Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 141
تِلْكَ اُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ١ۚ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَ لَكُمْ مَّا كَسَبْتُمْ١ۚ وَ لَا تُسْئَلُوْنَ عَمَّا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ۠   ۧ
تِلْکَ أُمَّةٌ : یہ امت قَدْ : تحقیق خَلَتْ : جو گزر گئی لَهَا : اس کے لئے مَا کَسَبَتْ : جو اس نے کمایا وَ : اور لَکُم : تمہارے لئے مَا کَسَبْتُمْ : جو تم نے کمایا وَ : اور لَا : نہ تُسْئَلُوْنَ : پوچھا جائے گا عَمَّاکَانُوْا : اس کے بارے میں جو وہ يَعْمَلُوْنَ : کرتے تھے
یہ گروہ تھا جو گزر چکا اس کو ملے گا جو کچھ اس نے کمایا اور تمہارے لیے وہ ہے جو تم نے کمایا اور جو کچھ وہ کرتے رہے ہیں اس کی بابت تم سے سوال نہ ہوگا)
تِلْکَ اُمَّۃٌ قَدْ خَلَتْ ج لَھَا مَاکَسَبَتْ وَلَکُمْ مَّا کَسَبْتُمْ وَلَا تُسْئَلُوْنَ عَمَّا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ۔ (یہ گروہ تھا جو گزر چکا اس کو ملے گا جو کچھ اس نے کمایا اور تمہارے لیے وہ ہے جو تم نے کمایا اور جو کچھ وہ کرتے رہے ہیں اس کی بابت تم سے سوال نہ ہوگا) (البقرۃ : 141) یہ آیت کریمہ اسی رکوع میں اس سے پہلے بھی گزر گئی ہے۔ اس میں چونکہ ان کے بنیادی روگ کا ذکر کیا گیا ہے جس نے ان کی دینی زندگی تباہ کردی ہے۔ اس لیے دوبارہ انھیں خبردار کیا جارہا ہے کہ تم اپنے کرتوتوں کے بارے میں شائد اس لیے بےدھڑک واقع ہوئے ہو کہ تمہیں کسی گرفت کا اندیشہ نہیں۔ تم سمجھتے ہو کہ ہم اللہ کے نبیوں کی اولاد ہیں ہم سے کوئی باز پرس نہیں ہوگی۔ اگر کوئی ہوئی بھی تو ہمارے آبائو اجداد ہمیں چھڑا لیں گے۔ اس لیے دوبارہ یاد دہانی کرائی جارہی ہے کہ تمہارے آبائو ادجداد بہت عظیم لوگ ہیں لیکن ان کی نیکیاں اور ان کے کارنامے ان کے کام آئیں گے۔ تمہارے جرائم اور تمہارے گناہ تمہارے نامہ عمل کا حصہ ہوں گے۔ اس لیے ان کی بازپرس تم سے ہوگی اور تم ہی اپنے جرائم کے حوالے سے سزاپائو گے۔ اس لیے اگر اپنے ہولناک انجام سے بچنا چاہتے ہو تو آج اپنے رویے کو درست کرلو ورنہ قیامت کے دن تمہارے آبائو اجداد تمہارے کام نہیں آئیں گے۔ بنی اسرائیل پر تنقید سے مترشح ہونے والی حکمتیں پہلا پارہ تکمیل پذیر ہوا اور اہل کتاب پر فی الجملہ تنقید مکمل ہوگئی۔ تنقید کی تکمیل پر چند ایسی بصیرت افروز باتیں ارشاد فرمائی گئیں جس میں اہل کتاب کے لیے عموماً اور مسلمانوں کے لیے خصوصاً غور وفکر اور نصیحت آموزی کا بہت سامان رکھا گیا ہے۔ اس پوری بحث میں یوں تو حقائق کا ایک جہان سمٹا ہوا ہے لیکن معمولی غور وفکر سے بھی جو باتیں ابھر کر سامنے آتی ہیں۔ ان میں سے چند باتوں کو ہم ذکر کرتے ہیں۔ 