا ما شآء ربک “ کے بارے میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے آگ کے حکم سے استثنی کی ہے کہ وہ ان کو کھائے۔ 17:۔ ابن منذر (رح) نے حضرت عمر ؓ سے روایت کیا کہ اگر دوزخ والے دوزخ میں (اتنی مدت) ٹھہریں کہ جتنے عالج (مقام) کی ریت (کے ذرات) ہیں تو ان کے لئے ایک دن آئے گا کہ وہ اس میں سے نکلیں گے۔ 18:۔ اسحاق بن راھویہ (رح) نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ عنقریب جہنم میں ایک ایسا دن آئے گا کہ جس میں کوئی ایک بھی باقی نہیں رہے گا۔ اور (یہ آیت) ” فاما الذین شقوا “ الآیہ پڑھی۔ 19:۔ ابن منذر وابوالشیخ رحمہما اللہ نے ابراہیم (رح) سے روایت کیا کہ قرآن میں کوئی آیت نہیں جو زیادہ امید دلانے والی ہو دوزخ والوں کے لئے اس آیت ” خلدین فیھا مادامت السموت والارض الا ماشآء ربک “ سے بڑھ کر راوی نے کہا اور ابن مسعود ؓ نے فرمایا زمین و آسمان پر ایک زمانہ ضرور آئے گا کہ ان کے دروازے چر چراکر پھٹ جائیں گے۔ 20:۔ ابن جریر (رح) نے شعبی (رح) سے روایت کیا کہ دونوں گھروں (یعنی جنت اور جہنم) میں سے جہنم سب سے جلدی آباد ہونے والا گھر ہے اور ان دونوں میں سے سب سے جلدی ہی خراب ہونے والا گھر ہے۔ 21:۔ عبدالرزاق وابن جریر وابن ابی حاتم رحمہم اللہ نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” الا ماشآء ربک “ کے بارے میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ زیادہ جاننے والے ہیں اپنی مشیت کو جب پر وہ واقع ہوگی۔ 22:۔ ابن جریر (رح) نے ابن زید (رح) سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ اس بات کی خبر دے دی جو انہوں نے جنت والوں کے لئے چاہا۔ اور فرمایا (آیت) ” عطآء غیر مجذوذ “ (یعنی بخشش ہے بےانتہا) اور ہم کو اس بات کی خبر نہیں دی جو وہ دوزخ والوں کے ساتھ چاہیں گے۔ 23:۔ ابن منذر (رح) نے ابو وائل سے روایت کیا کہ انہوں نے جب قرآن میں سے کسی چیز کے بارے میں پوچھا جاتا تھا تو وہ فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے سب کام درست کردیئے جس کا انہوں نے ارادہ فرمایا۔ 24:۔ ابن جریر وابن ابی حاتم وابو الشیخ وابن مردویہ والبیہقی رحمہم اللہ نے البعث والنشور نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” لھم فیھا زفیر وشھیق “ کے بارے میں فرمایا کہ زفیر حلق میں سخت آواز کو کہتے ہیں اور شھیق سینے میں کمزور آواز کو کہتے ہیں اور فرمایا (آیت) ” غیر مجزوذ “ کا معنی ہے غیر متطوع اور دوسرے لفظ میں ہے کہ غیر منقطع یعنی نہ ختم ہونے والا نہ کٹنے والا دونوں کا ایک ہی معنی ہے (یعنی ایسی عطا جو نہ کٹے گی نہ ختم ہوگی ) ۔ 25:۔ ابن الانباری (رح) نے الوقف میں نافع بن ارزق (رح) سے روایت کیا کہ اور ابن عباس ؓ نے پوچھا کہ مجھے اللہ تعالیٰ کے اس قول (آیت) ” لھم فیھا زفیر وشھیق “ کے بارے میں بتائیے کہ زفیر کیا چیز ہے ؟ تو انہوں نے فرمایا کہ زفیر گدھے کی آواز کی طرح ہوتی ہے اس کے بارے میں اوس بن حجر نے فرمایا۔ ولا غذر ان لاقیت اسمای بعدھا فیغشی علینا ان فعلت وتعذر ترجمہ : کوئی عذر نہیں اگر تو اس کے بعد اپنے معبودوں سے جا کر ملے اور تو ایسا کرے اور معذرت پیش کرے تو ہم پر غالب آجائے گی۔ فیجزھا ان رب یوما وقفتہ علی ھضات السفیح تبکی وتزفر۔ ترجمہ : اور وہ اسے بتادے گی کہ کئی دن تک تو خون باننے کے ٹیلوں پر ہچکیاں باندھ کر روتے ہوئے ٹھہرا رہا۔
Top