Mafhoom-ul-Quran - Al-Baqara : 141
تِلْكَ اُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ١ۚ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَ لَكُمْ مَّا كَسَبْتُمْ١ۚ وَ لَا تُسْئَلُوْنَ عَمَّا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ۠   ۧ
تِلْکَ أُمَّةٌ : یہ امت قَدْ : تحقیق خَلَتْ : جو گزر گئی لَهَا : اس کے لئے مَا کَسَبَتْ : جو اس نے کمایا وَ : اور لَکُم : تمہارے لئے مَا کَسَبْتُمْ : جو تم نے کمایا وَ : اور لَا : نہ تُسْئَلُوْنَ : پوچھا جائے گا عَمَّاکَانُوْا : اس کے بارے میں جو وہ يَعْمَلُوْنَ : کرتے تھے
وہ ایک جماعت تھی جو گزر چکی ان کے لئے ہے جو انہوں نے کیا اور تمہارے لئے ہے جو تم نے کیا اور تم سے ان کے اعمال کے متعلق کچھ پوچھ نہیں ہوگی
اپنے اعمال کا بدلہ تشریح : اللہ جل شانہ یہودیوں اور عیسائیوں کو مخاطب کرکے فرماتے ہیں کہ جو لوگ تم سے پہلے گزر چکے ہیں میں انکے بارے میں خوب جانتا ہوں وہ اصل توحید پر قائم تھے، ان کی نیکیاں ان کے کام آئیں گی تمہارے یا کسی اور کے کام نہیں آئیں گی اور تمہیں تمہارے بزرگوں کی نیکیاں نہ بچا سکیں گی۔ جیسا کہ تم اپنے بزرگوں کی نیکیوں پر بھروسہ کرتے ہوئے تمام برائیاں اور نافرمانیاں کرتے ہو۔ دوسروں کے اعمال پر بھروسہ رکھنا سخت نادانی اور بھول ہے، دنیا میں بہت سی قومیں اسی غلط فہمی کی وجہ سے تباہ و برباد ہوگئیں، حقیقت یہ ہے کہ ہمارے اعمال کا بدلہ ہمیں دیا جائے گا اور ان کے اعمال کا بدلہ ان کو دیا جائے گا۔ اپنے اعمال میں خلوص اور نیک نیتی کو سامنے رکھنا ضروری ہے۔ دکھاوے اور بدنیتی سے تمام اعمال ضائع ہوجاتے ہیں۔ معارف القرآن میں اخلاص کی تعریف یوں کی گئی ہے۔ ” بزرگوں نے فرمایا : کہ اخلاص ایک ایسا عمل ہے جس کو نہ تو فرشتے پہچان سکتے ہیں اور نہ شیطان یہ صرف بندے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان ایک راز ہے۔ پارہ اول کو ہم نے اللہ تعالیٰ کی مدد کے ساتھ مکمل کیا۔ جس کا خلاصہ یہ ہے۔ خلاصہ پارہ اول قرآن پاک مسلمانوں کی مقدس کتاب ہے، جو لوگوں کو ہدایت دینے کا ذریعہ ہے۔ اس میں انسان کی پیدائش سے لے کر قیامت تک کے تمام نکات واضح کر کے سمجھا دیئے گئے ہیں۔ غرض اصول اسلام میں توحید، رسالت، کتب سماوی، ملائکہ، قبر اور قیامت پر پوری طرح روشنی ڈال دی گئی ہے۔ مشہور مفسر قرآن حضرت مولانا احمد علی صاحب لاہوری نے فرمایا : ” اللہ کی عبادت کرکے اس کو راضی کرلو، محمد ﷺ کی اطاعت کرکے ان کو راضی کرلو اور مخلوق خدا کی خدمت کرکے اس کو راضی کرلو۔ “ پارہ اول : پہلی سورة فاتحہ میں ایک رکوع اور سات آیات ہیں، سورة الفاتحہ کو برکت، معانی اور مقاصد کے اعتبار سے سب سے بڑی سورة قرار دیا گیا ہے۔ یہ ایک دعا ہے جس کے جواب میں پورا قرآن مجید عطا کردیا گیا ہے۔ سورة بقرہ سولہ رکوع پر مشتمل ہے، سورة البقرہ کے شروع میں مومن، کافر، منافق، ان تین جماعتوں کا ذکر ہے۔ پہلے رکوع میں اسلام کے بنیادی اصولوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ دوسرے رکوع میں گروہ منافقین کا ذکر ہے۔ تیسرے رکوع میں توحید کے دلائل دیئے گئے ہیں۔ چوتھا رکوع و حی الٰہی اور کمال انسان پر مشتمل ہے۔ پانچویں رکوع میں انعام یافتہ قوم یہود کا ذکر ہے۔ چھٹے رکوع میں بنی اسرائیل سے خطاب کیا جارہا ہے۔ ساتویں رکوع میں بنی اسرائیل کے متعدد واقعات بیان کئے گئے ہیں۔ آٹھویں رکوع میں احساناتِ الٰہی جو یہود پر کئے گئے اور ان کی نافرمانیوں کا ذکر ہے۔ نویں رکوع میں گائے کا واقعہ بیان ہوا ہے۔ دسویں رکوع میں ایمان اور عمل صالح کا بیان ہے۔ گیا رھویں رکوع میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی شریعت، قوم کی نافرمانیوں اور عذاب الٰہی کا ذکر کیا گیا ہے۔ بارھویں رکوع میں یہود کی بےراہ روی، ملائکہ سے دشمنی، رسولوں سے دشمنی، قرآن مجید کے فضائل کا ذکر اور پھر یہود کی بدعہدی کا ذکر کیا گیا ہے۔ تیرھویں رکوع میں قرآن مجید کی تعلیمات، غیر ضروری قوانین کی منسوخی، مسلمانوں کو تعمیل رسول ﷺ کا حکم، نماز وزکوٰۃ کا حکم دیا گیا ہے اور یہود کی خوش فہمیوں کا جواب دیا گیا اور آخر میں مومنین کی شان اور ان کے اجر کا ذکر کیا گیا۔ چودھویں رکوع میں اللہ کی وحدانیت، رسول ﷺ کا مقام کہ وہ بشیر و نذیر ہیں کفار کے اعمال کے جوابدہ وہ نہیں ہونگے۔ پندرھویں رکوع میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعاؤں، تعمیر کعبہ اور منصب امامت کا ذکر ہے۔ سولہویں رکوع میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے فضائل، ان کی اور حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی اپنے بیٹوں کو نصیحت اور اسکے فائدے، عقیدہ ابراہیمی کی وضاحت اور پھر یہ وضاحت کہ ہر شخص اپنے اعمال کا ہی فائدہ حاصل کرسکے گا حسب و نسب کسی کام نہ آئے گا۔ نیز قرآن مجید میں بار بار دہرایا گیا ہے کہ ” ہر ایک نفس جو عمل کرتا ہے اس کی ذمہ داری اسی پر ہے کسی کا بوجھ قیامت کے دن کوئی دوسرا نہیں اٹھا سکے گا “ (القرآن) ۔
Top