1 اہل کتاب پر تنقید نے ان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کو پوری طرح بےنقاب کردیا ہے۔ یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ وہ اللہ کی جانب سے نہ صرف نبوت اور شریعت کے حامل تھے بلکہ انھیں دنیا کی ہدایت اور رہنمائی کے منصب پر بھی فائز کیا گیا تھا۔ اور اس سلسلے میں ان سے مسلسل عہدوپیمان لیے گئے تھے اور ان پر یہ بات واضح کردی گئی تھی کہ تمہیں دنیا پر جو عزت اور فضیلت عطا کی گئی ہے یہ تمہارے اس عہدوپیمان کے ایفا کے ساتھ مشروط ہے اگر تم نے اپنی حقیقی ذمہ داریوں سے پہلو تہی کی تو پھر تم اس عزت اور فضیلت سے محروم کردئیے جاؤ گے۔ چناچہ اس تنقید نے پوری طرح یہ بات کھول کر رکھ دی کہ بنی اسرائیل اپنی منصبی ذمہ داریوں کو ادا کرنے سے بری طرح قاصر رہے ہیں اور انھوں نے قدم قدم پر اللہ سے کیے گئے مواثیق کو توڑا ہے اب وہ ہرگز اس کے اہل نہیں رہے کہ انھیں دنیا کی امامت کے منصب پر باقی رکھا جائے۔ 1 حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی عظیم پیغمبرانہ زندگی کے چند گوشوں کو واضح کرکے یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو انسانوں کی امامت و سیادت کے منصب پر اس لیے فائز نہیں کیا تھا کہ یہ کوئی موروثی منصب تھا بلکہ آپ نے اللہ کی اطاعت و بندگی اور اس راستے میں پیش آنے والی آزمائشوں میں سرخرو ہوکر اپنے آپ کو اس منصب کا اہل ثابت کیا تھا اور آئندہ کے لیے بھی آپ کو بتادیا گیا تھا کہ آپ کی اولاد میں سے یہ منصب اسی کو ملے گا جو آپ کی طرح اپنی اہلیت کو ثابت کرے گا۔ بنی اسرائیل کا نااہل ہونا چونکہ پہلے ثابت کیا جاچکا ہے اس لیے اب اس سے ایک ہی نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ اب اس امامت کے منصب پر ایک اور امت فائز کی جائے گی۔ 3 حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی زندگی کے چند اوراق الٹتے ہوئے یہ بھی بتایا گیا ہے کہ آپ ہی نے مکہ معظمہ میں اللہ کے پہلے گھر کو تعمیر کیا تھا اور اسی گھر کے لیے آپ نے یہ دعا مانگی تھی کہ یا اللہ اسے لوگوں کا مرکز بنانا اور اپنی اولاد کے لیے باربار دعا کی کہ یا اللہ ! اپنے اس گھر کو میری ساری اولاد کا قبلہ بنانا اور یہ بات سمجھنا کوئی مشکل نہیں کہ آپ کی اولاد جس طرح حضرت اسماعیل تھے اسی طرح حضرت اسحاق (علیہ السلام) بھی تھے اور دونوں ہی سے آگے سلسلہ ہدایت چلا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ان دونوں کی نسل اور اولاد کے لیے اسی گھر کو قبلہ بنایا۔ 4 حضرت ابراہیم نے اس گھر کی تعمیر کے بعد اللہ سے بطور خاص یہ دعا مانگی کہ یا اللہ ! میری اولاد جو اس گھر کی تولیت اور خدمت کے لیے آباد ہو انھیں میں اپنا آخری پیغمبر بھیجنا تاکہ وہ پوری دنیا کے لیے اس گھر کو تیرے دین کا مرکز بنادے۔ اور میری اور اسماعیل کی اولاد سے ایک امت اٹھانا جو صرف تیری فرماں بردار اور عبادت گزار ہو۔ تحویلِ قبلہ کی تمہید ان تمام مقدمات کو پیش نظر رکھئے اور پھر غور فرمائیے کہ بنی اسرائیل کی معزولی کے بعد جس امت کو اس عظیم منصب پر فائز کیا جارہا ہے کیا وہ امت اس آخری نبی کی امت کے علاوہ کوئی اور بھی ہوسکتی ہے ؟ اور اس امت کو چونکہ پوری دنیا کی قیادت اور امامت کے منصب پر فائز کیا جارہا ہے تو کیا اس کا قبلہ اس قبلے سے مختلف ہوسکتا ہے جسے اس قبلے کو تعمیر کرنے والے دنیا کے پہلے امام نے اپنا قبلہ بنایا تھا اور اسی قبلے کے صحن میں کھڑے ہو کر اس امت کے لیے دعائیں مانگی تھیں۔ یہ دونوں باتیں اس قدر واضح ہیں کہ معمولی غور وفکر سے بھی بڑی آسانی سے سمجھ میں آسکتی ہیں۔ اس لیے جو آدمی بھی تاریخ کے ان گوشوں کو سامنے رکھ کر غور وفکر کرے گا وہ تحویلِ قبلہ کے حوالے سے کوئی اعتراض کرنے کی جرات نہیں کرسکتا۔ البتہ ! صرف وہ شخص اعتراض کرسکتا ہے جس کے دماغ میں سرے سے عقل نہ ہو۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آنحضرت ﷺ جب تک مکہ معظمہ میں تھے تو آپ بیت اللہ اور بیت المقدس دونوں کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے تھے۔ آپ رکن یمانی اور حجرِ اسود کے درمیان کھڑے ہوتے اس طرح سے آپ کا رخ مبارک بیت اللہ کی طرف بھی ہوتا اور بیت المقدس کی طرف بھی۔ مگر جب آپ ہجرت فرماکر مدینہ طیبہ تشریف لے آئے۔ تو دونوں کی طرف نماز میں منہ کرنا ممکن نہ رہا اس لیے آپ اللہ کے حکم سے بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے رہے۔ آپ کا بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنا اس بات کا واضح اشارہ تھا کہ اسلام کسی گروہ بندی کے لیے نہیں آیا اور آنحضرت ﷺ کسی گروہ کے پیغمبر نہیں بلکہ جس طرح آپ بیت اللہ کے پیغمبر ہیں اسی طرح آپ بیت المقدس کے بھی پیغمبر ہیں۔ اسی لیے آپ کو معراج کی رات مکہ معظمہ سے مسجد اقصیٰ یعنی بیت المقدس لے جایا گیا تاکہ لوگوں کے سامنے یہ بات کھل جائے کہ دنیا پہلے دو قبلوں میں تقسیم تھی اب اللہ کے وہ آخری نبی آگئے ہیں جو نبی القبلتین ہیں البتہ تحویلِ قبلہ کے ساتھ یہ بات واضح کردی کہ بیت المقدس کے قبلہ ہونے سے انکار نہیں۔ لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) جو دنیا کے اصل امام تھے اور جن کی امامت پہلے بنی اسرائیل کی طرف اور اب اس امت کی طرف منتقل ہورہی ہے انھوں نے بیت اللہ کی تعمیر کی تھی اور بیت المقدس سینکڑوں سال بعد حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے ہاتھوں وجود میں آیا اور اسے اس طرح بنایا گیا تھا کہ اس کا رخ بیت اللہ کی طرف تھا کیونکہ اصل قبلہ بیت اللہ ہی تھا۔ بیت المقدس کو صرف انبیائے بنی اسرائیل کا قبلہ اس لیے بنایا گیا تھا کہ ایک تو اس کا رخ بیت اللہ ہی کی طرف تھا اور دوسری یہ بات کہ اس وقت کے سیاسی اور دینی حالات اس بات کی اجازت نہ دیتے تھے کہ بنی اسرائیل بیت اللہ کو قبلہ بناکر اس کے حقوق کی ادائیگی کرسکیں اور ان کو جس مرکز کی ضرورت تھی بیت اللہ ان سے دور ہونے کے باعث ان کے لیے مرکز کی ضروریات پوری کرسکے۔ ان کی ملی، دینی، اور سیاسی ضرورتوں کا تقاضا یہ تھا کہ جن حدود میں وہ گھر کر رہ گئے ہیں وہیں ان کے لیے ایک قبلہ کی ضرورت کو پورا کیا جائے۔ کعبہ کی حقیقی ضرورت امت کو عقیدت اور عبادت کے حوالے سے ایک رخ دینا ہے اور ان کے دینی احساسات کو اس طرح اس کے ساتھ وابستہ کرنا ہے کہ وہ سال میں کم از کم ایک دفعہ پوری امت میں تحریک کا باعث بن سکے۔ امت کے صالح افراد کو چن چن کر اس طرح کھینچے جس طرح دل شریانوں سے خون کھینچتا ہے اور پھر ان میں دینی جذبات اور عقیدت اور محبت کی آگ بھر کر اس طرح واپس پوری امت میں پھیلا دے جس طرح دل خون کو پمپ کرکے اسے شریانوں میں واپس کرتا ہے ورنہ کعبہ کا یہ مقصد نہیں ہوتا کہ اس کی پوجا کی جائے، پوجا اور عبادت تو صرف اللہ کی ہوتی ہے۔ یہ تو انسانی احساسات کی فطری ضرورت ہے کہ ان کی تطہیر کے لیے ایک محسوس نمو نہ ان کے سامنے ہو جس کے طواف میں وہ عاشقانہ بےخودی محسوس کریں اور جس کی زیارت سے آنکھوں میں نور اور دلوں میں ٹھنڈک کا احساس ہو اور جس کے گردوپیش میں بندگی اور عقیدت سرفروشی اور قربانی کی وہ عظیم یادگاریں بکھری ہوئی ہوں جس سے قدم قدم پر انسان کے خفتہ احساسات کو زندگی ملے۔ بنی اسرائیل کی دینی تعلیم و دعوت چونکہ بنی اسرائیل کی حدود سے باہر نہ نکل سکی اس لیے بجائے اس کے کہ دینی احساسات کے ساتھ انھیں آل اسماعیل سے ٹکرادیا جاتا انھیں بیت المقدس کی شکل میں اللہ کا گھر دیا گیا جس کا رخ تو بیت اللہ کی طرف رہا لیکن بنی اسرائیل کی مرکزیت کی ضرورت پوری کرتا رہا۔ اب جبکہ نئی امت وجود میں آگئی بنی اسرائیل اس منصب سے معزول ہوگئے اس امت نے اس منصب کی ذمہ داریاں سنبھال لیں تو یقینی بات تھی کہ انھیں مرکزیت کے لیے وہ قبلہ دیا جاتا جس کے لیے اس کے عظیم معمار نے دعائیں مانگی تھیں اور جسے قیامت تک کے لیے ہدایت کا سرچشمہ بننا تھا کیونکہ وہ پہلے دن سے جب دنیا میں اور کوئی قبلہ نہ تھا اسی حیثیت اور شناخت کا حامل بنایا گیا تھا۔ یہ تمام حقائق چونکہ یہود اچھی طرح سمجھتے تھے اس لیے تحویلِ قبلہ کا حکم دینے سے پہلے ان کے ردعمل کو حماقت اور بےوقوفی ٹھہرایا گیا اور ایک دوسرے پہلو سے ان کی بےوقوفی کو مزید نمایاں بھی فرمایا گیا۔ ارشاد ہوتا ہے :
Top