Ruh-ul-Quran - Hud : 106
فَاَمَّا الَّذِیْنَ شَقُوْا فَفِی النَّارِ لَهُمْ فِیْهَا زَفِیْرٌ وَّ شَهِیْقٌۙ
فَاَمَّا : پس الَّذِيْنَ : جو لوگ شَقُوْا : بدبخت فَفِي : سو۔ میں النَّارِ : دوزخ لَهُمْ : ان کے لیے فِيْهَا : اس میں زَفِيْرٌ : چیخنا وَّشَهِيْقٌ : اور دھاڑنا
پس رہے وہ لوگ جو بدنصیب ہیں وہ آگ میں ہوں گے۔ ان کے لیے اس آگ میں چیخنا ہے اور پھنکارنا ہے۔
فَاَمَّا الَّذِیْنَ شَقُوْا فَفِی النَّارِ لَھُمْ فِیْھَا زَفِیْرٌ وَّ شَھِیْقٌ۔ خٰلِدِیْنَ فِیْھَا مَادَامَتِ السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ اِلاَّ مَاشَآئَ رَبُّکَ ط اِنَّ رَبَّکَ فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ ۔ وَاَمَّا الَّذِیْنَ سُعِدُوْا فَفِی الْجَنَّۃِ خٰلِدِیْنَ فِیْھَا مَا دَامَتِ السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ اِلاَّ مَاشَآئَ رَبُّکَ ط عَطَآئً غَیْرَمَجْذُوْذ۔ (سورۃ ہود : 106، 107، 108) (پس رہے وہ لوگ جو بدنصیب ہیں وہ آگ میں ہوں گے۔ ان کے لیے اس آگ میں چیخنا ہے اور پھنکارنا ہے۔ وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے جب تک آسمان اور زمین قائم ہے۔ مگر جو چاہے آپ ﷺ کا پروردگار۔ بیشک آپ ﷺ کا رب کر گزرنے والا ہے اس کا جس کا ارادہ کرتا ہے۔ اور رہے وہ لوگ جو خوش نصیب ہیں تو وہ جنت میں ہوں گے اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے، جب تک آسمان اور زمین قائم ہیں۔ مگر جو آپ ﷺ کا رب چاہے، یہ وہ عطا ہے جو ختم نہیں ہوگی۔ انسانوں کی تقسیم جو لوگ اپنی بداعمالی کے باعث بدبخت ٹھہریں گے یعنی وہ سرے سے ایمان سے ہی تہی دامن ہوں گے اور ان کے اعمال میں سوائے اللہ سے سرکشی کے سوا اور کچھ نہیں ہوگا تو ان کا انجام جہنم ہوگا۔ جب انھیں جہنم میں ڈالا جائے گا تو وہاں عذاب کی شدت اور پیاس کی بےتابی کے باعث اس طرح ان کے منہ سے آوازیں نکلیں گی جیسے گدھے کے منہ سے نکلتی ہیں۔ گدھا جب چیختا ہے تو جو سانس وہ باہر کی طرف نکالتا ہے اس کو زفیر کہتے ہیں اور جو سانس اندر کو لے جاتا ہے اس کو شہیق کہتے ہیں یعنی اس بدنصیب کا حال یہ ہوگا کہ سزا کے طور پر آگ میں تو جلنا ہی ہوگا لیکن ساتھ ہی ذلت کا عالم یہ ہوگا کہ گدھوں کی طرح چیخیں اور چلائیں گے اور اس آگ میں وہ اس وقت تک رہیں گے جب تک زمین و آسمان قائم ہیں یعنی یہ ہمیشہ رہیں گے۔ کیونکہ زمین و آسمان سے مراد یہ دنیوی زمین و آسمان نہیں بلکہ وہ زمین و آسمان ہیں جو قیامت کے بعد دوبارہ وجود میں لائے جائیں گے کیونکہ قیامت کے بپا ہونے کے ساتھ ہی زمین بھی ٹوٹ پھوٹ جائے گی اور آسمان بھی تباہ ہوجائیں گے۔ البتہ ان کی جگہ نئی زمین اور نئے آسمان بنیں گے۔ قرآن کریم میں ہے یَوْمَ تُبَدَّلُ الُاَرْضُ غَیْرَالْاَرْضِ وَالسَّمٰوٰتُ قیامت کے دن زمین و آسمان بدل دیئے جائیں گے۔ زمین پہلی سے زمین نہیں ہوگی اور آسمان پہلا سا آسمان نہیں ہوگا۔ اب یہ دونوں ہمیشہ باقی رہیں گے، کبھی انھیں زوال نہیں آئے گا۔ یہاں یہ جو فرمایا گیا کہ جب تک زمین و آسمان قائم ہیں تو اس سے مراد یہ ہے کہ جس طرح وہ ہمیشہ قائم رہیں گے، اسی طرح اہل جہنم ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ اس کے بعد ایک استثنا ہے اِلاَّ مَاشَا ئَ رَبُّکَمگر جو چاہے تیرا رب، اس سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ تمام بدبخت یعنی کافر لوگ بھی ہمیشہ جہنم میں نہیں رہیں گے جن کے بارے میں اللہ کچھ اور چاہے گا وہ اس کے مطابق جہنم سے نکال دیئے جائیں گے، مگر اس سے یہ مراد نہیں کیونکہ احادیث میں وضاحت موجود ہے کہ کافر ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ قرآن کریم میں بھی ہے وَمَا ھُمُ بِخَارِجِیْنَ مِنَ النَّارِ ، کہ وہ لوگ جہنم سے کبھی نہیں نکلیں گے۔ اس لیے آیت کے اس جملے سے تنبیہہ کرنا مقصود ہے کہ اس سے یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ اللہ تعالیٰ اپنے اس قانون کے ہاتھوں مجبور ہے، اب وہ اگر چاہے بھی تو کسی کافر کو جہنم سے نکال نہیں سکتا۔ اس لیے فرمایا کہ تیرا رب اگر چاہے تو وہ اس سے مختلف فیصلہ بھی کرسکتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ اپنے فیصلے بدلا نہیں کرتا۔ کوئی قانون بھی اس پر لازم نہیں ہوتا۔ البتہ ہر قانون اس کا محتاج ہے۔ اس کی مشیت جو بھی چاہے وہی ہوجائے گا۔ لیکن دوسری تصریحات کے مطابق وہ ایسا چاہے گا نہیں اور آیت کے آخری حصہ میں خود اس کی وضاحت بھی موجود ہے کہ تیرا رب جو چاہے اسے کر گزرنے والا ہے۔ یعنی وہ خودمختار ہے۔ وہ کسی دوسرے کی مرضی کا پابند نہیں۔ اہل جنت کے مدارج میں ترقی ہوتی رہے گی تیسری آیت میں فرمایا گیا ہے کہ رہے وہ لوگ جو خوش بخت ٹھہرے کہ جو ایمان و عمل کی وجہ سے اللہ کے یہاں خوش نصیب ہوں گے انھیں اللہ تعالیٰ جنت میں داخل فرمائے گا اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے جب تک زمین و آسمان قائم ہیں۔ زمین و آسمان قیامت کے بعد چونکہ ہمیشہ قائم رہیں گے اس لیے یہ لوگ بھی ہمیشہ رہیں گے۔ البتہ اس سے یہ اشارہ نکلتا ہے کہ اہل جنت کے حالات اور مدارج میں ہمیشہ یکسانی نہیں رہے گی۔ ان میں جب اللہ کو منظور ہوگا تبدیلی بھی آئے گی۔ لیکن یہ تبدیلی خوب سے خوب تر کی طرف ہوگی کہ جن مقامات پر انھیں فائز کیا جائے گا، وقت کے ساتھ ساتھ ان میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ لیکن یہ اس وقت ہوگا جب اللہ کی مشیت کو منظور ہوگا۔ آیت کے آخری حصہ میں اس کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے کہ اہل جنت کا جنت میں جانا یہ وہ عطا ہے جو کبھی ختم نہیں ہوگی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس تبدیلی کا یہ مفہوم ہرگز نہیں کہ اہل جنت کو جنت سے نکالا جائے گا کیونکہ ان کا جنت میں دخول اللہ کی عطا ہے جس کے انقطاع کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ البتہ جب اللہ تعالیٰ کو منظور ہوگا تو اس عطا و بخشش میں یقینا نئے نئے پھول کھلیں گے۔
Top